’لَوجہاد‘ پر ہندو قوم پرستوں کی ناراضی،ویسے تو یہ محبت کی جنگ ہے لیکن محبت کے نام پر جام شہادت پینے والوں کو جواب نفرت سے دیا جا رہا ہے ،ہندو سخت گیر تنظیمیں مبینہ لوجہاد کے خلاف سرگرم ہوگئے، مسلمان نوجوان ہندو لڑکیوں کو ایک وسیع تر سازش کے تحت اپنی محبت کے جال میں پھنسا رہے ہیں اور اس غیر معمولی حکمت عملی کو انھوں نے ’لَو جہاد‘ کا نام دیا ہے، مغربی اتر پردیش کے کئی علاقوں میں تنظیم کے کارکن گھر گھر جاکر ہندو لڑکیوں کے ہاتھوں پر راکھی باندھ رہے ہیں، انھیں یہ سمجھانے کے لیے کہ وہ مسلمان نوجوانوں سے ہوشیار رہیں اور ان کی محبت میں گرفتار نہ ہوں،رپورٹ

بدھ 13 اگست 2014 08:52

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔13اگست۔2014ء)بھارت کے دارالحکومت دہلی سے ملحق مغربی اتر پردیش میں ہندو قوم پرستوں نے ’لَو جہاد‘ کے خلاف محاذ کھولا ہوا ہے۔ ویسے تو یہ محبت کی جنگ ہے لیکن محبت کے نام پر جام شہادت پینے والوں کو جواب نفرت سے دیا جا رہا ہے۔لیکن محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق قوم پرستوں کا الزام یہ ہے کہ مسلمان نوجوان ہندو لڑکیوں کو ایک وسیع تر سازش کے تحت اپنی محبت کے جال میں پھنسا رہے ہیں اور اس غیر معمولی حکمت عملی کو انھوں نے ’لَو جہاد‘ کا نام دیا ہے۔

جوابی کارروائی شروع ہوگئی ہے اور مغربی اتر پردیش کے کئی علاقوں میں تنظیم کے کارکن گھر گھر جاکر ہندو لڑکیوں کے ہاتھوں پر راکھی باندھ رہے ہیں، انھیں یہ سمجھانے کے لیے کہ وہ مسلمان نوجوانوں سے ہوشیار رہیں اور ان کی محبت میں گرفتار نہ ہوں۔

(جاری ہے)

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ان نوجوانوں کو محبت کی تربیت کون دے رہا ہے اور جب ہندو لڑکے مسلمان لڑکیوں سے شادی کرتے ہیں تو کیا وہ ’ریورس لَو جہاد‘ ہوتا ہے، اور انھیں محبت کر کے انتقام لینے کی تربیت کون دے رہا ہے؟

بہرحال، تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو اکبر اعظم سمیت کئی مغل بادشاہوں نے ہندو راجپوت شہزادیوں سے شادیاں کیں، نائب صدر جمہوریہ ایم ہدایت اللہ کی اہلیہ کا نام پشپا تھا، بالی وڈ میں ہندو لڑکیوں سے شادی کرنیوالوں میں فیروز خان تھے، پھر نصیر الدین شاہ ہیں، عامر خان ہیں، شاہ رخ ہیں، سیف علی خان ہیں (ایک مرتبہ نہیں دو مرتبہ)، ان کے والد نواب منصور علی خان پٹودی تھے، اظہرالدین ہیں، استاد امجد علی خان ہیں۔

یہ فہرست بہت لمبی ہے، قوم پرست ہی بتائیں گے ان لوگوں کے نام ’لَو جہادیوں‘ کی فہرست میں لکھے جائیں گے یا نہیں۔ اور کیا اعتراض کرنے والے فیصلہ کرنے سے پہلے ان لڑکیوں سے بھی ان کی رائے پوچھیں گے یا نہیں؟گذشتہ برس جب مظفر نگر میں فسادات ہوئے تھے تب بھی یہ تاثر دیا گیا تھا کہ ’لَو جہادی‘ چاروں طرف پھیل گئے ہیں۔ پھر گذشتہ ہفتے میرٹھ میں ایک ہندو لڑکی نے ایک مدرسے سے وابستہ کچھ لوگوں پر اجتماعی ریپ کا الزام لگایا تو قوم پرستوں نے کھل کر اعلان جنگ کر دیا۔

جسٹس کاٹجو کا کہنا ہے کہ پانچ جج تو اتنے بدنام تھے کہ وہ چاہتے تھے کہ انھیں عدالت کے احاطے میں داخل ہی نہ ہونے دیا جائے۔

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے پھر اعلیٰ عدلیہ میں بدعنوانی کا الزام لگایا ہے۔ اس مرتبہ نشانے پر الہ آباد ہائی کورٹ کے بعض سابق جج ہیں۔ جب جسٹس کاٹجو سپریم کورٹ کے جج تھے تب بھی انھوں نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے بارے میں انتہائی سخت زبان استعمال کی تھی۔

جسٹس کاٹجو کا کہنا ہے کہ پانچ جج تو اتنے بدنام تھے کہ وہ چاہتے تھے کہ انھیں عدالت کے احاطے میں داخل ہی نہ ہونے دیا جائے۔ ان سے کہا جائے کہ کورٹ آنے کی ضرورت نہیں ہے آپ کی تنخواہ گھر پہنچتی رہے گی۔ لیکن سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس اس کے لیے تیار نہیں ہوئے کیونکہ انھیں عدلیہ کی بدنامی کی فکر تھی۔لیکن جسٹس کاٹجو نے ایک اور حیرت انگیز دعویٰ کیا ہے۔ انھوں نے نام ظاہر کیے بغیر لکھا ہے کہ ایک جج کو الٰہ آباد ٹرانسفر کیا گیا کیونکہ وہ بہت بدعنوان تھے۔