اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 ستمبر 2025ء) چنڈی گڑھ میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، اعلیٰ فوجی قیادت، سابق فوجی اہلکار اور اہل خانہ کی موجودگی میں سوویت دور کے لڑاکا طیارے مگ-21 کی 62 سالہ شاندار سروس کے اختتام پر ایک شاندار الوداعی تقریب منعقد کی گئی۔
اس تقریب میں مگ-21 کی جیگوار اور سوریہ کرن ایروبٹک ٹیم نے شاندار فضائی مظاہرہ پیش کیا، جن میں تاریخی"بادل" اور "پینتھر" فارمیشنز شامل تھیں۔
لڑاکا طیاروں کو لینڈنگ کے وقت واٹر کینن سلامی دی گئی، اور فضائیہ کے سربراہ نے مگ-21 کا فارم 700 لاگ بک وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو پیش کیا، جو ایک دور کے اختتام کی علامتی روایت ہے۔
راج ناتھ سنگھ نے اس موقع پر کہا، ''مگ-21 طویل عرصے تک بے شمار بہادری کے کارناموں کا گواہ رہا ہے۔
(جاری ہے)
اس کا کردار کسی ایک جنگ یا کسی ایک آپریشن تک محدود نہیں رہا۔
1971 کی جنگ سے لے کر کارگل تنازعے تک، یا بالاکوٹ ایئر اسٹرائیک سے آپریشن سیندور تک، کوئی ایسا لمحہ نہیں جب مگ-21 نے نے ہماری مسلح افواج کو غیر معمولی طاقت فراہم نہ کی ہو۔‘‘’فضائیہ کی ریڑھ کی ہڈی‘
مگ-21، جس کی تاریخ اتار چڑھاؤ سے بھری رہی ہے، کبھی بھارتی فضائیہ کی ریڑھ کی ہڈی تھا۔ یہ بھارت کا پہلا سپرسونک لڑاکا اور انٹرسیپٹر طیارہ تھا، جسے 1960 کی دہائی میں شامل کیا گیا۔
اس کے آخری دو اسکواڈرنز،پینتھرز اور کوبراز جو تقریباً 36 طیاروں پر مشتمل تھے، جمعہ کو چنڈی گڑھ میں باضابطہ طور پر ریٹائر کر دیے گئے۔
ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھارتی فضائیہ کی پہلے سے کمزور ہوتی ہوئی اسکواڈرن طاقت مزید کم ہو گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ سوویت دور کا یہ طیارہ اتنی طویل مدت تک خدمت میں رہا، فضائیہ کو لاحق مشکلات کا ثبوت ہے اور درپیش مستقل چیلنجز کو ظاہر کرتا ہے۔
’اڑتا تابوت‘؟
مگ-21، کو اپنی آخری سروس کے برسوں میں ایک خوفناک لقب ملا، ’’اڑتا تابوت۔‘‘
اس کی ریٹائرمنٹ متعدد حادثات کے بعد عمل میں آئی، جن میں مئی 2023 کا ایک واقعہ بھی شامل ہے جب راجستھان میں ایک طیارہ گرنے سے تین مقامی افراد ہلاک ہوئے۔
جب یہ 1963 میں بھارتی فضائیہ میں شامل ہوا تو اس کو دنیا کے بہترین لڑاکا طیاروں میں شمار کیا جاتا تھا۔
کئی دہائیوں اور اپ گریڈز کے دوران، یہ واحد انجن اور واحد نشست والا طیارہ، جو سابق سوویت یونین کے میکویان-گوریویچ ڈیزائن بیورو نے تیار کیا تھا، نے بھارت کی متعدد جنگوں میں اپنی صلاحیت ثابت کی۔ اس میں 1965 کی بھارت-پاکستان جنگ، 1971 کی بنگلہ دیش کی جنگ اور 1999 کی کارگل لڑائی شامل ہیں۔
بھارت نے اسے وقت کے ساتھ اپ گریڈ بھی کیا تاہم، ان اپ گریڈز نے کچھ بنیادی مسائل حل نہ کیے، خاص طور پر انجن کا مسئلہ، جو اچانک بند ہو جانے کے لیے بدنام تھا۔
اور واحد انجن والے طیارے کے لیے یہ ایک بڑا نقص سمجھا جاتا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 60 برسوں میں 500 سے زیادہ مگ-21 حادثات کا شکار ہوئے، جن میں کم از کم 170 پائلٹ ہلاک ہوئے۔ 2010 کے بعد سے 20 سے زیادہ طیارے حادثے کا شکار ہوئے۔
جنگی طیاروں کے لیے سات ارب ڈالر کا معاہدہ
دریں اثنا بھارت نے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مزید بہتر کرنے کے لیے جمعرات کو سات ارب ڈالر کا آرڈر دیا ہے جس کے تحت 97 گھریلو طور پر ڈیزائن اور تیار کیے گئے "تیجس" لڑاکا طیارے خریدے جائیں گے۔
تیجس لڑاکا طیاروں کا یہ آرڈر تعداد کے اعتبار سے بھارت کے ایک ہی بار دیے گئے بڑے آرڈرز میں سے ایک ہے۔ ان طیاروں کی پہلی کھیپ 2016 میں فضائیہ میں شامل ہوئی تھی، جب کہ تازہ آرڈر اس کے اپ گریڈڈ ورژن ایم کے ون اے، کے لیے ہے۔
بھارت ہتھیار درآمد کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔ اس نے اپنی افواج کو جدید بنانے کو اولین ترجیح بنا رکھا ہے اور ملکی پیداوار کو بڑھانے کے لیے کوششیں کی ہیں۔
بھارتی وزارت دفاع نے کہا کہ ''ان طیاروں کی ترسیل 2027-28 میں شروع ہوگی اور چھ سال کی مدت میں مکمل کی جائے گی۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین