انکوائری کمیشن،2013ء کے انتخابات میں منظم دھاندلی ہوئی، حفیظ پیرزادہ،اعتزاز احسن،آپ نے زبانی،تحریری دلائل میں کہا کہ ن لیگ دھاندلی کی ذمہ دار ہے کمیشن کو بتائیں کہ کس طرح ملوث تھی،چیف جسٹس کاحفیظ پیرزادہ سے استفسار، 2008 کے انتخابات میں ن لیگ نے 6.8 ملین،2013 میں 14.87 ملین ووٹ حاصل کئے جو دوگنا سے بھی زیادہ ہیں یہ کسی طرح ممکن نہیں،حفیظ پیرزادہ، (ن) لیگ نے پنجاب سے 12 ملین،باقی تین صوبوں سے 2 ملین ووٹ حاصل کئے،سندھ،کے پی میں ن لیگ کے امیداروں کی ضمانتیں ضبط ہوئیں، حفیظ پیرزادہ ،نوازشریف،عمران خان کے حلقوں میں ایکسٹرا بیلٹ پیپرز نہیں چھپوائے گئے، وفاقی وزراء کے حلقوں میِں چھپوائے گئے،اعتزاز،اس وقت وہ امیدار تھے،چیف جسٹس،حفیظ پیرزادہ،عتزاز احسن کے دلائل مکمل،کمیشن کی کارروائی آج تک ملتوی ، مسلم لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں کے وکلاء آج دلائل دیں گی

جمعرات 2 جولائی 2015 09:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔2 جولائی۔2015ء )عام انتخابات 2013میں منظم دھاندلی ہوئی یانہیں ،تین رکنی انکوائری کمیشن تحقیقات مکمل کرنے کے قریب پہنچ گیاجلد فیصلہ آنے کاامکان ہے۔تحریک انصاف کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے دلائل مکمل کرتے ہوئے جمع کرائے گئے ثبوتوں کوہی انتخابات میں منظم دھاندلی کا ثبوت قراردیاہے،پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل بیرسٹر چوہدری اعتزازاحسن نے دلائل مکمل کرلیے ہیں اور کہاہے کہ اگر اصغر خان کیس میں صرف 32افراد کوپیسے دینے کے الزام پر فیصلہ دیاجاسکتاہے توبڑی تعداد میں فارم پندرہ جمع نہ کروانے ،تھیلے کھلے ہوئے ملنے اورآراوز،گواہوں پر جرح کے بعدبات واضح ہوچکی ہے کہ منظم طریقے سے دھاندلی ہوئی ہے اوراس بنیاد پر پورے انتخاب کوکالعدم قراردیاجاسکتاہے پیپلزپارٹی نے تجویزدی تھی کہ سارے حلقوں کے تھیلے مرحلہ واران کے امیدواروں کے سامنے کھولے جاتے مگر اس تجویزکوکمیشن نے یکسرنظر اندزکیا، جبکہ مسلم لیگ ق کے ڈاکٹر خالدرانجھا،ایم کیوایم کے فروغ نسیم آج جمعرات کودن گیارہ بجے تک دلائل دیں گے ان کے بعدمسلم لیگ ن کے وکیل شاہد حامداورالیکشن کمیشن کے وکیل سلمان اکرم راجادلائل دیں گے انکوائری کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس ناصرالملک نے کہاہے کہ تحریک انصاف نے منظم دھاندلی کے حوالے سے براہ راست ن لیگ پر جوالزامات عائد کیے ہیں ان کے حوالے سے ٹھوس شواہد بھی دیے جائیں ،آرڈیننس کے مطابق انکوائری کمیشن کی مدت 120روز ہے مگر ہماری کوشش ہے کہ جلد سے جلد فیصلہ کردیاجائے جبکہ تحریک انصاف کے وکیل حفیظ پیرزادہ نے دلائل میں موقف اختیارکیاہے کہ انتخابات 2013میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ،انکوائری کمیشن فارم پندرہ اوریگر انتخابی بے ضابطگیوں کی روشنی میں پورے انتخابات کوکالعدم قراردے سکتاہے ،تحریک انصاف نے مقدور بھرشواہد اورگواہ پیش کیے ہیں انکوائری کمیشن کوفیصلے کے لیے تمام تر فوجداری اورسول نوعیت کے خصوصی اختیارات حاصل ہیں ، بدھ کے روز جوڈیشل کمیشن کی کارروائی شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے عبدالحفیظ پیرزادہ سے کہا کہ آپ نے زبانی اور تحریری دلائل میں کہا کہ (ن) لیگ انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ دار ہے کمیشن کو بتائیں کہ (ن) لیگ دھاندلی میں کس طرح ملوث تھی ۔

(جاری ہے)

آپ کل سوالات کر رہے تھے لیکن شاہد حامد موجود نہیں تھے آپ آج سوالات کریں تاکہ شاہد حامد اس کا جواب دے سکیں اس پر حفیظ پرزادہ نے کہا کہ میں چارٹ اور ٹیبلز کی مدد سے کمیشن کو بتاؤں گا کہ (ن) لیگ اس طرح دھاندلی میں ملوث رہی ۔ 2008 کے انتخابات میں (ن) لیگ نے 6.8 ملین ووٹ حاصل کئے اور 2013 کے انتخابات میں 14.87 ملین ووٹ حاصل کئے جو دوگنا سے بھی زیادہ ہیں یہ کسی طرح ممکن نہیں ۔

(ن) لیگ نے پنجاب سے 12 ملین جبکہ باقی تین صوبوں سے 2 ملین سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کئے ۔ سندھ اور کے پی کے میں (ن) لیگ کے امیداروں کی ضمانتیں ضبط ہوئیں ان کی تفصیل شاہد حامد کے پاس ہو گی ۔ 2008 کے انتخابات میں تین بڑی جماعتوں نے 29 فیصد فی جماعت ووٹ حاصل کئے لیکن اس وقت تحریک انصاف میدان میں نہیں تھی۔ 2013 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے 15 فیصد ووٹ حاصل کئے اور 15 فیصد نشستیں حاصل کیں جبکہ (ن) لیگ نے 35 فیصد ووٹ حاصل کئے اور 45 فیصد نششتیں حاصل کیں جبکہ تحریک انصاف نے 17.8 فیصد ووٹ حاصل کئے۔

پنجاب میں پیپلزپارٹی نے 10.6 فیصد نشستیں لیں ۔ (ن) لیگ نے 49 فیصد اور تحریک انصاف نے 5.4 فیصد نشستیں حاصل کیں ۔ یہ سب انتظامی طور پر کی گئی دھاندلی کے تحت کیا گیا ۔کے پی کے میں (ن) لیگ نے 8 لاکھ ووٹ لئے اور 10 نشستیں حاصل کیں۔ پیپلزپارٹی نے تین نشستیں حاصل کیں جبکہ تحریک انصاف 13 لاکھ 9 ہزار ووٹ لئے اور 35 نشستیں حاصل کیں ۔ (ن) لیگ نے صرف دو حلقوں میں 2 لاکھ سے زیادہ ووٹ لئے۔

اس پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کے پی کے انتخابات عوامی امنگوں کے ترجمان تھے اور وہاں عوام کے اصل مینڈیٹ کا پتہ چلا ۔ وہاں انتخابات کسی نے چیلنج نہ کئے یہاں تک کہ (ن) لیگ نے بھی انتخابات چیلنج نہ کئے نہ ہی کوئی الزام لگایا گیا۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ حلقے تو الیکشن ٹریبونل میں چیلنج ہوئے تھے تو پیرزادہ نے بتایا کہ جو حلقے چیلنج ہوئے تھے ان کی درخواست خارج ہو گئی تھی ۔

پیرزادہ نے کہا کہ پنجاب میں انتخابات سے قبل تمام سیکرٹریز کو تبدیل کیا گیا لیکن چاروں شعبوں کے سیکرٹریز کو تبدیل نہ کیا گیا ۔ ان چار شعبوں میں فنانس سیکرٹری ، ہیلتھ سیکرٹری ، سیکرٹری تعلیم اور ہوم سیکرٹری شامل ہیں ۔اس میں اہم بات یہ ہے کہ سیکرٹری تعلیم کو تبدیل نہیں کیا گیا اور الیکشن میں سب سے زیادہ سٹاف شعبہ تعلیم سے تعینات کیا گیا ۔

الیکشن کمیشن نے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بیلٹ پیپرز کی تعداد کا تعین کا اختیار ریٹرننگ افسران کو دیدیا یہ کمیشن فیصلہ دے کر تاریخ رقم کرے گا کیونکہ کمیشن کا فیصلہ مستقبل کے لئے اہم ہو گا۔مستحکم اداروں کے بغیر ریاست اور جمہوری نظام نہیں چل سکتا الیکشن کمیشن نے ریٹئرننگ افسران کو چھوٹ دے رکھی تھی۔ ریٹئرننگ آفسران نے کئی حلقوں میں مرضی سے 30 فیصد سے زیادہ ایکسٹرا بیلٹ پیپرز چھپوائے اور کئی حلقوں میں 10 فیصد سے کم بیلٹ پیپرز چھپوائے گئے ایکسٹرا بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا اختیار آر اوز کو نہیں تھا ۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایکسٹرا بیلٹ پیپرز مال خانے میں جمع کروا دیئے گئے ۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ،مسلم لیگ ن نے عام انتخابات میں ایک کروڑ 48لاکھ سے زائد ووٹ لیے، ن لیگ نے 2008 کی نسبت اس بار ڈبل ووٹ لیے، پنجاب سے ن لیگ نے ایک کروڑ 10لاکھ جبکہ پی ٹی آئی نے 50لاکھ کے قریب ووٹ لیے،نگران وزیراعلٰی نجم سیٹھی کے اختیارات 26اپریل کے بعد ختم ہونا شروع ہوگئے، اختیارات ان کے ہاتھ سے نکل کر کس کے پاس جا رہے تھے، 2008سے لے کر 2013تک پنجاب کی بیوروکریسی ن لیگ سے متاثر تھی،جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کے پی کے میں اے این پی کو غیر یقینی شکست ہوئی،ن لیگ کے امیدواروں کو سندھ اور کے پی کے میں بڑی شکست ہوئی، کے پی کے میں الیکشن صاف شفاف اور نتائج عوام کی امنگوں کی عکاس ہیں،ن لیگ نے کے پی کے کے نتائج کو چیلنج نہیں کیا، ،حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ پنجاب میں اہم ترین سیکرٹری تعلیم کو انتخابات کے دوران تبدیل نہیں کیا گیا، انتخابات میں 50فیصد سے زائد عملہ محکمہ تعلیم کا تھا، متنازعہ صوبائی الیکشن کمشنر محبوب انور کو انتخابات سے پہلے سندھ سے واپس پنجاب لایا گیا، محبوب انور نے ریٹرننگ افسران کو بیلٹ پیپرز کے لیے کھلی چھٹی دی،ریٹرننگ افسران کے پاس ریزرو بیلٹ پیپرز اپنے پاس رکھنے کا اختیار نہیں تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ اضافی بیلٹ پیپرز ریٹرننگ افسران نے پنجاب کی حد تک اپنے پاس نہیں رکھے، پورے ملک میں ریٹرننگ افسران کے پاس ریزرو بیلٹ پیپرز تھے،حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ ہائی پروفائل ہونے کی وجہ سے وزیراعظم اور عمران خان کے حلقوں میں اضافی بیلٹ پیپرز نہیں بھیجے گئے، لیکن لاہور کے وفاقی وزراء کے چار حلقوں میں 1لاکھ20ہزار تک اضافی بیلٹ پیپرز بھیجے گئے، چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات کے دوران امیدوار وفاقی وزراء نہیں تھے، حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ پرنٹنگ کے لیے لاہور سے ہی کیوں اضافی افراد منگوائے گئے، چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور سے اضافی نفری نمبرنگ اور جلد سازی کے لیے آئی تھی،چیف جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ کمیشن کے سامنے 3سوال ہیں، اگر صرف یہ ثابت ہو کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو کیا تیسرے سوال پر اس کا کوئی اثر ہوگا، حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ پہلے سوال کا جواب آ جائے تو دوسرے سوال کا بھی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے، ہم نے اپنی حد تک کمیشن کی بھرپور معاونت کی،نتیجہ اخذ کرنا کمیشن کا کام ہے،پیرزادہ نے کہا کہ الیکشن سے قبل لاہور پرنٹنگ پریس نے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے حوالے سے کہا کہ ہماری اتنی صلاحیت نہیں اور 21 ملین بیلٹ پیپرز پوسٹ فاؤنڈیشن پریس اسلام آباد سے چھپوائے گئے اس کے لئے لاہور کی نفری منگوائی گئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور سے اضافی نفری پرنٹنگ کے لئے نہیں بلکہ بائنڈنگ اور نمبرنگ کے لئے منگوائی گئی تھی۔

پیرزادہ نے بتایا کہ پوسٹ فاؤنڈیشن پریس نے 17 ملین بیلٹ پیپرز کو پرنٹ کر کے بائیڈنگ کی جبکہ 4 چار ملین بیلٹ پیپر کی بائیڈنگ نہیں کی گئی اور ایسا مخصوص حلقوں کے لئے کیا گیا یہ سیاسی فیصلہ تھا کہ کس حلقے میں کتنے بیلٹ پیپر جائیں اس میں سیاسی شخصیات ملوث تھیں اور عدالت نے جن 11 آر اوز کو بلایا تھا ان میں سے 7 کا تعلق لاہور کے مختلف حلقوں سے تھا ۔

یہاں ایکسٹرا بیلٹ چھپوائے گئے۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ ڈاکو منٹس موجود ہیں کہ جس سے دھاندلی ثابت ہوتی ہے۔ اب کچھ بھی غیر واضح نہیں رہا کمیشن کے پاس فوجداری اور سول دونوں طرح کے اختیارات موجود ہیں کمیشن کسی بھی ادارے یا شخص کو وضاحت کے لئے طلب کر سکتا ہے کسی بھی میٹریل ، ڈاکو منٹ اور دیگر کاغذات کا جائزہ لے سکتا ہے آپ کا اپنا پروسیجر ہے کمیشن ہر طرح کے احکامات جاری کر سکتا ہے الیکشن ٹریبونل کے معاملات دیکھیں یا نہ دیکھیں وہ بھی معاملات موجود ہیں ۔

بہت سی چیزیں وہاں بھی ثابت ہو چکی ہیں الیکشن پٹیشنر سیف گارڈ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ان درخواستوں کے حوالے سے کہیں اپلیں بھی دائر کی گئی ہیں ۔ عام انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے آرڈیننس نے تمام سیاسی جماعتوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ آپ کے روبرو دھاندلی کے حوالے سے تمام تر ثبوت پیش کر سکیں وگرنہ اس حوالے سے آئین و قانون میں کوئی اور آرٹیکل یا پروویژن موجود نہیں ہے۔

جب آپ اتنی تعددا میں بے قاعدگیاں دیکھتے ہیں اور قانون پر عملدرآمد بھی نظر نہیں آتا تو پھر فیصلے کرنے میں کوئی بھی مشکل نہیں ہونی چاہئے ۔ عام انتخابات کے نتائج اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ انتخابات میں کیا ہوا ہے آپ اگر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بعض حلقوں میں صحیح اور شفاف نمائندے نہیں آئے ہیں تو اس کی بنیاد پر تمام تر انتخابات کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

عمر ایوب کے مقدمے میں بھی فیصلہ دے چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اوور آل اگر ہم نے کہیں کہا ہے تو وہ بتایا جائے تو اس پر پیرزادہ نے کہا کہ ایسا تو نہیں لکھا گیا ۔ بے قاعدگیاں واضح کرتی ہیں کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انتخابات شفاف نہیں تھے تو ہم تیسرے سوال کے مطابق فیصلہ کر دیں کہ عوام کے نمائندے صحیح نہیں ہیں۔

آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پہلے سوال کے جواب کا ہم سوال نمبر 3 پر انحصار کر لیں۔ اگر مینڈیٹ چرایا گیا ہے تو آپ اپنی فراست سے بھی فیصلہ کر سکتے ہیں آپ نے تمام آدمیوں کی طرح نہیں ججز کے طور پر فیصلے کرنا ہے۔ قانون بنانے والوں کے مطابق آپ کو قانون کو دیکھنا ہو گا۔ اگر سب کچھ غیر قانونی ثابت ہوتا ہے تو پر آپ تیسرے سوال کے مطابق اس سارے انتخابات کو غلط کیوں نہیں قرار دے سکتے۔

آپ قرار دے سکتے ہیں۔ یہ پہلا اور آخری موقع ہے کہ آپ اس ملک میں اداروں کے استحکام کے لئے غلطیوں کو ختم کریں۔ جمہوریت کا نظام ناکام ہوا تو وہ صرف اور صرف شفاف انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے ہی ہو گا ۔ تحریک انصاف نے اپنی بساط کے مطابق دھاندلی کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ہو کچھ ہمارے پاس تھا ہم دے چکے ہیں ۔ شہادتیں آتی گئیں اور ہمارا بوجھ کم ہوتا گیا ۔

اب دروازہ کھل چکا ہے کہ آپ اپنا فیصلہ دے دیں آپ سب کچھ آپ کے روبرو ہے فیصلہ کرنا یا نہ کرنا آپ کا کام ہے ۔ہم نے بہت ہی شفاف طریقے سے تمام تر مواد آپ کے سامنے رکھا ہے جس کی تیاری کے لئے عمران خان اور ان کے کارکنان نے شبانہ روز محنت کی ہے جن وکلاء نے میری معاونت کی ہے ان کے نام بھی شامل کیے جائیں ۔ چیف جسٹس نے بھی پیرزادہ اور ان کی ٹیم کی خدمات کو سراہا ۔

یہ ابھی انکوائری کمیشن اپنے اختتام کو نہیں پہنچا تاہم آپ کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں ۔پی ٹی آئی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے وکیل اعتزاز احسن کے دلائل شروع کیے۔اعتزاز احسن نے کہا کہ انکوائری کمیشن نے ترجیحی بنیادوں پر 45روز میں تحقیقات مکمل کرنا تھیں،چیف جسٹس نے کہا کہ 45روز کا یہاں معاملہ نہیں ہے،انکوائری کمیشن کی آخری حد 120روز ہے، انکوائری کمیشن صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بنا جس کی میعاد 4ماہ ہے،پیرزادہ نے کہا کہ ایک حلقے کی نادرا رپورٹ کے مطابق 20 ہزار بیلٹ پیپرز پر شناختی کارڈ نمبر کی تصدیق نہ ہو سکی یہ 2013 کے انتخابات کی حقیقت ہے ۔

نواز شریف اور عمران خان کے حلقوں میں ایکسٹرا بیلٹ پیپرز نہیں چھپوائے گئے لیکن وفاقی وزراء کے حلقوں میں ایکسٹرا بیلٹ پیپرز چھپوائے گئے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت وہ امیدار تھیوفاقی وزیر نہیں ۔ بیرسٹر اعتزازا حسن نے کہا کہ میں آپ کی توجہ 21 جون 2015 کے حکمنامے کی جانب دلانا چاہوں گا ۔ 22 جون کو شہادت کی ریکارڈنگ کلوز کی گئی آپ جو فیصلے کریں اس کا وزن آپ کونسلز پر نہیں ڈال سکتے ۔

اس فیصلے کا وزن آپ نے اپنے کندھوں پر اٹھانا ہے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کوئی عام وزن نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہلکا وزن ہے آپ کے پاس فوجداری اور سول عدالت کے اختیارات حاصل ہیں یہ آپ کو اضافی اختیارات دیئے گئے ہیں اگر کوئی شہادت میرے پاس موجود ہے اور میں پیش نہیں کرا رہا تو آپ مجھ سے یہ سب طلب کر سکتے ہیں ۔ تمام ادارے جن میں آئی ایس آئی ، ایم آئی شامل ہیں آپ کی معاونت کرنے کے پابند ہیں جس سیاسی جماعت نے انتخابات 2013 میں حصہ لیا اس کو نہ صرف یہ حق حاصل ہے کہ وہ آپ کے پاس آئے اور شہادت پیش کرے ۔

نادرا نے رپورٹس پیش کیں الیکشن کمیشن نے بھی جوابات داخل کئے تمام تر انتخابی عمل کی بات کی گئی ہے اور اسی کا فیصلہ آپ نے کرناہے کہ آیا یہ تمام تر انتخابات میں منظم دھاندلی کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے اثرات ن لیگ اور تحریک انصاف کے ایم او یو پر بھی پڑیگا اعتزاز احسن نے کہا کہ دیکھنا پڑے گا کہ ثبوتوں کا معیار کیا ہے یہ معیار دوسری تمام شہادتوں سے مختلف ہونا چاہئے جو دیگر مقدمات میں روا رکھی جاتی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا کوئی انتخابات پر اثرا نداز ہوا ہے یا نہیں۔

45 دنوں میں آپ نے ترجیحی طور پر فیصلہ کرنا تھا مگر اگر اس سے زیادہ وقت گزر جائے تو بھی آپ اس میں جا سکتے ہیں تاہم آپ کو اسی وقت کے دوران فیصلے کرنا ہے چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت یہ ایشو نہیں ہے ہم پر ثبوتوں کے وزن کا بھی کوئی معاملہ نہیں ہے اور نہ ہی ہم ثبوتوں کے معیار کا جائزہ لے رہے ہیں ہماری حدود 120 دن تک ہے اور یہ آرڈیننس کی مدت ہے ہم اس میں فیصلہ کرنے کے پابند ہیں۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ تمام حلقوں کا اتنے وقت میں فیصلے کرنا آسان نہیں ہے آپ نے صرف سیمپل دیکھ کر ہی فیصلے کرنا ہے ۔ جسٹس امیر ہانی نے کاہ کہ ہم تو اس سے بھی بڑھ کر آگے گئے ہیں اور فارم 15 تک منگوائے۔ اعتزاز احسن نے کہاکہ اس سے بھی آگے آپ جا سکتے ہیں اور تمام تر تھیلے کھلوا سکتے ہیں۔ فارم 15 کے بعد فارم 14 اور پھر کاؤنٹر فائلز انگوٹھوں کے نشانات تک چیک کرا سکتے ہیں۔

میں چاہتا تھا کہ اس کی تفصیلی انکوائری کرائی جاتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی رپورٹس کے بعد اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔کے کے آغا نے بھی انتخابی میٹریل کے تحفظکی رپورٹ دی تھی اعتزاز احسن نے کہا کہ تھیلے کھلے ہوئے تھے بلکہ یہ سلسلہ آپ کی جانب سے رپورٹس منگوانے تک جاری تھا ۔ اصغر خان کیس میں 32 امیداورو کو رقوم دی گئی کسی کو 5 لاکھ کسی کو 10 لاکھ سے بھی زائد دیئے گئے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ سیل کام کر رہا تھا کہ جس نے یہ رقوم دی تھی۔

آپ کو سب معاملات کو دیکھنا ہو گا آپ نے اپنے طور پر فریقین کی گزارشات کو دیکھنا ہو گا اگر 30 فیصد بیگز کے مواد میں کچھ کیا گیا ہے تو یہ سب تمام تر معاملات پر اثر انداز ہو گا۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے ہی یہ تجویز دی تھی کہ آپ تمام سیاسی جماعتوں سے اس پر جواب طلب کرتے مگر ایسا نہیں کیا گیا ۔ مسلم لیگ (ن) نے ان تجاویز پر جواب داخل کرایا تھا چیف جسٹس نے کہاکہ ہم اس جواب پر نہیں جائیں گے اس موقع پر یہ بات کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی ہے ۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ آرٹیکل 225 کے تحت کمیشن نہیں بنایا گیا ہے انکوائری کمیشن کو یہ بھی اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ تمام انتخابات کو کالعدم قرار دے دے کیونکہ یہ اختیار ٹریبونل کا ہے جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں ان حلقوں کے بارے میں بتایا دیا ہے کہ جن میں تھیلے کھولے جانے کی استدعا کی گئی تھی۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ نہیں انہوں نے ہماری تجاویز کا جواب دیا تھا۔

تاہم اب وہ اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتے ۔ ن لیگ نے کہا تھا کہ میری درخواست قابل سماعت نہیں ہے کیونکہ انکوائری کمیشن الیکشن ٹریبونل کے اختیارات نہیں رکھتا، اعتزاز احسن نے کہا کہ انتخابات مین بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ہوئیں۔این اے ایک سو چوبیس کے اپریل دو ہزار چودہ میں ہونے والی انسپیکشن کے بعد تمام بیگز کو دوبارہ سیل کیا گیا تھا جبکہ مئی دو ہزار پندرہ میں ہونے والی انسپیکشن کے دوران معلوم ہوا ہے کہ کہ بہت سے تھیلوں کی سیلیں ٹوٹی ہوئی ہیں ان کا کہنا تھا کہ دھاندلی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے بند تھیلے کھول کر فارم پندرہ ڈالے گئے چیف جسٹس نے کہا کہ سرکاری مال خانوں کی جو حالت زار ہے اس کو بھی ذہن میں رکھیں جبکہ امیر ہانی مسلم نے کہا کھلے تھیلوں کی سیلیں بند کرنے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کوئی بند تھیوں کی سیلیں کیوں کھولے گا،اس موقع پر اعتزاز احسن نے کہا کہ فارم پندرہ کی اتنی اہمیت ہے جتنی دیو مالائی قصوں میں چڑیا کہ ہوتی تھی جس میں جادو گر کی جان ہوتی تھی اعتزاز احسن کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کمیشن نے کاروائی ملتوی کر دی کل مسلم لیگ ن کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں دلائل دیں گی کمیشن نے مزید کارروائی آج جمعرات کوساڑھے نوبجے تک ملتوی کردی ۔