اوبامہ مسلم دنیا میں امریکہ کی ساکھ بحال کرنے اور مشرق وسطیٰ میں بہتری کا ہدف حاصل نہ کرسکے، امریکی میڈیا،امریکا کا ایک اہم اتحادیسعودی عرب، اسرائیل اور ایران کے ساتھ تعلقات، بالخصوص جوہری تنازعے کے تناظر میں فکر مند ہے،رپورٹ

پیر 13 جنوری 2014 07:42

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13 جنوری ۔2014ء)پانچ برس قبل اوباما نے اقتدار سنبھالتے ہی اِس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ مشرق وسطٰی کے ساتھ روابط میں بہتری اور مسلم دنیا میں امریکا کی ساکھ کو بہتر بنائیں گے تاہم اْن کی یہ حکمت عملی مطلوبہ اہداف حاصل کرنے سے قاصر رہی۔امریکہ میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند برسوں کے دوران امریکی صدر باراک اوباما کو افغانستان سے لے کر تیونس تک بیشتر مسائل کا سامنا رہا ہے۔

اِسی سال افغانستان سے بین الاقوامی افواج کا انخلاء طے ہے اور افغان صدر حامد کرزئی ہیں کہ باہمی سکیورٹی کے معاہدے پر دستخط کر کے ہی نہیں دے رہے۔ اْدھر شام میں مغربی ممالک کی حمایت یافتہ اپوزیشن صدر بشار الاسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے اپنے عزائم میں ناکام ہوتی نظر آتی ہے تو اِسی دوران اْسے اب اسلام پسند قْوتوں کا بھی سامنا ہے۔

(جاری ہے)

یہ وہی اسلام پسند قْوتیں ہیں، جو لبنان اور عراق میں بھی بد امنی کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ دریں اثناء مصر میں اسلام پسند جماعت اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے سابق صدر محمد مرسی کی معزولی کے بعد سے وہاں پر تشدد واقعات جاری ہیں اور واشنگٹن وہاں کی صورتحال کو بھی واضح انداز میں سمجھنے سے قاصر ہے۔تاہم اس دوران امریکی وزیر خارجہ جان کیری اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اسرائیل اور فلسطین کے مابین تین برس کی تعطلّی کے بعد واشنگٹن کی ثالثی میں گزشتہ برس دوبارہ شروع ہونے والے امن مذاکرات بے نتیجہ نہ رہیں۔

امریکی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ جان کیری کے علاوہ اوباما کی قومی سلامتی سے متعلق ٹیم کے اہلکاروں نے شام، عراق، لبنان، لیبیا اور مصر کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں واشنگٹن کو تنقید اور فکر دونوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔عرب دنیا میں امریکا کا ایک اہم اتحادی ملک سعودی عرب، اسرائیل اور بیشتر امریکی اراکین کانگریس کے ہمراہ اوباما انتظامیہ کے ایران کے ساتھ تعلقات، بالخصوص جوہری تنازعے کے تناظر میں، فکر مند ہے۔

اس کے برعکس واشنگٹن انتظامیہ کا اصرار ہے کہ اس کی پوزیشن مستحکم ہے اور وہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے قاصر اور سیاسی مشکلات‘ جیسے مسائل کا شکار نہیں ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ صدر اوباما ہر مخصوص ملک یا مسئلے کے لیے کافی سوچ بچار کے بعد جامع سفارتی حل تلاش کرنے کے عمل میں مصروف ہیں، جو سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی عسکری اور دباوٴ ڈالنے والی حکمت عملی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ہے۔

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹد پریس کے اس تجزیے کے مطابق اگرچہ مشرق وسطٰی کو درپیش بحران کی ذمہ داری اوباما پر عائد نہیں کی جاسکتی تاہم اس حوالے سے خدشات ضرور بڑھ رہے ہیں کہ خطے کے لیے واشنگٹن کی پالیسیاں کسی واضح سمت میں نہیں جا رہیں اور کسی حد تک یہ بھی ممکن ہے کہ اِنہی پالیسیوں کی وجہ سے شام اور عراق جیسے ممالک میں اسلامی شدت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اوباما انتظامیہ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے اِن تمام ممالک پر سے اپنی توجہ ہٹا کر اسرائیلی و فلسطینی تنازعے پر مرکوز کر رکھی ہے۔ ری پبلکن سینیٹر لنڈسے گریہم نے یروشلم میں تین روز قبل منعقدہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ خطے میں بے انتہا افراتفری برپا ہے۔ انہوں نے کہا، ”اسرائیل ایسی ریاستوں میں گھرا ہوا ہے، جو مسائل کا شکار ہیں جبکہ اسی دوران ایران ایٹمی صلاحیت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ شام نے ایک سرطان کی شکل اختیار کر لی ہے، جس سے خطے کے کئی دیگر ممالک متاثر ہو رہے ہیں۔ میں امن کا خواہاں ہوں۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا امریکا پر نظریں لگائے بیٹھی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ امریکی رہنما اپنا کردار ادا کریں۔