پاکستان کے معروف صحافی اور نوائے وقت گروپ کے ایڈیٹر انچیف اور تحریک پاکستان کے سرکردہ کارکن ڈاکٹر مجید نظامی لاہور میں 86 برس کی عمر میں انتقال کرگئے، نماز جنازہ باغ جناح میں اداکی گئی ، وزیراعلی پنجاب شہبازشریف ‘گورنرپنجاب چوہدری محمد سرور‘ عارف نظامی‘میاں عامر محمود اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کی شرکت کی، جامعہ نعمیہ کے مہتتم ڈاکٹرراغب نعیمی نے نمازجنازہ پڑھائی،میانی صاحب قبرستان میں ہزاروں سوگوران کی موجودگی میں سپردخاک، رسم قل آج عصرکی نمازکے بعدان کی رہائش گاہ میشن روڈ پر اداکی جائے گی، صدر ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف اور وزیراطلاعات پرویز رشید کا بزرگ صحافی کے انتقال پر اظہار افسوس

اتوار 27 جولائی 2014 08:38

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27جولائی۔2014ء)پاکستان کے معروف صحافی اور نوائے وقت گروپ کے ایڈیٹر انچیف اور تحریک پاکستان کے سرکردہ کارکن ڈاکٹر مجید نظامی لاہور میں 86 برس کی عمر میں انتقال کرگئے‘مجید نظامی پچھلے تین ہفتوں سے دل کی تکلیف کے باعث لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے‘اطلاعات کے مطابق بتایا تھا کہ مجید نظامی کو جمعرات کو سینیئر ڈاکٹروں کی نگرانی میں ونٹیلیٹر پر ڈال دیا گیا تھا‘مجید نظامی 3 اپریل 1928 میں پیدا ہوئے‘مجید نظامی تقریباً پچاس سال صحافت کی دنیا سے منسلک رہے‘ مجید نظامی نے زمانہ طالب علمی میں تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا ۔

سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق آزادی پاکستان میں ان کے کردار کو سراہتے ہوئے حکومت پاکستان نے ان کو مجاہدِ تحریکِ پاکستان کے ایوارڈ سے نوازا۔

(جاری ہے)

ان کی نماز جنازہ ہفتہ کے روزصبح 9بجے باغ جناح میں اداکی گئی جس میں وزیراعلی پنجاب شہبازشریف ‘گورنرپنجاب چوہدری محمد سرور‘ عارف نظامی‘میاں عامر محمود اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی جامعہ نعمیہ کے مہتتم ڈاکٹرراغب نعیمی نے نمازجنازہ پڑھائی-

انہوں نے پسماندگان میں صاحبزادی رمیزہ مجید نظامی چھوڑی ہیں۔

ان کے سوگواروں میں نوائے وقت گروپ کے عملہ کے ارکان بھی شامل ہیں جن میں انہوں نے اپنی زیادہ تر عمر کا حصہ گذارا۔ ڈاکٹر مجید نظامی کی صحافت کا آغاز ان کے زمانہ طالب علمی ہی میں ہو گیا تھا۔ انہوں نے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے انٹرمیڈیٹ کے بعد ہیلی کالج لاہور میں بی کام میں داخلہ لیا تھا لیکن پھر اسے چھوڑ کر گورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے تاکہ گریجوایشن کے بعد پولیٹکل سائنس میں ایم اے کریں۔

اس زمانے میں ہی انہوں نے سرراہے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ گورنمنٹ کالج میں تعلیم کے دوران ہی مجید نظامی لندن چلے گئے اور وہاں انٹرنیشنل افیئرز کا کورس کیا۔ بار ایٹ لاء کیلئے گرے زان میں داخلہ لیا۔ وہاں لندن سے آپ نوائے وقت کو خبریں اور مکتوب لندن بھجواتے رہے۔ 1962ء میں جب بانی نوائے وقت حمید نظامی اللہ کو پیارے ہوئے تو مجید نظامی نے ان کی جگہ ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور 2014ء تک 52 سال تک یہ فریضہ جانفشانی کے ساتھ سرانجام دیا جو نہ صرف پاکستان کی صحافت بلکہ عالمی صحافت کا ایک ریکارڈ ہے۔

وہ ایک دبنگ اور دلیر ایڈیٹر تھے۔ سول حکمران ہو یا فوجی حکمران کوئی بھی مجیدنظامی کو ان کے اصولوں سے نہیں ہٹا سکا۔ نظریہ پاکستان سے ان کی کمٹمنٹ اور کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف ان کی نفرت دوستوں دشمنوں سب پر واضح تھی۔

بھارت سے پاکستان کے تعلقات بارے ان کا خاص نقطہ نظر تھا جو نوائے وقت کے اداریوں سے ظاہر ہوتا تھا۔ وہ شعلہ بیان مقرر تو نہیں تھے لیکن ان کے دھیمے لہحے میں گفتگو اتنی کاٹ دار ہوتی تھی کہ مخالفین کے دل دہل جاتے تھے۔

دوران تعلیم وہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے رکن بھی رہے۔تحریک پاکستان میں خدمات کے عوض ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے انہیں ،مجاہد تحریک پاکستان کا اعزاز دیا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے بھائی کے ساتھ اخبار کے کام میں شامل ہو گئے۔کچھ عرصے تک انہوں نے اپنا اخبار ندائے ملت بھی نکالا،تا ہم ایک دور وہ بھی آیا کہ انہیں اپنے بڑے بھائی حمید نظامی کے انتقال کے بعد ڈوبتے ہوئے نوائے وقت کو دوبارہ سنبھالنا پڑا۔

اس کے بعد سے انہوں نے اس اخبار کی ادارت سنبھالی اور اسے ملک کے چند بڑے اخباروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔مجید نظامی کو ایک ایسے اخبار کا چیف ایڈیٹر ہونے کا اعزاز ملا،جو 23مارچ 1940میں 15روزہ کے طور پر جاری ہوا،15دسمبر 1942میں ہفت روزہ اور بالآخر 19جولائی 1944میں روزنامہ کی صورت میں سامنے آیا۔مجید نظامی نے مرتے دم تک کشمیر کاز کو زندہ رکھا اور ایوان کارکنان تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں اکثر اس حوالے سے سیمینار کا انعقاد بھی کرواتے رہے۔

انہوں نے اپنے بڑے بھائی حمید نظامی کے ساتھ مل کرتحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،اورآخری دم تک بھارت کے خلاف سخت موقف ہی اپنائے رکھا‘ان کے انتقال پر پاکستان کی مختلف سیاسی، مذہبی اور سماجی شخصیات نے رنج و غم کا اظہار کیا اور صحافت کے لیے ان کی خدمات کو سراہا۔ مجید نظامی کو میانی صاحب قبرستان میں ہزاروں سوگوران کی موجودگی میں سپردخاک کردیا گیا ان کی رسم قل آج اتوار کے روزعصرکی نمازکے بعدان کی رہائش گاہ میشن روڈ پر اداکی جائے گی- علاوہ ازیں صدر ممنون حسین وزیراعظم نواز شریف اور وزیراطلاعات پرویز رشید نے بزرگ صحافی کے انتقال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے انہوں نے ملک میں ذرائع ابلاغ کے فروغ کے سلسلے میں مجید نظامی کی خدمات کو سراہا۔