پچھلے سال کے مقابلے میں 62.3 ارب زیادہ ٹیکس وصول کیا، چیئرمین ایف بی آر،مالی سال کی پہلی سہہ ماہی میں ٹارگٹ 640 ارب روپے اکھٹے کرنا تھے مگر ریکوری 93 فیصد کے حساب سے 600 ارب کی گئی،ٹارگٹ کے حصول میں ناکامی درآمدات پر سیلز ٹیکس کی کم وصولی ہے، آئل مارکٹنگ سے وصولی بالتریب 32 فیصد کم رہی،سینٹ کمیٹی کو بریفنگ

بدھ 11 نومبر 2015 08:54

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔11نومبر۔2015ء)سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں فیڈر ل بورڈ آف ریونیو اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے محکموں کے حوالے سے معاملات کاتفصیل سے جائزہ لیاگیا ۔ چیئرمین ایف بی آر طارق باجوہ نے قائمہ کمیٹی کو موجودہ مالی سال کے پہلے کوارٹر میں ایف بی آر کی طرف سے کی جانے والی وصولیوں بارے تفصیلی آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹارگٹ 640 ارب روپے اکھٹے کرنے کا تھا مگر ریکوری 93 فیصد کے حساب سے 6 سو ارب روپے کی گئی البتہ پچھلے سال کے مقابلے میں 62.3 ارب روپے زیادہ ریکور کیے گئے ہیں ۔

چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ 21.5 ارب روپے ٹیکس ادا کرنے والوں کو ریفنڈ کیے گئے ہیں جو پچھلے سال کل 8.9 ارب روپے ادا کیے گئے تھے ٹارگٹ کے حصول کی ناکامی کی بڑھی وجہ درآمدات پر سیلز ٹیکس کی کم وصولی ہے درآمدات میں 12.5 فیصد جولائی تا ستمبر کمی واقع ہوئی ہے آئل ریفایئنری اور آئل مارکٹنگ کی مقامی سیلز ٹیکس سے وصولی بالتریب 14 اور32 فیصد کم رہی ہے جبکہ کھاد کی مقامی سیلز ٹیکس کی وصولی 64 فیصد کم رہی ہے طارق باجوہ نے کہا کہ ادارے کے ذمہ 210 ارب روپے کے واجبات باقی تھے جو آہستہ آہستہ ادا کیے جارہے ہیں جس پر چیئرمین کمیٹی سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ ٹارگٹ کا تعین کرتے وقت تما م چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھاجائے تاکہ بجٹ میں موثر منصوبہ بندی کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے اور بجٹ میں صحیح اعدادو شمار پیش کیے جا سکیں پہلے کواٹر میں ہی 40 ارب روپے ٹارگٹ سے کم وصول کیے گئے انہوں نے ہدایت کی کہ موثر حکمت عملی اختیار کر کے ملک و قوم کو فائدہ پہنچایا جائے ۔

(جاری ہے)

رکن کمیٹی الیاس احمد بلور نے کہا کہ کے پی کے میں بینک ایڈوانس صنعتکاروں کو فراہم نہیں کرتے جس سے ان کے کاروبار متاثر ہوتے ہیں اگر بینک تاجر حضرات کو ایڈوانس قرضے فراہم کریں تو صنعتی شعبے کو فروغ دیا جاسکتا ہے انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے کمپیوٹر سسٹم کو 2013 سے اپ گریڈ کیا جارہا ہے مگر ابھی تک نہیں ہو سکا جس پر طارق باجوہ نے یقین دلایا کہ اگلے چھ ماہ میں سسٹم اپ گریڈ کر دیا جائے گا ۔

الیاس احمد بلور نے کہا کہ ایف بی آر کے حکام ٹیکس کے نوٹسز ہمارے گھروں پر بجھواتے ہیں حالانکہ ہمارے دفاتر کے نمبر ان کے پاس موجود ہوتے ہیں یہ پارلیمنٹرین کے احترام کے خلاف ہے جس پر چیئرمین ایف بی آر نے یقین دلایا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔طارق باجوہ نے قائمہ کمیٹی کو ایف بی آر میں پرموشن پالیسی بارے بھی تفصیلی آگاہ کیا انہوں نے کہا کہ حکومت نے سپرنٹینڈینٹ کو گریڈ17 میں پروموشن کا کہا ہے تو ہم بھی اپنے طریقے سے ان کو ترقی دے رہے ہیں سپریٹنڈنٹ گریڈ17 کی تنخواہ وصول کر رہے ہیں جبکہ کام گریڈ 16 میں کر رہے ہیں تین سال کے بعد ان کو ترقی ملے گی ہمارے پاس پروموشن کے ذریعے لوگ گریڈ 19 میں بھی کام کر رہے ہیں ۔

قائمہ کمیٹی نے معاملہ جلد حل کرنے کی بھی سفارش کر دی ۔چیئرمین کمیٹی سلیم ایچ ماندوی والا نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کی طرف سے ایف بی آر کو جو خطوط لکھے جاتے ہیں ان کے یا تو جواب نہیں ملتے یا کافی دیر بعد ملتے ہیں جس پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ہم پوری کوشش کرتے ہیں خط کا جواب وقت پر فراہم کرسکیں اس کو مزید بہتر کرنے کی کوشش کریں گے ۔قائمہ کمیٹی کو سی این جی صنعت پر لاگو جنرل سیلز ٹیکس کے جھگڑے کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا ۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ہائی کورٹ سے فیصلہ ہمارے حق میں آیا ہے اور اب وہ سپریم کورٹ میں گئے ہیں ۔قائمہ کمیٹی خزانہ کو ایف بی آر میں زیر التوا ء کسیز بارے بھی تفصیلی آگاہ کیا گیا اور چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ زیر التواء کیسز کو جلد سے جلد حل کرانے کی کوشش کر رہے ہیں ADRC تقریباً ڈس فنکشنل ہو چکا ہے جس پر رکن کمیٹی محسن عزیز نے کہا کہ جو کیسز نیچے سے اوپر جاتے ہیں ان کے زیادہ تر فیصلے اداروں کے حق میں کیے جارہے ہیں ۔

ADRC ایک اچھا ادارہ تھا ۔چیئرمین ایف بی آر نے قائمہ کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ بنکوں کے ذریعے لوگ اربوں روپے نکلواتے ہیں مگر ٹیکس ادا نہیں کرتے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس کے دھارے میں لانے کے لئے اب بنکوں سے بھی معلومات حاصل کی جارہی ہیں ۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ این ٹی این نمبر تقریباً ختم ہو چکا ہے اور اب لوگ اپنا نمبر منٹوں میں رجسٹرڈ کر وا سکتے ہیں جو پہلے مہینوں میں ہوتا تھا اب ٹیکس ادا کرنے والے لوگوں کا شناختی کارڈ ان کا رجسٹریشن نمبر ہے ۔

اور تمام مالی و کارباری ٹرانزیکشنز شناختی کارڈ نمبر کے ذریعے ریکارڈ کی جارہی ہیں اور ایف بی آر ان تمام ٹرانزیکشنز کو لوکیٹ کر سکتا ہے ۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پیک کیا گیا دودھ اور دہی پر سیلز ٹیکس وصول کیا جارہا ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا اس سے مقامی صنعت کو نقصان ہوگا ایمپورٹ دودھ پر تو سیلز ٹیکس لگایا جائے مگر مقامی طور پر پیدا ہونے والے دودھ کو استثنیٰ دیا جائے ۔

رکن کمیٹی سعود مجید نے کہا کہ ایف بی آر کے ذریعے بہت سے کاروباری سیاستدانوں کو ڈیفالٹر قرار دیا جاتا ہے ۔ایف بی آر کے پاس ڈیفالٹر کی کوئی تعریف نہیں واضح نہیں ہے ۔چیئرمین کمیٹی نے الیکشن کمیشن اور ایف بی آر کے ساتھ مل کر ترمیم لانے کی سفارش کر دی ۔قائمہ کمیٹی کو ایڈیشنل آڈیٹر جنرل پاکستان نے جاوید جہانگیر نے ادارے کی کارکر دگی اور دیگر معاملات پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 10 آڈٹ دفاتر کے ذریعے مختلف اداروں کی آڈٹ کی جارہی ہے انہوں نے پینشن کی مختلف اداروں کے ذریعے تقسیم بارے بھی کمیٹی کو آگاہ کیا انہوں نے کہا کہ 15 اداروں نے آڈٹ سے انکار کیا تھا جن میں سے SECP,PTCL,DHA,NBP وغیر ہ شامل تھے انہوں نے کہا کہ ان اداروں نے اپنے قوانین کی وجہ سے انکار کیا تھا کہ کمرشل اداروں کی آڈٹ اے جی پی کے اختیار سے باہر ہے البتہ سپریم کورٹ نے کسی بھی پبلک سیکٹر ادارے کی اے جی پی سے آڈٹ کا حکم دیا ہوا ہے ادارے آڈٹ کے ذریعے سالانہ 48 ارب کی ریکوری کی ہے جبکہ ہمارے اخراجات 2.8 ارب روپے کے ہیں ادارہ ایک روپیہ کے عوض 17 روپے وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کروا رہا ہے ۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ کمرشل ادارے آڈٹ سے انکار کر رہے تھے اور اس حوالے سے ہم ترمیم پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے لارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نندی پور کے حوالے سے رپورٹ ابھی تک حتمی طور پر فائنل نہیں ہوئی ہمیں کسی نے رپورٹ جاری کر نے سے نہیں روکا ۔پنشنرز کی آڈٹ ریگولر ہوتی ہے ہم سیپل کے طور پر 10 فیصد ڈیٹا حاصل کرتے ہیں انہوں نے PPO,GPO,DCS,NBP و دیگر بنکوں سے جاری ہونے والی کل پینشنز بارے بھی تفصیلی کمیٹی کا آگاہ کیا انہوں نے انکشاف کیا کہ گریڈ 23 کے افسر کو بھی پنشن جاری کی گئی ہے اور گلبرگ لاہور کی ایک برانچ سے 25 فوت ہونے والے افراد کو پنشن جاری کی جارہی ہے انہوں نے کہا کہ ہماری ٹیمیں ابھی آڈٹ کر رہی ہیں فائنل رپورٹ ابھی مرتب نہیں ہوسکی انہوں نے تسلیم کیا کہ فوت ہونے والے لوگوں کے نام پر بھی پنشن وصول کی جارہی ہے جس پر چیئرمین کمیٹی و اراکین کمیٹی نے تفصیلی آڈٹ کرنے کی سفارش کر دی ۔

چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ AGP کے حکام جعلی پنشنز کے فراڈ کو روکنے کیلئے اداروں کو خطوط لکھیں اور جن اداروں سے جعلی پنشن ادا کی جائے ان کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جائے ۔اور اداروں کو جعلی پنشن وصول کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی ہدایت کر دی ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جعلی پنشن کی مد میں قومی خزانے سے اربوں روپے وصول کیے جارہے ہیں ۔

قائمہ کمیٹی کو PIA,PSO,OGRA,SNGPL,NBF,SBP,PCP,ZTBL,PSM,NFC,USC, کے اداروں میں کی جانے والی اربوں روپے کے فراڈ اور کرپشن بارے بھی تفصیل سے آگاہ کیا گیا ۔قائمہ کمیٹی خزانہ کے آج کے اجلاس میں سینیٹر زالیاس احمد بلور، محمد محسن خان لغاری، عائشہ رضا فاروق ، کامل علی آغا، سعود مجید ، سردار فتح محمد محمد حسنی، اور محسن عزیز کے علاوہ چیئرمین ایف بی آر ، ایڈیشل آڈیٹر جنرل پاکستان کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :