پاکستان کا قرضہ 94 کھرب، آدھا بجٹ صرف سود ادائیگی میں صرف ہوتا ہے

جون 2025 تک حکومتی اندرونی قرضہ بڑھ کر 54.47 کھرب روپے تک جا پہنچا ہے، جوگزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 15.5 فیصد زیادہ ہے

جمعہ 26 ستمبر 2025 21:14

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 26 ستمبر2025ء) بزنس کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچوئلزفورم اورآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، ایف پی سی سی آئی کی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین اورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے ملک کے بڑھتے ہوئے قرضوں کی سنگین حالت اور ادائیگیوں کے ممکنہ بحران سے بچنے کے لیے فوری اور جامع پالیسی اقدامات کی ضرورت پرزوردیاہے۔

انہوں نے کہا کہ تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق جون 2025 تک پاکستان کے سرکاری اور پرائیویٹ مجموعی قرضے اور واجبات تقریبا 94.2 کھرب روپے 331.9 ارب ڈالرتک پہنچ چکے ہیں۔ ان اعداد وشمار سے ملک کی مالی مشکلات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اگرچہ پبلک ڈیٹ ٹوجی ڈی پی تناسب 2020 میں 77 فیصد کی بلند سطح سے کم ہوکرتقریبا 70 فیصد پرآگیا ہے، مگر ملک پر مجموعی قرضوں کا بوجھ اب بھی تاریخی طورپربلند ترین سطح پر ہے۔

(جاری ہے)

میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان کے قرضوں کے رجحان میں بھی نمایاں تبدیلی آئی ہے اور ملک کا اندرونی قرضوں پرانحصار بڑھ گیا ہے۔ جون 2025 تک حکومتی اندرونی قرضہ بڑھ کر 54.47 کھرب روپے تک جا پہنچا ہے، جوگزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 15.5 فیصد زیادہ ہے۔ یہ صورتحال بیرونی قرضوں کے حصول میں مشکلات کی عکاس ہے۔ دوسری جانب، پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضے 38.3 کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں جوڈالرکے حساب سے تو بڑھے ہیں مگرکل قرضوں میں ان کا حصہ اب گھٹ کر 32 فیصد رہ گیا ہے۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ قرضوں کی سب سے تشویشناک بات اس کا وفاقی بجٹ پربوجھ ہے۔ مالی سال 2026 کے وفاقی بجٹ میں قرضوں کی ادائیگی کے لیے 8.207 کھرب روپے مختص کیے گئے ہیں جوکل بجٹ کے 17.573 کھرب روپے میں سے تقریبا نصف ہے۔ جس سے حکومت کی تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری محدود ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کی جی ڈی پی جمود کا شکار ہے۔

مالی سال 2026 میں ملک کوخاص طور پرکڑے چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ 26 ارب ڈالرکے بیرونی قرضے واپس کرنے ہیں۔ اس کے لیے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے اہم دوست ممالک سے کمرشل اور ڈپازٹس کی ری شیڈولنگ پاکستان کے لیے ایک معاشی لائف لائن بن گئی ہے، کیونکہ ملک کے پاس اپنے طورپریہ ادائیگیاں کرنے کے لیے زرمبادلہ کے ذخائرموجود نہیں ہیں۔

میاں زاہد حسین نے قرضوں کے مسئلے کے حل کے لیے فیصلہ کن اورکثیرجہتی حکمتِ عملی اپنانے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کوٹیکس کے دائرے کووسیع کرنے اورٹیکس ایڈمنسٹریشن کوبہتربنانے کے اقدامات تیز کرنے چاہئیں تاکہ قرضوں پرانحصارکم ہو۔ کم ٹیکس دینے والے شعبوں اور نان فائلرز کوٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے۔ دوستوں ممالک سے قرضوں کی ری شیڈولنگ وقتی ریلیف تو دیتی ہے مگرطویل مدتی معاشی پائیداری کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنا، صنعت کاری اور ایکسپورٹس میں اضافہ، کیپیٹل مارکیٹ کو وسعت دینا اور کمرشل بینکوں پرانحصارکم کرنا ناگزیر ہے۔

میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ حالیہ حکومتی اقدامات قابلِ تعریف ہیں لیکن ہماری معیشت کی صحت بیرونی حالات اورقرض دہندگان پرخطرناک حد تک انحصارکرتی ہے۔ ہمیں اس مہلت کوبنیادی اصلاحات کے لیے استعمال کرنا ہوگا تاکہ ٹیکس کے محدود دائرے اور کم پیداوار جیسے بنیادی مسائل حل ہوں اورپاکستان پائیدار اورطویل مدتی معاشی ترقی کی راہ پرگامزن ہوسکے۔