مقدس مقام کو بند کرنا ’اعلانِ جنگ‘ ہے، صدرمحمود عباس،فلسطینی اتھارٹی اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے گی،نبیل ابو ردینہ

جمعہ 31 اکتوبر 2014 08:09

رام اللہ(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔31اکتوبر۔2014ء)فلسطینی رہنما محمود عباس کے ایک ترجمان نے بیت المقدس کے مقدس مقامات کو بند کرنے کے اسرائیلی اقدام کو ’اعلانِ جنگ‘ قرار دیا ہے۔نبیل ابو ردینہ نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے گی۔اس کے پہلے اسرائیلی پولیس نے ایک ایسے فلسطینی شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جس کے متعلق شبہ تھا کہ اس نے کچھ دیر قبل دائیں بازو کے ایک سرگرم یہودی کارکن کو گولی ماری تھی۔

اطلاعات کے مطابق جب پولیس نے اس شخص کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو اس نے گولی چلا دی جس کے بعد پولیس نے اسے گولی مار دی۔ربی یہودا گلک کو ایک میٹنگ میں شرکت کرنے کے چند گھنٹے کے بعد گولی ماری گئی جس میں انھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ یروشلم میں مقدس مقام تک یہودیوں کو زیادہ رسائی دی جائے۔

(جاری ہے)

گلک اس واقعے میں شدید زخمی ہو گئے تھے۔پولیس نے غیر معمولی اقدامات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سائٹ کو سب عبادت گزاروں اور سیاحوں کے لیے بند کر دیا ہے۔

فلسطینی رہنما نے ان اقدامات کی مذمت کی ہے۔امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق محمود عباس نے کہا ہے کہ ’یروشلم اور اس کے سبھی اسلامی اور مسیحی مقدس مقامات ایک سرخ لکیر ہیں اور انھیں چھونا ناقابلِ قبول ہے۔‘امریکی نڑاد ربی گلک مہم چلاتے رہے ہیں کہ یہودیوں کو ٹیمپل ماوٴنٹ پر، جسے مسلمان حرم الشریف کہتے ہیں، عبادت کے لیے زیادہ رسائی دی جائے۔

یہ یہودیوں کا سب سے مقدس مقام ہے اور اسی میں الاقصیٰ مسجد بھی ہے جس کو مسلمان کعبہ اور مسجدِ نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام مانتے ہیں۔ربی گلک پر حملہ ان واقعات میں حالیہ اضافہ ہے جس کی وجہ سے یروشلم میں فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان تناوٴ بڑھا ہے۔ برطانوی نیوز ایجنسی کے مطابق اسلامی گروہ حماس نے ہلاک کیے جانے والے 32 سالہ فلسطینی کا نام معتز حجازی بتایا ہے۔

پولیس کے مطابق حجازی پہلے بھی جیل کاٹ چکے ہیں اور انھیں 2012 میں رہا کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ان کا تعلق شدت پسند تنظیم ’اسلامی جہاد‘ سے تھا۔پولیس نے کہا جب انھوں نے مشتبہ شخص کا گھر گھیرے میں لے لیا تو ان پر فائرنگ کی گئی جس کے بعد جوابی فائرنگ سے وہ شخص ہلاک ہو گیا۔ربی گلک کے سینے اور پیٹ میں گولیاں لگی ہیں۔انھوں نے حملے سے کچھ دیر پہلے ہی ایک کانفرنس میں شرکت کی تھی جس میں مندوبین نے مقدس احاطے پر یہودی دعوے پر غور کیا تھا۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اس مقام پر عبادت کی آزادی کا تحفظ کر رہا ہے، جبکہ فلسطینی کہتے ہیں وہ ایسے یک طرفہ اقدامات کر رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ یہودی سیاحوں کو وہاں جانے کی اجازت دی جائے۔اس مقام کا منتظم ایک اسلامی ادارہ ہے جبکہ پولیس اس کی سکیورٹی کی انچارج ہے۔یہودیوں کو اس احاطے میں جانے کی اجازت تو ہے لیکن اسلامی قانون کے مطابق وہ وہاں عبادت نہیں کر سکتے۔