سینیٹ انتخابات کو کوئی خطرہ نہیں ،کسی کے دبائو پر اسمبلی نہیں توڑونگا ، وزیراعظم کا اعلان

تحریک عدم اعتماد کے بغیر قومی اسمبلی کو تحلیل کرنا ممکن نہیں ، عام انتخابات 15 جولائی کو ہونگے ،تمام سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ جمہوری نظام چلتا رہے،میں ہی وزیراعظم اور اختیارات میرے پاس ہی ہیں ، نواز شریف اختیار سونپ کر نتائج مانگتے ہیں،بھارت ابتداء سے ہی سب پیک کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے، چین کی جانب سے گوادر کو دفاعی نقطہ نظر سے استعمال کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ،ٹرمپ کا جیسا بیان آئے گاا سی تناظر میں جواب بھی دیا جائے گا، امریکی صدر کا امداد سے متعلق بیان نا مناسب تھا ، کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتے جس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہو،امریکی فیصلے سے ضرور جنگ متاثرہوگی ، ڈرون حملے کی صورت میں جو مناسب ہوا وہی کریں گے، اپنی سرحدوں کا دفاع ہماری ذمہ داری ہے،افغانستان میں امن ہم سے زیادہ کوئی نہیں چاہتا افغانستان کی جانب سے ہی ہماری افواج پر حملے ہو رہے ہیں راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ منظر عام پر لا نے میں 2ہفتے لگ سکتے ہیں،پارٹی اجلاس میں شہباز شریف کے آئندہ انتخابات میں بطور وزیراعظم نامزد ہونے سے متعلق موضوع زیر بحث نہیں آیا،وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو

منگل 16 جنوری 2018 22:14

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ منگل 16 جنوری 2018ء)وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ میری جماعت مجھے اسمبلی تحلیل کرنے کا کہے گی تو اسمبلی توڑ دوں گا مگر کسی کے دبائو پر ایسا نہیں کروں گا، تحریک عدم اعتماد کے بغیر قومی اسمبلی کو تحلیل کرنا ممکن نہیں ، سینیٹ کے انتخابات کو کوئی خطرہ نہیں، یہ انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے، تمام سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ جمہوری نظام چلتا رہے،میں ہی وزیراعظم ہوں اور اختیارات میرے پاس ہی ہیں، نواز شریف اختیار سونپ کر نتائج مانگتے ہیں، ٹرمپ کا جیسا بیان آئے گاا سی تناظر میں جواب بھی دیا جائے گا، امریکی صدر کا امداد سے متعلق بیان نا مناسب تھا، ہم نے اتنی امداد نہیں لی، ہم کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتے جس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہو،امریکہ کی جانب سے امداد پر پابندی ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ کو متاثر کرے گی ،، ڈرون حملے کی صورت میں جو مناسب ہوا وہی کریں گے، اپنی سرحدوں کا دفاع ہماری ذمہ داری ہے ،کسی بھی مسئلے کی صورت میں ہم خود کارروائی کر سکتے ہیں،افغانستان میں امن ہم سے زیادہ کوئی نہیں چاہتا افغانستان کی جانب سے ہی ہماری افواج پر حملے ہو رہے ہیں،بھارت ابتداء سے ہی سی پیک کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے، وہ ایل اوسی کی خلاف ورزیوں پرسوچے ، ہماری جانب سے جنگ کا کوئی خطرہ نہیں، چین کی جانب سے گوادر کو دفاعی نقطہ نظر سے استعمال کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ،میں نے عدلیہ کے فیصلوں پر سخت تبصرہ نہیں کیا، 28جولائی کے فیصلے کی نہ تو کوئی قانونی نظیر تھی اور نہ کوئی سیاسی نظیر تھی، مگر ہم نے فیصلے کو فوری نافذ کیا، پاکستان اور تاریخ اس فیصلے کو قبول نہیں کرے گی،راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ کو ہم منظر عام پر لا رہے ہیں، اس عمل میں 2ہفتے لگ سکتے ہیں ،پی آئی اے کو اگر کوئی صوبہ لینے کو تیار ہے تو ہم بغیر کسی نقصان کے یہ اس کو دے دیں گے،پارٹی اجلاس میں شہباز شریف کے آئندہ انتخابات میں بطور وزیراعظم نامزد ہونے سے متعلق موضوع زیر بحث نہیں آیا۔

(جاری ہے)

وہ منگل کو نجی ٹی وی کوانٹرویو دے رہے تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وزیراعظم بننے کے بعد مجھے کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں، میں وزیراعظم ہائوس کی جگہ اپنے گھر میں زیادہ مطمئن ہوں، وزیراعظم ہائوس میں زیادہ تر ریاست کے امور نمٹانے کی جگہ ہے، رہائش کی جگہ کم ہے، نواز شریف ابتداء سے ہی میرے لیڈر ہیں،مجھے نواز شریف نے کبھی ریاستی امور پر کبھی مداخلت نہیں کی، کابینہ میری مرضی سے بنائی گئی ہے، فیصلے کابینہ میں ہی ہوتے ہیں، چوہدری نثار سے میری دوستی 30سال پرانی ہے، ان سے میں نے دوبارہ عہدہ سنبھالنے کی درخواست کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ کی تشکیل کے وقت پرویز رشید کا نام زیر غور نہیں تھا، شہباز شریف کی بہت خدمات ہیں، میں ہی وزیراعظم ہوں اور اختیارات میرے پاس ہی ہیں، عام انتخاب وقت پریعنی 15جولائی کو ہوں گے، نواز شریف اختیار سونپ کر نتائج مانگتے ہیں،تحریک عدم اعتماد کے بغیر قومی اسمبلی کو تحلیل کرنا ممکن نہیں، بلوچستان میں جو کچھ ہوا وہ مناسب نہیں تھا اور ایسا کرنے والے ہمارے کولیشن پارٹنر تھے، ہمارے ایسے ایم پی اے جنہوں نے بلوچستان میں عدم اعتماد میں کردار ادا کیا ان کے پارٹی کے ساتھ مستقبل کا فیصلہ پارٹی اجلاس میں کیا جائے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ پارٹی اجلاس میں شہباز شریف کے آئندہ انتخابات میں بطور وزیراعظم نامزد ہونے سے متعلق موضوع زیر بحث نہیں آیا، راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ کو ہم منظر عام پر لا رہے ہیں، اس عمل میں 2ہفتے لگ سکتے ہیں، سینیٹ انتخابات کو کوئی خطرہ نہیں وہ وقت پر ہوں گے، ایسی سیاست جس سے عدم استحکام آئے وہ معیشت پر اثر انداز ہوتی ہے، سی پیک منصوبہ اس وجہ سے ایک سال تاخیر سے شروع ہوا ، چین سے ہم مختلف معاملات پر بات چیت کرتے رہتے ہیں، بھارت ابتداء سے ہی سی پیک کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے، گوادر کو کمرشل مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے گا، چائنہ کی جانب سے گوادر کو دفاعی نقطہ نظر سے استعمال کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے، یہ بے بنیاد الزامات ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سی پیک پاکستان اور چائنہ کا باہمی معاملہ ہے، کسی دوسرے ملک کو اعتراض کا حق نہیں، امریکہ کے ساتھ ہمارے رابطے جاری ہیں، ہماری امریکی حکام سے ملاقات ہوئی ہے، میری امریکی صدر ٹرمپ اور نائب صدر مائیک پنس سے ملاقات ہوئی تھی۔ امریکی صدر ٹرمپ کے بیان پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جیسا بیان آئے گاا سی تناظر میں جواب بھی دیا جائے گا، امریکی صدر کا امداد سے متعلق بیان نا مناسب تھا، ہم نے اتنی امداد نہیں لی، ہم کوئی ایسا عمل نہیں اٹھانا چاہتے جس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہو،امریکہ کی جانب سے امداد پر پابندی ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ کو متاثر کرے گی۔

ڈرون حملے پر بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سرحدوں کا دفاع ہماری ذمہ داری ہے، ڈرون حملے کی صورت میں جو مناسب ہوا وہی کریں گے، کسی بھی مسئلے کی صورت میں ہم خود کارروائی کر سکتے ہیں، کوئی قوم اگر خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہے تو کھڑی ہو سکتی ہے۔ امریکی صدر کے بیان کے بعد بھی امریکی فوج سے بات چیت کا عمل جاری ہے، ہم ایک باعزت اور باوقار قوم ہیں،کہ آزاد حکومت کو اگر خطرہ ہو تو پوری دنیا سے بھی لڑا جا سکتا ہے، ہم اپنی سرحدوں کی حفاظت کے پابند ہیں، افغانستان میں امن ہم سے زیادہ کوئی نہیں چاہتا،30لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستان میں برابر کے حقوق حاصل ہیں اور افغانستان کی جانب سے ہی ہماری افواج پر حملے ہو رہے ہیں، افغانستان میں امن کیلئے ہر ممکن کوشش کی، افغان طالبان کے ہم ذمہ دار نہیں، تمام معاملات بیٹھ کر حل ہونے چاہئیں، 30لاکھ افغان مہاجرین کی واپسی کے بعد کوئی ہم سے دہشت گردی کے متعلق سوال کر سکتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ کوئی قابل عمل اطلاعات دیں، ہم کارروائی کریں گے، افغان حکومت کو ہم نے ہر سطح پر مطمئن کیا، اگر افغانستان کی جانب سے پاکستان میں 29خود کش بمبار ہمارے ملک پر حملہ آور ہوتے ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے، مختلف فورم موجود ہیں جہاں بیٹھ کر معاملات حل کئے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے افغانستان میں امن کیلئے ہمیشہ اپنا اثر رسوخ استعمال کی، افغان طالبان ہمارے اثر ورسوخ میں نہیں، افغانستان کا مسئلہ افغان خود حل کر سکتے ہیں دوسرے نہیں، افغانستان کے مسئلے کے حل کیلئے چین نے سہ فریقی اتحاد بھی بنایا، ہم نے افغان حکومت سے افغانستان میں جنگ کے بارے میں فتویٰ سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں کیا۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بھارتی آرمی چیف ہمارے حق میں کبھی بات نہیں کرے گا، بھارت کے مقاصد ہمارے حق میں نیک نہیں ، ہم نے نیوٹرل جگہ پر اس مسئلے کو اٹھایا ہے، ہندوستان کو ایل او سی پر حملے کے معاملے پر میں سوچنا چاہیے، ہماری جانب سے جنگ کا کوئی خطرہ نہیں، ہم پہلے جارحیت کے خلاف ہیں، ہماری جانب سے باوقار اور باعزت طریقے سے مذاکرات کیلئے دروازے کھلے ہیں، قومی سلامتی مشیر کی ہندوستان کے مشیر سلامتی سے ملاقات کوئی نئی نہیں، ایسی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں، حافظ سعید کے خلاف پاکستان میں کوئی کیس نہیں، اگر کوئی کیس ہوتا تو ضرور کارروائی کرتے۔

وزیراعظم نے کہا کہ جتنا کام اس حکومت نے کیا ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی، ہم نے امن و امان اور معیشت میں استحکام دیا، اداروں میں ٹکرائو ہوتا رہا ہے، یہ جمہوری عمل ہے، میں نے عدلیہ کے فیصلوں پر سخت تبصرہ نہیں کیا، 28جولائی کے فیصلے کی نہ تو کوئی قانونی نظیر تھی اور نہ کوئی سیاسی نظیر تھی، مگر ہم نے فیصلے کو فوری نافذ کیا، پاکستان اور تاریخ اس فیصلے کو قبول نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ پانامہ کی جگہ اقامہ پر فیصلہ کیا گیا، عدالتی فیصلہ پر میں رائے نہیں دیتا، عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف فیصلے پر قوم فیصلہ دے گی ،ہر کیس کے اپنے اثرات ہوتے ہیں، اس فیصلے میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، جس سے یہ فیصلہ مشکوک ہو گیا۔ فاٹا کے انضمام سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کریڈٹ ہماری حکومت کو جاتا ہے، فاٹا کے انضمام سے متعلق کام جاری ہے، ہم فاٹا کے عوام کو دیگر علاقوں کے برابر سہولتیں فراہم کرنے جا رہے ہیں، اس کے لئے وسائل چاہئیں، تمام صوبے این ایف سی ایوارڈ میں سی سی آئی کی میٹنگ میں فیصلہ کریں، فاٹا کیلئے وسائل کیسے حاصل کرنے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ پی آئی اے میں ہم ساڑھے چار ارب ڈالر کا نقصان اٹھا چکے ہیں، اس کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دینا چاہیے، اگر کوئی صوبہ اس کو لینے کو تیار ہے تو ہم بغیر کسی نقصان کے یہ اس کو دینے کو تیار ہیں، مزید نقصان سے بچنے کیلئے اس کو پرائیویٹائز کر نا ضروری ہے۔