Open Menu

ALLAH Ki Rah Main Bedareegh Kharch Karo - Article No. 3337

ALLAH Ki Rah Main Bedareegh Kharch Karo

اللہ کی راہ میں بے دریغ خرچ کرو - تحریر نمبر 3337

اللہ کی راہ میں خرچ کرو یا فرمایا بے دریغ دو اور گنو مت ورنہ اللہ تعالیٰ بھی گن کر تمہیں دے گا۔

منگل 17 مارچ 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(اللہ کی راہ میں) خرچ کرو یا فرمایا بے دریغ دو اور گنو مت ورنہ اللہ تعالیٰ بھی گن کر تمہیں دے گا۔(رواہ البخاری)
سامعین گرامی قدر!امام بخاری رحمة اللہ علیہ کی روایت کردہ یہ حدیث دراصل اللہ کی راہ میں صرف خرچ کرنے کی ہی نہیں بلکہ بے دریغ اور خوش دلی سے خرچ کرنے کی ترغیب ہے ۔
مالیاتی شعبہ میں دین اسلام کا نظام نہایت متوازن اور قابل قدر ہے ۔وسائل رزق اور مال ودولت کے اعتبار سے معاشرے کے سب افراد یکساں اور ہمسر نہیں۔ کچھ امیر،کچھ غریب اور کچھ متوسط ہیں ۔اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ نظام کا حصہ ہے ۔

(جاری ہے)

مسلم اور غیر مسلم کا اس میں کوئی امتیاز نہیں ۔خالصةً انسانی مسئلہ ہے جسے خالق کائنات نے اپنے تمام بندوں پر بلا تفریق لاگو کر رکھاہے ۔

دنیا میں کوئی خطہ اور انسانوں کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جہاں کے سب لوگ امیر یا سب ہی لوگ قلاش ہوں۔امیر ترین ملکوں میں بھی گدا گر اور مفلس لوگ مل جاتے ہیں ۔جن میں بعض کا انحصار امیر لوگوں کے ایثار پر ہوتاہے ،جو انہیں صدقہ ،خیرات اور Charityکی شکل میں دیتے ہیں اور اسی سے ان غرباء کی جان وجسم کا رشتہ قائم رہتاہے ۔اسی طرح غریب ممالک میں دولت مند لوگ پائے جاتے ہیں۔

دین اسلام نے ایک طرف تو اس بات پر زور دیا ہے کہ معاشرے کا کوئی بھی فرد بلا عذر کسی دوسرے فرد پر بوجھ نہ بنے۔ جب تک وہ خود کچھ کر سکتاہے اور کما سکتاہے ،ضرور کر ے اور کمائے ۔اسی لئے پیشہ ورانہ گداگری کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے سخت وعید اور کڑی سرزنش ہے ۔دوسری طرف یہ غریب دوست تعلیم بھی ہے کہ امراء اور دولت مند لوگ ان لوگوں کو نظر حقارت سے نہ دیکھیں جو روزی کے وسائل سے محروم ہیں ۔
اور محنت ومشقت کے باوجود تنگی ترشی میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔بلکہ مالی ایثار ،سخاوت اور داد ودہش سے ان لوگوں پر اللہ کے دیئے ہوئے مال سے خرچ کریں ۔انہیں اس قابل کریں کہ وہ بھی با عزت طریقے سے اپنی ضروریات کو پورا کر سکیں ۔اس کے لئے دین اسلام نے زکوٰة وصدقات اور خیرات کا غیر معمولی ،دلکش اور اجر وثواب سے بھر پور ایک نظام متعارف کرایا ہے ۔
سب ہی مسلمان اس سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ پوری دلجمعی سے اس پر عمل پیرا ہیں ۔اور غربت وافلاس کو کم کرنے کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کررہے ہیں ۔خصوصاً پاکستان کے مسلمان اپنی داد ودہش کے لحاظ سے پوری دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی مسلمان اس میدان میں پوری دنیا میں سب سے اونچے درجہ پر فائز ہیں ۔جو بڑی مسرت اور خوشی کی بات ہے الحمد اللہ۔
قرآن حکیم کی سورة الانعام کی آخری آیت میں ارشاد ہواہے۔ یعنی اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے تمہیں زمین میں (اپنا) خلیفہ مقرر کیا ہے اور تم میں بعض کو بعض پر درجے کے اعتبار سے رفعت اور بلندی بخشی ہے تاکہ وہ تمہیں آزمائے اُس میں جو اُس نے تمہیں دے رکھاہے۔ بے شک آپ کا رب جلد سزا دینے والا اور بے شک وہ غفورورحیم ہے۔
معلوم ہوا کہ دولت مندی اور کثرت مال ایک آزمائش بھی ہے ۔
اور آزمائش یہی ہے کہ وسائل رزق سے مالا مال طبقہ محروم الوسائل کا خیال رکھتاہے یا نہیں ۔آزمائش کے اس پہلو کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت نے اہل ایمان کو ترغیب وترہیب کے انداز میں تلقین فرمائی ہے کہ وہ اس کے دیئے ہوئے مال سے ضرور تمند اور سفید پوش طبقہ پر دل کھول کر خرچ کریں ۔علانیہ خرچ کریں ،چھپا کر خرچ کریں ۔دن کو خرچ کریں اور رات کو خرچ کریں ۔
نام ونمود کے لئے نہیں بلکہ اللہ کو راضی اور خوش کرنے کے لئے خرچ کریں ۔اور مت ڈریں اس بات سے کہ صدقہ وخیرات سے ان کا مال ختم ہو جائے گا ۔اس کے برعکس اس میں برکت اور اضافہ ہو گا۔ ارشاد ربانی ہے :”یعنی جو چیز بھی تم خرچ کرو گے ،اللہ تمہیں اس کا عوض اور بدلہ دے گا اور وہ عطا کرنے والوں میں سب سے بہتر عطا کرنے والا ہے ۔اور جو کچھ تم زکوٰة کے طور پر غرباء اور مساکین کو دیتے ہو اور جس سے تم صرف اللہ کی خوشنو دی چاہتے ہوتو دراصل یہی لوگ (اپنے مال اور آمدنی )میں بڑھوتی کرنے والے ہیں۔
وحی ربانی کی یہ یقین دہانی طبقہ امراء کے لئے کتنی عظیم بشارت ہے ۔سبحان اللہ۔
آج کی زیر مطالعہ حدیث میں رسول رحمت ،محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انفاق فی سبیل اللہ کو بہت ہی دلنشین اور ایمان افروز انداز میں بیان فرمایا ہے ۔بظاہر تو خطاب بنت الصدیق رضی اللہ عنہا سے ہے کہ اسماء !تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو مگر امت کے متمول افراد اس کے مخاطب ہو سکتے ہیں اور اسی حدیث کے بعض الفاظ ہیں کہ ہاتھ جھاڑ لو،مال کو اللہ کی راہ میں بے دریغ خرچ کرو۔
اور فرمایا کہ گن کراور حساب کرکے نہ دو۔ورنہ اللہ پاک بھی گن کر اور حساب کتاب سے دے گا۔یہاں یہ بات ضرور یاد رہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ ،حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی بڑی صاحبزادی ہیں اور خود صدیق اکبر رضی اللہ عنہ انفاق فی سبیل اللہ کی ایک روشن علامت ہیں ۔آپ کے خاندان کا ایک ایک فرد اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتاہے اور خوب کرتاہے ۔
اسی پس منظر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ خرچ کرو اور اس طرح خرچ کرو۔ اللہ پاک سے بے حساب اور ان گنت لینا ہوتو اس کی راہ میں دینے کا بھی یہی انداز اپنا لو ۔بات بڑی سیدھی ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا پانی کے بہاؤ کی مانند ہے ۔پانی کا نکاس جس قدر تیز ہو گا اس قدر اوپر سے پانی کی آمد بھی تیز ہو گی ۔اگر سامنے بند باندھ دیا گیا تو یقینا پانی کی روانی متاثر ہوگی ۔
یہ خیال ضرور ذہن میں رہنا چاہئے کہ پانی کا نکاس کار آمد کھیتی کی جانب ہو ۔ورنہ جھاڑ جھنکار میں پہنچ کر پانی بھی بے قیمت ہو کر رہ جائے گا ۔اسراف اور فضول خرچی اور نام ونمود کی نیت سے خرچ کیا جانے والا مال کھوہ کھاتے ہے۔صرف ضائع ہی نہیں بلکہ الٹاگناہ کا بھی باعث ہوا۔اعاذنا اللہ منھا۔
ذی وقار سامعین!آیئے اس حدیث مبارک کے تناظر میں ہمیں جو دعوت فکر ملتی ہے اس پر ذرا غور کریں اور فیصلہ کریں کہ پاکستان کے معروضی حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔
آج پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔مہنگائی کے اس دور میں لاکھوں نہیں کروڑوں نا دار لوگ ،یتیم ،بیوہ گان مساکین،بے خانماں ،خانہ بدوش ،بیمار لوگ ،غریب اور مہنگائی کے ہاتھوں سخت اذیت میں مبتلا ہیں ۔ہمارے اپنے اعزہ وقارب ایسے ہوں گے جو سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لئے کسی کو اپنی بپتا سنانے کے قابل نہیں ہوں گے ۔
لاکھوں طلبا فیس نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہوں گے ۔آئی ڈی پیز کی کسمپر سی تو ابھی کل کی بات ہے ۔رفاہی ادارے فنڈز کی کامیابی کی وجہ سے سر بگریباں ہیں ۔غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں پسے ہوئے لوگوں کی خبر گیری ،علاج معالجہ،معقول رہائش اور دیگر ضروریات زندگی کا بہم پہنچانا ہماری ہی ذمہ داری ہے ۔درد دل رکھنے والے متمول حضرات حدیث مبارک کی تلقین کے مطابق دل کھول کر صدقات و عطیات دیں اور ممکن حد تک اُن کے دکھی دل کو سہارے دے کر اللہ تعالیٰ کے ہاں ڈھیروں اجر وثواب پائیں کہ بوقت ضرورت ہی کسی کے کام آنا بڑی نیکی ہے ۔
دینی مدارس کے طلبہ پر اللہ پاک کے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرنا بہت بڑی نیکی ہے ۔لہٰذا زکوٰة اور صدقات وخیرات کے نیک عمل میں انہیں بھی ضرور یاد رکھا جائے ۔اللہ پاک تو فیق کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین

Browse More Islamic Articles In Urdu