Open Menu

Allah Ki Talwar - Article No. 2155

Allah Ki Talwar

اللہ کی تلوار - تحریر نمبر 2155

فاتح شام ،عراق ،ایران۔عظیم سپہ سالار،فاتح اعظم کون سا مسلمان ہے جو سیف اللہ حضرت خالد بن ولید کے نام سے واقف نہ ہو۔ آپ وہ ہیں جن کی قبول ِاسلام کے لئے آمد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصحاب سے فرمایا:” مکہ والوں نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہاری طرف پھینک دیئے ہیں۔

منگل 24 جولائی 2018

صادق حسین صدیقی

کون سا مسلمان ہے جو سیف اللہ حضرت خالد بن ولید کے نام سے واقف نہ ہو! آپ وہ ہیں جن کی قبول ِاسلام کے لئے آمد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصحاب سے فرمایا:” مکہ والوں نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہاری طرف پھینک دیئے ہیں۔ صرف اسی ایک ارشاد نبویﷺ سے حضرت خالد بن ولید کی قدرومنزلت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اور جیسا کہ بعد کے واقعات نے ثابت کیا، جمعیت اسلام میں خالد بن ولید کی شمولیت حقیقی معنوں میں اسلام کی قوت کو دوبالا کرنے کا سبب ثابت ہوئی۔


جس وقت اسلام دنیا میں جلوہ نما ہوا، کرہ ارض پر دو بڑی طاقتوں کے نام کا غلبہ تھا: روم اور ایران، اور یہ دونوں سلطنتیں دو اطراف سے جزیرہ نما عرب کو دبائے ہوئے تھیں۔ ایران میں آتش پرستوں کی حکمرانی تھی اور سلطنت روما میں عیسائیوں کی۔

(جاری ہے)

ان دو پرانے اور مضبوط مذاہب کے سامنے جب اسلام کا سورج طلوع ہونا شروع ہوا تو انہیں اپنا وجود خطرے میں پڑتا نظر آیا۔

چنانچہ ان کی طرف سے اسلامی قوت کو دبانے کی کوششوں کا آغاز ہو گیا۔ ردعمل کے طور پر مسلمانوں نے بھی ہتھیار اٹھائے، اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ کیسے ان بے سروسامان ،قلیل التعداد اور” بے تہذیب“ انسانوں نے دنیا کی دو بڑی طاقتوں کو پے در پے شکستیں دے کر کچھ اس انداز میں زیر و زبر کیا کہ دو دو بار ہ کبھی اس خطے میں سر نہ اٹھا سکیں۔اس کڑے مرحلے کو عبور کرنے میں حضرت خالد بن ولید نے جو کردار ادا کیا، اس سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیرمسلم بھی بخوبی واقف ہیں۔
تاریخ اسلام میں کئی فاتحین آئے اور گئے ، مگر ایک بھی ایسا نہیں جو حضرت خالد بن ولید کی ہم سری کا دعویٰ کر سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار یعنی سیف اللہ قرار دیا، اور حضرت خالد بن ولید نے بار بار اپنے قول وفعل سے قول رسولﷺ کی حقانیت پر مہر تصدیق ثبت کی۔ ان کی فتوحات کا ایک اجمالی احوال آپ کو زیر نظر کتاب کے آئندہ صفحات میں ملے گا ۔
تفصیلی احوال اس لئے نہیں کہ اگر تفصیل میں جائیں تو ایسی کئی کتابیں درکار ہوں گی۔
حضرت خالد بن ولید نے سو سے زائد معرکوں میں افواج اسلام کی قیادت کی، اور سب میں فتح یاب رہے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ جب کہا جانے لگا جس فوج کے سالار خالد بن ولید ہوں، اسے شکست دی ہی نہیں جاسکتی۔ جب ایسی باتیں خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے حضرت خالد بن ولید کو سالاری کے عہدے سے معزول فرما دیا تا کہ ثابت ہو سکے کہ یہ فتوحات خالد بن ولید کے زور بازو کا نہیں بلکہ کرم و عنایت خداوندی کے سبب ہیں۔
کوئی اور ہوتا تو ایسی سبکی پر دل برداشتہ ہو کر یا گھر بیٹھ جاتا یا آمادئہ بغاوت ہو جاتا لیکن خالد بن ولید نے امیر المونین کے اس فیصلے کو سر آنکھوں پر رکھا، اور ایک عام سپاہی اور افسر کے طور پر فتوحات اسلام میں حصہ ڈالتے رہے۔
حضرت خالد بن ولید ساری عمر شہادت کے طلب گار رہے اور اسی تمنا میں ہر معرکے میں اپنے سپاہیوں کے شانہ بشانہ لڑتے رہے کہ شاید کسی میدان کے نصیب میں آپ کی شہادت کا نظارہ کرنا شامل ہو۔
آپ کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جس پر ان زخموں کے نشانات نہ ہوں جو فتوحات اسلام کی یادگار کے طور پر باقی رہ گئے تھے۔ روایت ہے کہ ایک روز آپ نے اپنے ایک دوست کو اپنے جسم کے یہ نشانات دکھائے اور پوچھا کہ کیا اسے کوئی حصہ زخموں سے خالی نظر آتا ہے؟ دوست نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے جو کچھ کہا، اس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ میں ساری عمر شہادت کی تمنا میں جہاد کرتا رہا لیکن میری یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ اس پر آپ کے دوست نے کہا: یہ خواہش پوری ہو بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ”اللہ کی تلوار‘ کہا تھا اور یہ ممکن نہیں تھا کہ اللہ کی تلوار، اللہ کے کسی دشمن کے ہاتھوں ٹوٹ جاتی۔

Browse More Islamic Articles In Urdu