اسرائیلی فلسطینی تنازعے میں ویسٹ بینک کی حیثیت مرکزی کیسے؟

DW ڈی ڈبلیو منگل 30 ستمبر 2025 18:00

اسرائیلی فلسطینی تنازعے میں ویسٹ بینک کی حیثیت مرکزی کیسے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 ستمبر 2025ء) دریائے اردن کے مغربی کنارے پر اسرائیل اور اردن کے درمیان واقع، مغربی کنارہ اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے دو ریاستی حل کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے تصور کے مطابق اس میں مغربی کنارہ اور غزہ پٹی شامل ہوں گے اور مشرقی یروشلم اس کا دارالحکومت ہوگا۔ لیکن اسرائیلی بستیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد جسے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، جنیوا کنونشنز، اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی بھاری اکثریت غیر قانونی سمجھتی ہے اور جہاں بڑھتے ہوئے تشدد نے، جس میں تقریباً دو سال سے بھی کم عرصے میں اسرائیلی افواج اور آباد کاروں کے ہاتھوں لگ بھگ 1,000 فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں، اس تصور کے حقیقت بننے میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کے 1947 کے تقسیم کے منصوبے میں الگ الگ یہودی اور عرب ریاستیں بنانے کی سفارش کی گئی تھی۔ لیکن مئی 1948 میں اسرائیل کی آزادی کے اعلان کے بعد عرب ریاستوں نے اس پر حملہ کر دیا، جو پہلی عرب اسرائیلی جنگ کا سبب بنا۔ 1949 میں جنگ کے اختتام پر اسرائیل نے زیادہ تر وہ زمین اپنے قبضے میں لے لی، جو اصل میں فلسطینی ریاست کے لیے مختص کی گئی تھی۔

اردنی افواج نے مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے پر کنٹرول حاصل کر لیا، اور 1950 میں اسے باضابطہ طور پر اپنے ساتھ شامل کر لیا، یہ ایک ایسا اقدام تھا جسے بین الاقوامی سطح پر مسترد کر دیا گیا تھا۔

اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت اپنے گھروں سے نکالے جانے والے 750,000 سے زیادہ فلسطینیوں میں سے بہت سے لوگوں کو اردن کے علاقے میں پناہ دی گئی۔

اس دور کو النکبہ کہا جاتا ہے، جس کا عربی زبان میں مطلب ''تباہی‘‘ یا ''آفت‘‘ ہے۔

اردن کا یہ علاقہ 5,655 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل ہے جہاں آج بھی پناہ گزین کیمپوں کا انتظام اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA) کے پاس ہے۔

اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ میں مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد سے وہ اس پر قابض ہے۔

امریکہ کے علاوہ زیادہ تر بین الاقوامی برادری مغربی کنارے پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم نہیں کرتی۔

پہلی اسرائیلی بستی مغربی کنارے میں 1960 کی دہائی کے آخر میں تعمیر کی گئی تھی۔ 1980 کی دہائی میں بستیاں بڑھنا شروع ہوئیں اور حالیہ برسوں میں نئی بستیاں تعمیر کرنے کے اس سلسلے میں مزید تیزی آئی ہے۔ آج 500,000 سے 800,000 کے درمیان یہودی آباد کار یہاں رہتے ہیں، جن میں سے بہت سے ریاستی حمایت یافتہ ترقیاتی منصوبوں میں رہائش پذیر ہیں۔

ان آباد کاروں میں سے کچھ فلسطینیوں کے خلاف تشدد میں ملوث ہیں۔ یکے بعد دیگرے آنے والی اسرائیلی حکومتوں نے وہاں پہلے غیر قانونی سمجھی جانے والی چوکیوں کو قانونی حیثیت دی اور بستیوں کو وسعت بھی دی، جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے ایک متصل فلسطینی ریاست کا قیام تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔

سات اکتوبر 2023 کو غزہ سے اسرائیل میں حماس کی قیادت میں ہونے والے حملے کے بعد اسرائیلی افواج نے مغربی کنارے کے پناہ گزین کیمپوں جیسے جنین، طولکرم، اور نور شمس پر چھاپوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔

ان کارروائیوں میں عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس سے شہری بھی بے گھر ہوتے ہیں۔ دریں اثنا فلسطینی اتھارٹی (پی اے) اور اس کے بزرگ رہنما صدر محمود عباس پر عدم اطمینان بڑھ رہا ہے۔

مغربی کنارے کی معیشت اور سیاست

فلسطینی سینٹرل بیورو آف اسٹیٹسٹکس سے دستیاب تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، 2023 تک مغربی کنارے میں تقریباً 3.2 ملین فلسطینی رہتے تھے، جبکہ مغربی کنارے میں بسائے گئے اسرائیلی آباد کاروں کی تعداد 800,000 تک تھی۔

مغربی کنارے کے فلسطینیوں میں عرب دنیا میں سب سے زیادہ خواندگی کی شرح میں سے ایک ہے، جبکہ یہاں ایک ابھرتا ہوا ٹیکنالوجی کا شعبہ، اور ایک بھرپور ثقافتی زندگی ہے۔ زراعت، خاص طور پر زیتون کی کاشت اس کی معیشت کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔

فلسطینی اتھارٹی 1994 میں اوسلو معاہدوں کے تحت قائم کی گئی تھی۔ فتح پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر محمود عباس کی قیادت میں پی اے مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر حکومت کرتی ہے لیکن اس میں حماس شامل نہیں ہے۔

اوسلو II (1995) کے تحت، مغربی کنارے کے علاقے کو تین زونز میں تقسیم کیا گیا تھا:

  • علاقہ A (18 فیصد): پی اے کو تقریباً مکمل سول اور سکیورٹی کنٹرول حاصل ہے، بشمول بڑے شہروں رام اللہ، نابلوس، اور بیت للحم میں۔ یہاں 2.5 سے 3 ملین فلسطینی رہتے ہیں۔

  • علاقہ B (22 فیصد): پی اے سول معاملات کا انتظام کرتی ہے، لیکن مکمل بیرونی سکیورٹی کنٹرول اسرائیل کے پاس ہے، جس میں افواج کو جب چاہیں وہاں داخل ہونے کی اجازت ہوتی ہے۔

    یہ علاقہ 700,000 سے 800,000 فلسطینیوں کا گھر ہے۔

  • علاقہ C (60 فیصد): مکمل اسرائیلی کنٹرول میں ہے۔ اس علاقے میں تمام یہودی بستیاں شامل ہیں اور یہ اندازاً 500,000 سے 800,000 اسرائیلیوں کے علاوہ تقریباً 300,000 فلسطینیوں کا گھر ہے۔

چیک پوائنٹس، بار بار سڑکوں کی بندش اور علاقوں کو الگ کرنے والی رکاوٹیں علاقے A اور B کے درمیان بھی فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو محدود کرتی ہیں، جس سے رہائشیوں کے لیے نوکریوں اور خدمات تک رسائی محدود ہو جاتی ہے۔

کچھ اسرائیلی سیاست دان علاقہ C کو ضم کرنے کی وکالت کرتے ہیں، جس سے علاقے A اور B چھوٹے فلسطینی انکلیوز کے طور پر رہ جائیں گے۔ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کی فلسطینیوں، عرب پڑوسیوں، اور زیادہ تر بین الاقوامی برادری کی طرف سے سخت مخالفت کی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ، یورپی یونین، اور عرب لیگ اب بھی سرکاری طور پر دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں، اور ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے خطے سے باہر کے ممالک کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

ادارت: مقبول ملک/ کشور مصطفیٰ