دنیا میں کرکٹ بورڈ ہیڈکوارٹرز دارالحکومت سے باہر ہیں،شہریار خان،قذافی سٹیڈیم بورڈ کے پاس لیز پر ہے دفاتر گراؤنڈ اور بین الاقوامی نیشنل اکیڈمی،305 ملازمین کی رہائشی کالونی لاہور میں ہے، اسلام آباد میں بورڈ زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی گئی، عمارت کے اخراجات برداشت نہیں کر سکیں گے،فنکشنل کمیٹی کو بریفنگ

بدھ 11 نومبر 2015 08:47

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔11نومبر۔2015ء) سینیٹ فنکشنل کمیٹی میں چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ شہریار خان نے آگاہ کیا کہ دنیا میں کرکٹ بورڈ ہیڈکوارٹر دارالخلافے سے باہر ہیں لاہور میں ہاکی ، فٹ بال اور اولمپک کے گراؤنڈ موجود ہیں قذافی سٹیڈیم بورڈ کے پاس لیز پر ہے دفاتر گراؤنڈ اور بین الاقوامی نیشنل ایکڈمی کے علاوہ 305 ملازمین کی رہائشی کالونی لاہور میں ہے اسلام آباد میں بورڈ کو جو زمین دی گئی تھی اس کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی گئی ہے اسلام آباد میں بورڈ کے پاس کوئی عمارت نہیں اخراجات برداشت نہیں کر سکیں گے اور بتایا کہ ملک بھر میں علاقائی اکیڈمیاں بنائی جارہی ہیں مزید 16 آئندہ پانچ سال میں بنائی جائیں گئی فاٹا آزاد کشمیر بلوچستان میں بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے کوچز بھیجیں گئے اکیڈمیاں بنائیں گے اور انکشاف کیا کہ انڈر16 کیمپ میں 20 کھلاڑیوں میں سے 4 ڈیرہ مراد جمالی سے ہیں جو پاکستان کیلئے فخر کی بات ہے اور آگاہ کیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اربوں روپے کے ٹیکس ادا کر تا ہے اجلاس میں سفارش کی گئی کہ ملک بھر میں کرکٹ اکیڈمیاں قائم کی جائیں اور نئے کھلاڑیوں کیلئے بھی سہولیات فراہم کی جائیں اور فاٹا میں بھی کرکٹ اکیڈمی قائم کی جائے ۔

(جاری ہے)

کمیٹی میں انکشاف کیا گیا کہ 18ویں ترمیم میں کل 102 ترامیم ہوئیں کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ ہوا عمل درآمد کمیشن کے 68 اجلاس منعقد ہوئے جس میں طے ہوا کہ وفاقی ملازمین کو صوبوں میں بجھوایا جائے گا اور کسی بھی ملازم کو برخاست نہیں کیاجائے گا۔17 وزارتیں صوبوں کو منتقل ہوئیں 6 ہزار6 چھ سو 96 ملازمین کو صوبوں میں بھیجا گیا 50 ہزار 4 سو11 ملازمین وفاقی دفاتر میں رہ گئے ایک لاکھ 19 ہزار آئٹمز صوبوں کے حوالے کیے گئے 60 سے زائد وفاق کے پاس ہیں کل گاڑیاں1191 تھیں 717 وفاق کے پاس ہیں۔

کمیٹی کا اجلاس سینیٹر میر حاصل خان بزنجو کی صدارت میں منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں ارا کین کمیٹی کے علاوہ وزارت بین الصوبائی رابطہ ،کابینہ سیکرٹریٹ اور اسٹبلیشمنٹ ڈویژن ، چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ شہر یار خان نے شرکت کی ۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ ایوان بالا ء میں یہ کمیٹی اہم ترین کمیٹی ہے 18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری اہم پیش رفت تھی تو 18 ویں آئینی ترمیم پر من وعن عملد رآمد ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے 18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد حقیقی وفاق کی طرف سفر پر گامزن ہیں 1973 کے آئین کی منظوری کے بعد کنکرنٹ لسٹ پر بھی بحث شروع ہوئی تھی 18 ویں آئینی ترمیم بہت پہلے منظور ہو جانی چاہیے تھی بعض مجبوریوں کی وجہ سے تاخیر کی گئی ۔

پارلیمنٹ کی کمیٹی وسائل کی برابر تقسیم اور اختیارات مکمل منتقل کرنے اور وفاق اور وزارتوں کے اثاثے بھی صوبوں کے حوالے کرنے کیلئے بنی ہے اختیارات کی مکمل تفویض تک کمیٹی کے اجلاس مسلسل منعقد ہوا کریں گے #۔ اجلاس میں سیکرٹری کیبنٹ نے سینیٹر تاج حیدر کے سوال کے جواب میں آگاہ کیا کہ ورکرز ویلفیئر فنڈ اور ای او آئی بی صوبوں کو واپس ہو چکے پنجاب میں ای ٹی پی بی کو حوالے کرنے کا معاملہ اٹھایا جو سپریم کورٹ میں ہے سینیٹر اقبال ظفر جھگڑا نے کہا کہ ری اسٹچرنگ صوبوں کے حق میں ہے چوہدری تنویز نے کہا کہ وضاحت طلب باتوں اور ابہام کے خاتمے کے لئے اور زیادہ محنت سے کام کر کے آگاہ کیا جائے سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ آئین پاکستان کے تحت صوبوں کو دیئے گئے اخیتارات میں اثاثے اور بنیادی ڈھانچے بھی حوالے کیے جائیں سیکرٹری نے آگاہ کیا کہ پاکستان آئل سیڈ ڈی آر اے اور ایچ ای سی کے ملازمین کے معاملات حل طلب ہیں چیئرمین کمیٹی سینیٹر حاصل بزنجو کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ڈرافٹ کابینہ کو نہیں بجھوایا گیا اجلا س میں سی سی آئی کا آئین میں دی گئی 90 روز کی مدت میں منعقد نہ کرنے کا معاملہ زیر بحث رہا اور قرار دیا گیا کہ سی سی آئی کا اجلاس جلد منعقد کیا جائے سینیٹر تاج حیدر نے 18 ویں آئینی ترمیم کی وجہ سے کچھ اداروں جن میں جناح ہسپتال اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تنخواہیں اور پنشن ادا نہ کرنے کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ زیادہ ٹیکسز نہ دینے والے صوبے کا نقصان ہو رہا ہے تیل و گیس کے علاقوں اور پیداوار کی ملکیت 50 فیصد صوبوں کا حصہ ہے رائلٹی 100 فیصد ہے جو ادا نہیں ہو رہی اور انکشاف کیا کہ وفاقی حکومت کو پیداواری کمپنیوں کی حاصل ہونے والی تیل گیس پیداوار کا اندازہ کرنے کیلئے میکنزم موجود نہیں اس میں سندھ کو پونے دو سو ارب سالانہ نقصان ہو رہا ہے سینیٹر الیاس بلور نے بھی خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں گیس رائلٹی اور منافع کے نقصان کا معاملہ اٹھایا سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ حکومت تفویض اخیتارات کے خلا ف نہیں محتاط طریقے سے آگے بڑھنا ہوگا اجلاس مسلسل منعقد ہونے چاہیں آخری این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کو زیادہ ادائیگی کی گئی سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ آئین میں 90 دنوں کے اندر سی سی ای کا اجلاس منعقد کرنے کی پابندی ہے اجلا س منعقد نہ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے سینیٹر عثمان کاکٹر نے کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم پر اتفاق کے باجود اسلام آباد کے مداخلت ہو رہی ہے سی سی آئی کا سیکرٹریٹ نہیں سہ ماہی اجلاس منعقد نہیں ہورہا وفاق کے اداروں میں صوبوں کی نمائندگی نہیں جی ڈی سی آئی کے بقایا جات ادا نہیں ہو رہے اور انکشاف کیا کہ وفاق کے اداروں میں درجہ چہارم سے اعلیٰ افسروں تک 60 فیصد بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر بھرتیاں کی گئی ہیں ۔

چیئرمین کمیٹی نے آئل اینڈ کمپنیوں کی پیدوار خالص منافع بہبود کے استعمال فنڈز وسائل کی تقسیم ملازمتوں کے کوٹے کے حوالے سے آئندہ اجلاس میں تفصیلات فراہمی کی ہدایت دی سینیٹر کامل علی آغا نے اجلاس سے وفاقی وزیر صوبائی رابطہ کے چلے جانے پر کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد او رنگرانی کا م صوبائی رابطہ وزارت کا ہے اور وزیر ہی اجلاس سے اٹھ گئے ہیں اور کہا کہ روزانہ اجلاس منعقد کر کے وفاق کے خلاف پکنے والے زہر کو روکا جائے ورنہ 18 ویں آئینی ترمیم کی کاوشیں رائیگاں جائیں گی ۔