Open Menu

Asma Ul Husna - Al Mulku - Article No. 1805

Asma Ul Husna - Al Mulku

اسماء الحسنیٰ ۔ الملک - تحریر نمبر 1805

دنیا کا بادشاہ مطلق ، اعداد ابجد 90، برائے قیام ملک و خوشحالی۔ اسم الملک اقتدار اور حکومت سے متعلق ہے، ایسے امراءاور افسران سے اس کا تعلق ہے جولوگوں سے کام لینے والے ہوں اس کا ذکر کرنے والوں کو خدا وہ ہیبت اور دبدبہ بخشتا ہے جو کاروبار حکومت اور دنیاوی امور چلانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

جمعرات 17 مئی 2018

پیر شاہ محمد قادری سرکار:
دنیا کا بادشاہ مطلق ، اعداد ابجد 90، برائے قیام ملک و خوشحالی۔
اسم الملک اقتدار اور حکومت سے متعلق ہے، ایسے امراءاور افسران سے اس کا تعلق ہے جولوگوں سے کام لینے والے ہوں اس کا ذکر کرنے والوں کو خدا وہ ہیبت اور دبدبہ بخشتا ہے جو کاروبار حکومت اور دنیاوی امور چلانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

اسم الملک کا ورد کرنے والے شخص کے اندر خدا ایسی قدرت، روحانیت اورقوت تسخیر پیدا کردیتا ہے جس اس کے اقتداد کو تقویت دینے کی وجہ بنتے ہیں۔ جو شخص الملک کو نماز کی پابندی کے ساتھ ہمیشہ پڑھتا رہے اس کی ملکیت کا دائرہ وسیع ہوگا۔ الملک تسخیر محبت اور مقاصد کے حصول کے لیے بھی اکسیر ہے۔ مال و دولت میں اضافے کے لیے بعد نماز عشا روزانہ3125بار توجہ سے پڑھے تو انشاءاللہ تعالیٰ مقصد حاصل ہو گا۔

(جاری ہے)

اسم ملک الناس بھی قرآن حکیم میں استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں کل یعنی ہر نوح کا بادشاہ، ظاہر ہے جملہ نوع انسانی اور جانداروں پر حکمرانی اللہ تعالیٰ کے سوا کس کو زیبا ہے؟۔ تمثیلاََ یہ حقائق بھی موجود ہیں کہ دنیا پر حکمرانی کا دعویٰ دوکافروں بخت نصر اور نمرود نے کیا تھا اسی طرح ذوالقرنین اور حضرت سلیمان علیہ السلام جیسے مومنین کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ انہوں نے بھی دنیا پر حکمرانی کی تاہم ان چاروں میں سے کوئی کل دنیا کا حکمران ثابت نہ ہو سکا بخت نصر کی ایران اور ملحقہ علاقوں پر اور نمرود کی سلطنت بابل و نینوا پر حکمرانی تھی۔
ذوالقرنین کی حکومت کا حدود اربع قرآن حکیم میں موجود ہے جبکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو حکومت حدود فلسطین اور اطراف کے علاقوں پر تھی پوری دنیا کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا مالک و حکمران صرف و صرف خدائے ذوالجلال ہے۔
سورہ¿ الزخرف میں ہے۔بڑائی والا وہ ہے کہ سارے آسمان، تمام دنیا اور ان کے درمیان کی سب اجرام اور اشیاءپر اس کی سلطنت و حکمرانی قائم ہے۔
اسم الملک کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ملوک دنیا صرف ظاہر ی معنی میںحکمران کہلاتے ہیں۔ حقیقی بادشاہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں سورہ¿ طہ میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے۔ الملک الحق ، الملک القدوس، اللہ و الملک الحق اس بادشاہ مطلق باری تعالیٰ کی حکمرانی کے مظہر ہیں جس کا نہ کوئی ثانی ہے نہ مثل ہے۔اسم الملک کا ورد کرنے والے کے لیے لازمی ہے کہ اسے مالک کا فرق معلوم ہونا چاہیے مالک کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک شخص زمین کے حصے کا مالک ہے مگر اسے فروخت یا تبدیل کرنے کا مجاز نہیں مگر ملک کے لیے صفت حکمرانی کا ہونا لازمی ہے۔
اسم الملک کی علمی اور ادبی توجیہہ کرتے ہیں تو بے شمار حقائق سامنے آتے ہیں مثلاََ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو بالکل خالی ہوتا ہے۔ نہ زمین ومکان اس کی ملکیت ہوتے ہیں نہ روپیہ اور سامان زندگی کا مالک ہوتا ہے۔ پھر جب انسان عملی زندگی کی عمر کو پہنچتا ہے تو برسرکار ہو جاتا ہے محنت کرتا ہے جدوجہد کے نتیجے میں اسے اللہ تعالیٰ دکان، مکان اور سامان آسائش عطا فرماتے ہیں اور وہ ان سہولیات کا بلاشرکت غیر مالک بنتا چلا جاتا ہے۔
مگر آپ یہ بتائیے کہ جب وہ مر کے چلا جاتا ہے تو کیا چیزیں اپنے ساتھ لے جانا ہے؟ معلوم یہ ہوا کہ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ ان کا صرف نام کا مالک ہے تصرف کا مالک ہے ان سے فیضاب ہونے کا مالک ہے حقیقی کوئی اور ہے۔معاشرتی زندگی میںہم دیکھتے ہیں کہ آئے دن نئی نئی ایجاد ہوتی رہتی ہیں اور ایک موجد کو ہی اس کا مالک قرار دیا جاتا ہے اگر وہ چاہے تو اپنی ایجاد جس کے نام چاہیے منتقل کر سکتا ہے اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ باغات اور کھیت کھلیان اس کی ملکیت ہیں تو یہ بات کیسے مانی جا سکتی ہے کیونکہ انہیں پیدا انہو ں نے نہیں کیا تھا صرف بنایا تھا سنوارا تھا اور اپنے تصرف میں لائے تھے اس ساری کائنات اور اس میںموجود تمام اشیاءکا مالک وہی رب کریم ہے جس کا اسم الملک ہے وہی مالک الملک اوروہی ہر شے کا خالق و مالک مہربان ہے۔
تصور ملک یہی ہے کہ جس کی ملکیت وہ ہمیشہ اس کی رہے مگر انسان کے مرتے ہی اس کی ملک بھی بھی اس کی نہیں رہتی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مالک اصلی کوئی اور ہے ۔ انسان خلفیہ ارضِ ہے اسے اس کے پروردگار نے حق تصرف دے دیا ہے بس اس کی ملکیت کا دائرہ حق تصرف سے آگے نہیں بڑھتا ۔ حدیث نبوی ﷺ میں وارد ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے مبغوض ترین نام ” شہنشاہ“ ہے اس لیے اپنے بچوں کا یہ نام نہ رکھو کیونکہ اگر کوئی ذات شہنشاہ ہے تو وہ ذات باری تعالیٰ اللہ تعالیٰ بادشاہوں کا بادشاہ ہے اور اصلی شہنشاہ بھی وہی ہے دنیا کے عارضی بادشاہ کیسے شہنشاہ ہو سکتے ہیں؟۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا واقعہ ہے حضرت عیسیٰ اپنے شاگردوں کے ساتھ کہیں جا رہے تھے راستے میں ایک درخت کے نیچے اشرفیاں اور تین آدمی مرے ہوئے دیکھے۔ آپ نے فرمایا۔” دیکھو، دنیا اپنی جگہ موجود ہے لیکن اس کے عاشق مرے پڑے ہیں۔سکندراعظم کی آخری وقت کی عقلمندی دیکھئے کہ اس نے اپنے لوگوں کو ہدایت کی تھی کہ مرنے کے بعد میرے ہاتھ کفن سے باہر نکال دینا تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ پوری دنیا کو فتح کرنے والا سکندر آج خالی ہاتھ جا رہا ہے۔
حالانکہ یہی سکندر اعظم تھا جو دنیا کے اقتدار کو پانے کے لیے یونان سے ٹیکسلا تک مار کاٹ کرتا ہو آیا اور راستے کی بستیوں کو تخت و تاراج کرتا رہا بعد میں اسی مرض اقتدار اور ملک گیری میں اس کے ساتھ نپولین بونا پارٹ اور ہٹلر نے دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔آج بھی یہی ملکیت اور ملوکیت کی بیماری بڑی طاقتوں کو نیچے نہیں بیٹھنے دیتیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اقتدار پسندوں کی خدا سے محاذ آرائی کا جو سلسلہ دراز ہو رہا ہے۔ وہ ان کی تباہی و بربادی پر جا ختم ہو گا اس کا طریقہ مالکِ حقیقی کے پاس یہ ہے کہ وہ ایک ظالم کو دوسرے ظالم پر مسلط کر کے دونوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے اور یہ ہو کر رہے گا کیونکہ مالک ارض و سماءکا یہی قانون ہے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu