Open Menu

Asma Ul Husna - Al-qabiz - Article No. 1894

Asma Ul Husna - Al-qabiz

اسماء الحسنیٰ - القابض - تحریر نمبر 1894

اگر ہم دنیا پر نظر ڈالیں تو ہمیں تنگی اور فراخی رزق و حالت کے بہت سے نظارے دیکھنے کو ملیں گے مثلاََ رزق کی تنگی، خوشحالی، پیدائش و اموات، تنگ دلی، بلند حوصلگی، کمی زیادتی ، خوشی غم ، مصیبت راحت وغیرہ۔جو شخص اسم القابض کا ورد کرے گا وہ ہر کام میں پورا اترے گا ، جملہ امور دنیا میں عزت ملے گی آخرت کی زندگی میںبھی اعلیٰ درجات پائے کیونکہ اس اسم کی برکات سے صوفیاءکرام کو مقام عطا ہوا۔

جمعہ 1 جون 2018

پیر شاہ محمد قادری سرکار:
مصلحت کے تحت تنگی کرنے والا، اعداد ابجد 903، برائے حصول معرفت اور صبر وشکر۔
اگر ہم دنیا پر نظر ڈالیں تو ہمیں تنگی اور فراخی رزق و حالت کے بہت سے نظارے دیکھنے کو ملیں گے مثلاََ رزق کی تنگی، خوشحالی، پیدائش و اموات، تنگ دلی، بلند حوصلگی، کمی زیادتی ، خوشی غم ، مصیبت راحت وغیرہ۔جو شخص اسم القابض کا ورد کرے گا وہ ہر کام میں پورا اترے گا ، جملہ امور دنیا میں عزت ملے گی آخرت کی زندگی میںبھی اعلیٰ درجات پائے کیونکہ اس اسم کی برکات سے صوفیاءکرام کو مقام عطا ہوا۔

القابض کو پڑھنے والے کے پاس بد باطن اور فاسق افراد نہیں آسکتے۔ اس اسم کو اس کے اعداد 903کے مطابق پڑھنے سے شدید امراض میں آرام ملتا ہے۔ زعفران اور عرق گلاب سے لکھ کر پانی دے دھو کر پئے تو شفاءپائے لین دین کے وقت اس اسم کو پڑھتا رہے تو اس کی رقم تجارت کبھی نہ ڈوبے۔

(جاری ہے)

اگر ہم ذات خداوندی کی صفات پر غور فرمائیں تو ہمیں متضاد صفات کا مشاہدہ ہوتا ہے مثلاََ اس نے زمین کا بے پایاں فرش بچھایا تو اس اعتبار سے وہ ” الباسط“ ہے جبکہ فرش زمین پر توازن اور ترتیب قائم رکھنے کے لیے پہاڑوں کو اس کے اوپر قائم کرنا اس کی صفت ” القابض“ کا مظہر ہے۔

اسم القابض اور الباسط کی رنگارنگی ریکھئے کہ اس نے زمین بنائی تو اس پر پہاڑوں کا توازن قائم کر دیا ، پہاڑ بھی خالی نہیں رکھے، ان کے اندر معدنیات کا ذخیرہ بھر دیا پہاڑ کی ظاہری سطح پر کار آمد پتھر بھی لگا دیا اسی طرح الباسط کی برکات دیکھئے کہ زمین بنائی تو اس کے اوپر دریا، سمندر کا سلسلہ رواں کر دیا پھر اپنی صفت القابض سے ان کی روانی اور طغیانی ایک حد مقرر فرما دی۔
زمین کی تہہ میں وہ مادے اور آگ پوشیدہ ہے کہ اگر القابض ان کا زور نہ روکے تو ساری زمین جل کر کوئلہ بن جائے۔ شان کبریائی دیکھئے کہ سمندر کو زمین کے سینے پر پھیلا دیا اس پانی کو بادلوں کے ذریعے آسمان پر پہنچا دیا وہ پانی فضا میں پہنچ کر معلق ہو گیا جب چاہا اللہ القابض نے اس پانی کو اپنے حکم سے بارش بنا کر زمین پر برسا دیا تاکہ پیاسی اور بنجر زمین سیراب اور شاداب ہو جائے۔
اسم القابض اور الباسط ساتھ ساتھ ہونے کی حکمت تو خدائے حکیم و خیبر ہی جانے مگر اس کی قدرت دیکھئے کہ اس نے ہمارے سروں پر آسمان کی لامتناہی چادر تان دی جو بغیر کسی سہارے اور ستون کے قائم ہے اسی طرح روزانہ افلاک سے ستارے بھی ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے ہیں مگر اللہ القابض کے فضل و کرم سے وہ ٹوٹے تارے عالم بالا میں ہی جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔اور زمین پر گر کر تباہی نہیں پھیلاتے ۔
فضا اور خلا میں شعاعیں ، لہریں، لرزشیں، فرشتے اور ماو رائے عقل مخلوقات موجود ہے جنہیں خواہ جن کہا جائے یا د یو مگر یہ اپنا وجود منواتے رہتے ہیں۔
انسان اگر اپنے نظام جسمانی کو دیکھئے تو اس کو پتہ چلے گا کہ جسم میں رگوں پٹھوں کا ایک ایسا جال اللہ تعالیٰ سے بچھا دیا ہے کہ کیا سائنسدان بجلی کے تار اوربے تار نظام کو بچھائیں گے۔ صرف انسان کے دماغ پر غور کیا جائے تو اللہ القابض کی قدرت کا دلاویز شاہ کار سامنے آتا ہے مثلاََ اس ایک دماغ کے اندر قوت حافظہ و متخیلہ ہے قوت ملکہ قوت وہم وخیال اور نظام حیات کو اس طرح مقید کیا ہے کہ بجا طور پر اس کی شان القابض کا پتہ چلتا ہے۔
پھر دل کو لیجئے اس میں سارے جہاں کی بے چینیاں ہیں۔ آرزو، امیدیں اور خوب سے خوب تر کی خواہش جو اگر کسی سبب پوری نہ ہو سکے تو نازک ہونے کے باوجود دل ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوتا صدمات جھیل جاتا ہے۔اسم القابض کا ذکر چلا تو چلتا ہی جاتا ہے کیونکہ صفات القابض نے ہی نظام کائنات کی نبض پر ہاتھ رکھا ہوا ہے ورنہ پتہ نہیں کیا ہو جاتا؟ القابض الباسط کے خاص اثر کا مرکز دل ہے دل میں یہ دونوں کیفیات ہر آن جاری رہتی ہیں ۔
حکیموں اور صوفیا کی اصطلاح میں بھی ان دونوں خو بیوں کا تذکرہ رہتا ہے اگر اثرات الباسط کا رفرما ہوں تو حکماءاور صوفیاءکے کاموں میں ترقی، خوشی اور کامرانی کا عنصر غالب رہتا ہے اور ان کوششوں کا نتیجہ نکل آتا ہے القابض کا اثر غالب ہو تو ہر شے میں سستی کا عنصر نمایاں ہو جاتا ہے صوفی اور درویش جو کرنا چاہتے ہیں وہ کرنہیں سکتے۔ ان کی تمام عبادت و ریاضت دھری کی دھیری رہ جاتی ہے ۔
اسم القابض والباسط کا باہمی ربط ایسا ہی جیسے سیاہی اور سپیدی کا جیسے رات و دن کا جیسے صبح و شام کا جیسے آلام و آسائش کا جیسے دکھ سکھ کا اور یہ معاملات ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ صرف افراد اور حالات تک یہ کیفیت قبض وبسط جاری نہیں رہتی بلکہ تمام امور ہائے دنیا میں اس کا عمل دخل ہوتا ہے اور ہر شے اس کے زیر اثر کام کرتی ہے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu