بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے مابین اختلافات کھل کر سامنے آ گئے

اتوار 30 نومبر 2014 09:31

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔30نومبر۔2014ء ) بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے مابین اختلافات کھل کر سامنے آ گئے مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ(ق) جو کہ مخلو ط حکومت کی پارلیمانی اتحادی جماعتیں ہیں جنہوں نے اسمبلی اجلاس کے دوران امن وامان سمیت دیگر امور پر مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق)کے پارلیمانی لیڈران اور دیگر ارکان اسمبلی نے اپنی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ایک سیاسی تجزیہ کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ(ق) کے اراکین اسمبلی گزشتہ کئی عرصہ سے وزیراعلیٰ بلوچستان پر دبے الفاظ میں تنقید کرتے چلے آرہے تھے تاہم گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ن) اورمسلم لیگ (ق) کے اراکین اسمبلی نے اپوزیشن جماعتوں کیساتھ ملکر اسمبلی اجلاس طلب کرنے کیلئے جو ریکوزیشن جمع کرائی اور بعدازاں آج کے اسمبلی اجلاس میں میں کھل کر اپنی حکومت پر تنقید کی اس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں میں شدید اختلافات بدستور قائم ہیں ان سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق مسلم لیگ(ن) اورمسلم لیگ (ق) کے اراکین اسمبلی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہیں اوپر سے کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے اس لئے مسلم لیگ (ن) اورمسلم (ق)آئندہ چند دنوں میں کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور صوبائی قیادت اس حوالے سے مکمل طورپر بااختیار ہے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور مسلم لیگ(ق) کے پارلیمانی گروپ میں اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ اب نیشنل پارٹی کیساتھ ان کا مزیدچلنامشکل ہے جس کا اظہار مسلم لیگ(ن) اورمسلم لیگ (ق) کے پارلیمانی لیڈران اور اراکین اسمبلی نے اجلاس میں اظہار خیال میں اشارہً کر بھی دیا ہے مسلم لیگ(ن) اور مسلم لیگ(ق) کی اکثریت کو اب بھی وزیراعلیٰ سے تحفظات اور شکایات ہیں اور آج کے اجلاس میں ان کی بھرپور شرکت کامقصد اپنی ایک اقلیتی رکن اسمبلی کو حلف دلانا تھا جس کی راہ میں بعض اطراف سے رکاوٹیں ڈالی جارہی تھیں ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) لیگ اورمسلم لیگ (ق) بدستور اپنے بائیکاٹ پر قائم و دائم ہے اور یہ اختلافات بدستور جاری ہیں ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ(ق) کا مشترکہ پارلیمانی گروپ کا اجلاس کل شام چار بجے مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر نواب ثناء اللہ زہری کی زیر صدارت دوبارہ منعقد ہوگا جس میں آئندہ کے لائحہ عمل کا جائزہ لیا جائے گا اور اس بات پر غور کیا جائے گا کہ آئندہ کیا سیاسی حکمت عملی مرتب کی جائے ۔

متعلقہ عنوان :