اپنے دور میں بے رحمانہ احتساب کیا‘ آج بھی سپریم کورٹ کے ڈر سے احتساب کیا جا رہا ہے‘ افتخار چوہدری ،سیاسی پارٹی دوستوں کی مشاورت کے بعد بنائی، بہت سے وکلاء اور سیاستدان ساتھ ہیں،ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد سیاسی جماعت بنانا چاہتا تو کوئی آئینی پابندی نہیں تھی ، ملک میں پارلیمانی نظام کامیاب نہیں صدارتی نظام بہتر ہے،نجی ٹی وی کو انٹرویو

اتوار 27 دسمبر 2015 09:39

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔27دسمبر۔2015ء) سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ ا نہوں نے اپنے دور میں بے رحمانہ احتساب کیا‘ آج بھی سپریم کورٹ کے ڈر سے احتساب کیا جا رہا ہے‘ سیاسی پارٹی دوستوں کی مشاورت کے بعد بنائی ،بہت سے وکلاء اور سیاستدان ساتھ ہیں۔ نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں افتخار چوہدری نے کہا کہ چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد سیاسی جماعت بنانا چاہتا تو کوئی آئینی پابندی نہیں تھی میں صرف 2 سال تک الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا تھا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا اور بعد میں دوستوں سے مشاورت کے بعد سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا بہت سے وکلاء اور سیاستدان میرے ساتھ ہیں انہوں نے کہا کہ پارٹی کی ممبر شپ کے لئے فیس 10 روپے ہے میں نے ایک ہزار فیس دے کر رکنیت لی ہے میں اپنی پارٹی کے لئے لوگوں کے گھروں تک جاؤں گا انہوں نے کہا کہ میں کسی سیاسی پارٹی کے خلاف بات نہیں کروں گا جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جس پر کسی قسم کا کرپشن کا کیس نہیں ہے ہمارا سیاسی نظام ایسا ہے کہ یہاں سیاستدان آپس میں مک مکا کر لیتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے دور میں سب کا بے رحمانہ احتساب کیا یوسف رضا گیلانی سے ذاتی تعلقات تھے لیکن ان کے خلاف بھی بے رحمانہ احتساب کیا احتساب کرنا میری ذمہ داری تھی انہوں نے کہا کہ میں نے رینٹل پاور‘ پاکستان سٹیل‘ این آر او‘ حج کوٹہ پر بے رحمانہ احتساب کیا اور کسی سے کوئی رعایت نہیں برتی ایک وزیراعظم نے 52 ملین روپے خزانے سے لے کر تقسیم کئے ہم 46 ملین واپس لے کر آئے۔

(جاری ہے)

رینٹل پاور کیس اج بھی چل رہا ہے اور آج بھی سپریم کورٹ کے ڈر کی وجہ سے احتساب ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرف نے مجھ پر بے بنیاد الزامات لگائے اور مجھ سے استعفیٰ مانگا لیکن میں نے جرنیلوں اور وزیراعظم شوکت عزیز کی موجودگی میں الزامات کو مسترد کرتے ہوئے استعفیٰ دینے سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرے بیٹے کے خلاف بدعنوانی کے مقدمہ میں اس نے اپنی بے گناہی ثابت کی اس مقدمہ میں جوڈیشل کمیشن بنا تھا جس نے مکمل رپورٹ دیت ھی جس کے بعد مقدمہ ختم ہوا تھا انہوں نے کہا کہ اس ملک میں پارلیمانی نظام کامیاب نہیں صدارتی نظام ملک کے لئے بہتر ہے پارلیمانی نظام میں ملک کو متحد بھی نہیں رکھا جا سکتا۔