Open Menu

Abbas Alamdar Hazrat Umm Ulbanen - Article No. 3037

Abbas Alamdar Hazrat Umm Ulbanen

مادرجناب عباس علمدا رؓ حضرت ام البنین - تحریر نمبر 3037

تاریخ اسلام ایسی عظمت و عفت مآب خواتین سے بھری پڑی ہے جن کا کردارماؤں کیلئے بھی درسگاہ اورنمونہ عمل ہے جس کی پیروی کرکے مائیں اپنی اولاد کو دنیا و آخرت میں عظیم منازل پر فائز کرسکتی ہیں ۔

ہفتہ 23 فروری 2019

آغا سید حامد علی موسوی

تاریخ اسلام ایسی عظمت و عفت مآب خواتین سے بھری پڑی ہے جن کا کردارماؤں کیلئے بھی درسگاہ اورنمونہ عمل ہے جس کی پیروی کرکے مائیں اپنی اولاد کو دنیا و آخرت میں عظیم منازل پر فائز کرسکتی ہیں ۔ایسی ہی ایک عظیم ماں کا نام حضرت فاطمہ کلابیہ زوجہ امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طا لب ہے جنہوں نے اپنی اولاد کی اس انداز میں تربیت کی کہ وفائے مصطفی ؐ کا نمونہ بن گئیں اور ’’ام البنین ‘‘ یعنی بیٹوں کی ماں کہلائیں ۔

جناب ام البنین ایک بہادر و شجاع ، مستحکم و راسخ ایمان و ایثار اور فداکاری کا بہترین پیکر اور بافضیلت خاتون تھیں آپ کی اولاد نے سخت مشکل ترین حالات میں اولاد رسول ؐ یعنی امام حسن ؓو حسینؓ کے ساتھ محبت و وفاداری کے وہ یادگار نقوش چھوڑے ہیں کہ اب لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے۔

(جاری ہے)

آپ کے دلیر فرزند حضرت غازی عباس علمدار ’’شہنشاہ وفا ‘‘ کہلاتے ہیں ۔

تاریخ کربلا حضرت عباس علمدار کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے ۔

حضرت عباس فرزندحضرت علیؓ تھے لیکن یہ ماں حضرت ام البنین کی تربیت ہی تھی جس کے سبب انہوں نے رسول خدا کے نواسوں امام حسنؓ و امام حسینؓ کے بھائی ہونے کے باوجود آقا کہہ کر بلایا۔خاندان رسالتؐ کی تعظیم ،محبت وفاداری کے سبب حضرت عباس کا نام وفا کا استعارہ بن گیا۔یہ کمال حضرت ام البنینؓ کی تربیت کا نتیجہ تھا۔

عباس علمدار اپنے بابا شیر خدا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی طرح شجاعت کے پیکر تھے جن کی بہادری کا چر چا پورے عرب و عجم میں تھاآپ نے ساری زندگی خاندان رسول ؐ کی خدمت و حفاظت میں بسر کی ۔اہل بیت رسول ؐ کو حضرت عباس پر اس قدر مان تھا کہ جب میدان کربلا میں حضرت عباس علمدار شہید ہو گئے تو مورخین نے اس کی کچھ اس انداز میں منظر کشی کی ۔

’’نواسہ رسول ؐ امام حسینؓ کے دشمنوں کی جو آنکھیں جو ابو الفضل العباس کی تلوار اور جرات کے خوف کی وجہ سے بیدار رہتی تھیں آپ کی شہادت کے بعد آرام اور سکون کی نیند سوئیں گی اور حرم رسولؐ اللہ اہل بیت کم سن بچے اور خواتین جو وجود عباس ؑ کا فخر کرتے تھے اور اس لئے امن سے سوتے تھے کہ عباس کی آنکھیں ان کی حفاظت میں جاگ رہی ہوتی تھیں ۔

ان کے دل مطمئن ہوتے تھے کہ عباس جیسا شیر دل ان کا نگہبان تھا،آج عباس کے بعد اہل بیت کے بچوں کے چہرے خوف زدہ اور آنکھیں بے نیند ہیں ،ان کے قلوب بے چین اور پلکیں نیند سے محروم ہیں وہ قیدی بنا لئے جانے اور مال و اسباب کے لٹ جانے کے منتظر ہیں ‘‘

عباس علمدار کو کربلا میں امام حسینؓ کے جنگ کی اجازت نہیں ملی محض پانی لانے کی اجازت ملی تھی اور یہ ماں کی تربیت ہی تھی کہ عباس نے نبی ؐ کے نواسوں کے کم سن بچوں کیلئے پانی لانے کیلئے بازو کٹا دیئے اور زخمی حالت میں امام حسینؓ سے درخواست کی کہ اے سید و سردار میری لاش کو خیموں میں نہ لے جائیے گامیں خاندان رسالت ؐ کے بچوں سے شرمند ہ ہوں ۔

آج عباس علمدار کا مزار کربلا میں وفا کا مرکز بن کر ایستادہ ہے جنہیں عشق رسالت ؐ کا یہ اجر ملا کہ آپ کے مزار پر کی جانے والی کوئی دعا رد نہیں ہوتی عباس علمدار باب الحوائج کہلاتے ہیں ۔یہ مقام ،احترام ان کی ماں حضرت فاطمہ بنت حزام زوجہ امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب کی تربیت کا فیض ہے جنہوں نے اپنے 4فرزند نبی ؐ کے پیارے نواسے امام حسین ؑ کی محبت میں میدان کربلا کی قربان گاہ میں پیش کئے ۔

حضرت فاطمہ زہرا ؓ کی شہادت کے دس یا بعض روایات کے مطابق 15برس بعد امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالبؓ نے اپنے بھائی عقیل ابن ابی طا لب کہ جو عرب میں حسب و نسب کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے کو بلایا اورکہا کہ عرب کے ایک بہادر قبیلہ سے ان کے لئے ایک ہمسر کا انتخاب کریں تاکہ ان کے بطن سے وہ بہادر اور باوفا بیٹا پیدا ہوکہ جو فرزند رسول ؐ امام حسینؓ کی مد ونصرت کر سکے۔

جس کی ولادت کی پیش گوئی رسولؐ خدااور دخترنبی ؐحضرت فاطمہ ز ہراؓ فرما چکے تھے ۔

عقیل نے فاطمہ کلابیہ(ام البنین ) کا انتخاب کیا کیوں کہ ان کا قبیلہ اور خاندان ’’بنی کلاب‘‘عرب میں بے نظیر شہرت کا حامل تھا اور اپنی شجاعت اوت بہادری میں تمام عرب میں زبان زد عام تھا۔امیر مومنین ؓنے بھی اس انتخاب کو پسند کیا اور اپنے بھائی عقیل کے ذریعے شادی کا پیغام پہنچایا۔

آپ کے والد نے جیسے ہی اس پیغام کو سنا فوراً خوشی کے عالم میں اپنی بیٹی فاطمہ کلابیہ کے پاس گئے اور اس سلسلے میں ان کی مرضی معلوم کرنا چاہی، ام البنین نے اس رشتے کو سربلندی و افتخار سمجھ کر قبول کرلیا اور پھر اس طرح جناب ام البنین اور حضرت علی ؓرشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے۔

حضرت ام البنین کا نام فاطمہ وحیدیہ کلابیہ تھاآپ عرب کے مشہور بہادروں وحید بن کعب اور کلاب بن ربیعہ کے خاندان سے تھیں ۔

آپ کی ولادت 5ھجری بیان کی گئی ہے ۔جناب ام البنین، والد حزام بن خالد اور والدہ ثمامہ یا لیلیٰ بنت سہیل بن عامر دونوںکی طرف سے نجیب و اصیل تھیں-آپ کے والد شجاعت کے دھنی تھے تو والدہ صاحب دانش خاتون تھیں بہادری والد اور فصاحت و بلاغت آپ کو والدہ سے ورثے میں ملی ۔اسی تربیت کے نتیجے نے حضرت ام البنین کو عرفان کامل کی منزل پر فائزکیاآپ ایمان کامل اور نیک صفات کی مالک تھیںعلم و فضل سے مزین تھیں اہل بیت کی عظمت کا حقیقی عرفان رکھتی تھیں اور انہیں دل سے چاہتی تھیں- حضرت ام البنین عقل و خرد ، مستحکم ایمان اور بہترین صفات سے مزین تھیں اسی لئے علی ؓان کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور ان کی حرمت کا پاس و لحاظ رکھتے تھے۔

نکاح کے بعدجب حضرت ام البنین امیر المومنین علی ابن ابی طا لبؓ کے گھر تشریف لائیں ،نبیؐ کے نواسے حسن ؓو حسینؓ رشتے کے تقاضے کے پیش نظر تعظیم کیلئے کھڑے ہوگئے۔ ام البنین نے ہاتھ جوڑ کر کہا : نبی ؐ کے شہزادو! اور خاتون جنت کے فرزندومیں ماں بن کے نہیں آئی ،بلکہ میں توتمہاری کنیز بن کر آئی ہوں -اس وقت دونوں بچے امام حسن و حسین بیمار تھے اور جب آپ نے اس صورت حال کو دیکھا توحضرت علیؓ سے درخواست کی کہ مجھے فاطمہ کے نام سے کہ جو ان کا اصلی نام تھا نہ پکاریں کیونکہ یہ نام سن کر بچوں کو ان کی اپنی ماں فاطمہ زہراؓ کی یاد آ ئیگی حضرت ام البنین نے حسنین شریفین کو بے انتہا محبت دی اور ایک ماں کی طرح ان کی خدمت کی اور ان کی کنیز کہلانے میں فخر محسوس کیا۔

حضرت فاطمہ کلابیہ کے بطن سے چار بیٹے متولد ہوئے عباس، جنہیں قمر بنی ہاشم کہا جاتا تھا، اس کے علاوہ عبداللہ جعفر اور عثمان ہیں حضرت ام البنین کے فرزندان بھی نہایت ہی شجاع وبہادر تھے ۔- ان چاروں بیٹوں کی وجہ سے ہی آپ کو ام البنین یعنی بیٹوں کی ماںکہا جاتا تھا-

تاریخ میں ایسی خاتون کی مثال کم ہی ملے گی کہ جنہوں نے دوسرے بچوں کواپنے بچوں پر اس قدر زیادہ فضیلت اور برتری دی ہو۔

ام البنین نے رسول خداؐکے نواسوں کی پرورش کو اپنا دینی فریضہ سمجھ کر ادا کیااور ہمیشہ اپنی سگی اولاد پر خاتون جنت بنت رسول ؐ حضرت فاطمہ زہرا کی اولاد کو ترجیح دی کیونکہ ام البنین اس امر سے آگاہ تھیں کہ پروردگار عالم نے اپنی مقدس کتاب میں مسلسل اہل بیت سے محبت کا ذکر کیا ہے ، اور رسولؐ خدا کی جانب سے بھی متواتر احادیث موجود ہیں کہ جن میں اپنی اہل بیت سے محبت کا درس ملتا ہے۔
آپ نے اولاد زہراؑکی خدمت میں اور ان کی پرورش میں کسی بھی قسم کی کوتاہی نہیں کی اور دل و جان سے اس کو مقدس ترین فرض سمجھ کر انجام دیا۔عباس علمدار نے بھائی ہوتے ہوئے بھی امام حسینؓ کوآقا و مولا کہاان کی اولاد کا بھی احترام کیا۔ کربلا میںخاندان نبوت ؐ کے بچوں کیلئے پانی لانے کی جدوجہد میں ہی اپنے بازو بھی کٹائے اور شہادت کا رتبہ بھی پایا۔
تاریخ کی کتب گواہ ہیں کہ جب فرزند رسول امام حسینؓ کوکوئی زخم لگتا تھا تو ام البنین کے تربیت یافتہ عبا س کو پکارتے تھے جب حسینؓ گھوڑے سے گرے تو بھی آپ نے عبا س کو ہی پکارا۔

خاتون جنت حضرت فاطمہ ز ہراؓ کی بیٹیوں کو حضرت ام البنین کے بیٹے اور اپنے بھائی عباس کی شجاعت پر بہت ناز تھا۔جب تک عباس زندہ رہے دشمنوں کی لاکھوں کی فوج سے بھی خاندان نبوت کی خواتین اور بچوں کو ذرا خوف محسوس نہ ہوتا تھا۔

جب عباس علمدار شہید ہوئے تو خاندان نبوت میں ایسا کہرام برپا تھا کہ جیسے ان کا حصار اور پناہ ختم ہوگئی ہو۔جب لشکر یزید نے رسول زادیوں کی چادریں لوٹیں تو بھی ان کے نام پر عباس کا ہی نام تھا۔

عباس علمدار پر خاندان نبوت کا یہ مان حضرت ام البنین کی تربیت کا ہی نتیجہ تھا۔ام البنین کے ایمان اور فرزندان رسول کی نسبت محبت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ اپنے بیٹوں کو امام حسینؓ کو قربان ہونے کا درس دیا اور جب امام حسینؓ قافلہ شہادت کو لے کر کربلا روانہ ہوئے توہمیشہ جولوگ کربلا اور کوفہ سے خبریں لاتے تھے حضرت ام البنین اپنے بیٹوں کے بجائے ان سے امام حسین ؑ کے بارے میں سوال کرتی تھیں۔

حضرت ام البنین واقعہ کربلا کے بعد بے حد مضطرب و بے چین تھیں کہ اتنے میں خبر ملی کہ بشیرابن جزلم حضرت امام سجاد کے حکم سے مدینہ میں آیا ہے تاکہ لوگوں کو کربلا کے دلسوز واقعے اور اسیران اہل بیت کی مدینہ واپسی سے مطلع کرے، بشیر مدینے میں منادی سنا رہا تھا کہ اے اہل مدینہ، اہل بیت طاہرین کا لٹا ہوا قافلہ مدینہ واپس آگیا ہے جب یہ آواز حضرت ام البنین کے کانوں سے ٹکرائی تو عصا کے سہارے گھر سے باہر نکلیں اور بشیر سے سوال کیا اے بشیر میرے حسین ؓکی کیا خبر ہے ؟ بشیر نے کہا خدا آپ کو صبر عطا کرے آپ کا فرزند عباس شہید کردیا گیا ام البنین نے دوبارہ سوال کیا اے بشیر مجھے فرزند رسول ؐامام حسینؓ کے بارے میں بتاؤ ؟ بشیر نے آپ کے تمام فرزندوں عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان کی شہادت کو ایک ایک کرکے بیان کیا لیکن حضرت ام البنین مسلسل امام حسین ؓکے بارے میں سوال کرتی اور کہتی جارہی تھیں اے بشیر میرے تمام فرزند اور جو کچھ بھی آسمان کے نیچے ہے سب حسین پر قربان ہیں اس وقت بشیر نے امام حسین ؓ کی شہادت کی خبر سنائی آپ اس دلخراش خبر کو سن کر لرز گئیں اور کہا جس کا عباس جیسا بھائی ہو تو اْسے کیسے شہید کیا جا سکتا ہے؟اے بشیر تو نے میرے دل کی رگوں کو پارہ پارہ کردیا اور شدت سے نبی ؐ کے نواسے کی شہادت پر گریہ کرنے لگیں۔

اپنے چار بیٹوں کی شہادت کا سننے کے باوجودنواسہ رسول امام حسینؓ کے غم کو ترجیح دیناحضرت ام البنین کی محبت اہلبیت ، خلوص، ایمان اور راسخ عقیدہ کا ثبوت ہے-

حضرت ام البنین جب تک زندہ رہیں کربلا کے مصائب یاد کرتیں اولاد رسول ؐ کی مظلومیت جنت البقیع میں جا کر بیان کرتیں ۔ تاکہ کربلا کے شہیدوں کا ذکر ہمیشہ زندہ رہے اور ان مجلسوں میں خاندان عصمت و طہارت کی عورتیں شریک ہوکر کربلا کے شہیدوں پر آنسو بہاتی تھیں آپ نے اپنی تقریروں ، مرثیوں اور اشعار کے ذریعے شہیدان کربلا کی مظلومیت کودنیا پر اجاگر کیا۔

مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت ام البنین بقیع کے قبرستان میں جاتیں تھیں اور اس طرح سے مرثیہ خوانی کرتیں تھیں تو شقی القلب بھی آپ کے مرثیہ سن کر روتے تھے۔

حضرت ام البنین نے 13جمادی الثانی64ھجری کو رحلت فرمائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں ۔ اہل بیت رسولؐ حضرت ام البنین کی عظیم شخصیت اور اعلی مقام کے قائل تھے اور آپ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔

رسول ؐ و آل رسول ؐ کی محبت نے حضرت ام البنین کو وہ عظیم مقام عطا کیا ہے کہ آج بھی ان کے وسیلے اور واسطے سے کوئی دعا کی جاتی ہے تو خدا اس کو کبھی بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا کیونکہ آپ کا مقام خدا،رسول ؐ و آل رسول ؐ کی نظر میں بہت بلند ہے تاریخ حضرت ام البنین اور ان کے عالی مرتبت فرزندوں جیسی فداکاری،وفا شعاری اور محبت اہلبیت کی مثال پیش کرنے سے معذور و قاصر ہے ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu