دُبئی: پندرہ سالہ لڑکی سے جسم فروشی کروانے والے ملزمان کو قید کی سزا

بنگلہ دیشی ملازمہ اپنے ساتھیوں کی مدد سے قحبہ خانہ چلا رہی تھی

ہفتہ 21 جولائی 2018 17:19

دُبئی(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ ہفتہ 21 جولائی 2018ء)ایک بنگلہ دیشی ملازمہ اور اُس کے دو ہم وطن ساتھیوں کو عدالت کی جانب سے پانچ پانچ سال قید کی سزا سُنائی گئی ہے۔ ملزمان پر ایک ایک لاکھ اماراتی درہم کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ بنگلہ دیشی خاتون اور اُس کے دو ساتھیوں پر الزام تھا کہ وہ اپنے آبائی وطن سے ایک 15 سالہ کم سن لڑکی کو جعلی سفری دستاویزات پر اومان لے گئے ۔

کاغذات میں لڑکی کی عمر 25 سال ظاہر کی گئی تھی۔ جس کے بعد کم سن لڑکی کو دو تین اور لڑکیوں کے ساتھ اومان کے راستے دُبئی سمگل کیا گیا۔ جہاں پندرہ سالہ لڑکی کو ایک فلیٹ میں بند رکھ کر اُس سے جسم فروشی کا دھندہ کروایا گیا۔ دُبئی کی عدالت نے بنگلہ دیشی عورت اور اُس کے دونوں ساتھیوں کو کم سن لڑکی کا جنسی استحصال کرنے‘ اُس کے سفری دستاویزات میں رد و بدل کرنے‘ عمر زیادہ ظاہر کرنے کے علاوہ ایک فلیٹ کو قحبہ خانے کے طور پر چلانے کا مجرم ٹھہرایا ہے۔

(جاری ہے)

جبکہ ملزمہ کو جسم فروشی کا مرتکب بھی قرار دیا ہے۔ تمام ملزمان کو پانچ پانچ سال جیل میں گزارنے کے علاوہ ایک ایک لاکھ درہم کا جرمانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔ تاہم ایک مفرور مجرم کو اُس کی غیر حاضری کے دوران سُنائی گئی ہے۔دُبئی پولیس کے انسدادِ انسانی سمگلنگ ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار نے عدالت کو بتایا کہ اُنہیں اطلاع مِلی تھی کہ فریج المرار کے علاقے میں موجود ایک فلیٹ کو جسم فروشی کے اڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جس پر پولیس نے چھاپہ مار کر کم سن لڑکی کو برآمد کر لیا ۔

اس کے علاوہ وہاں موجود بنگلہ دیشی ملزمہ کے علاوہ تین دیگر جسم فروش عورتیں بھی حراست میں لی گئیں۔ کم سن لڑکی نے عدالت کو بتایا ’’ ملزمہ میری سوتیلی ماں کی بہن تھی۔ میرے حقیقی والدہ کا دس سال قبل انتقال ہو گیا تو میرے والد نے دُوسری شادی کر لی۔ کچھ عرصہ قبل میرے والد کا بھی انتقال ہو گیا تو میری سوتیلی والدہ نے دُبئی میں مقیم اپنی بہن یعنی میری سوتیلی خالہ کو فون کر کے کہا کہ وہ مجھے وہاں نوکری دلوانے کے لیے مدد دے۔

اس کام کے لیے میری سوتیلی ماں نے ہمارے ہمسایوں سے رقم اُدھار لی جس کے بعد میری سوتیلی خالہ نے میرے لیے جعلی پاسپورٹ کا بندوبست کر کے اومان پہنچنے کا کہا۔ اس کے بعد جب میں دُبئی پہنچی تو انہوں نے مجھے ایک فلیٹ میں محصور کر کے جسم فروشی پر مجبور کر دیا۔ ایک دِن پولیس نے فلیٹ پر چھاپہ مار کر مجھے آزاد کروا لیا جبکہ یہاں موجود باقی افراد کو گرفتار کر لیا۔‘‘ملزمان کو فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت سے اپیل کا حق دیا گیا ہے۔