Open Menu

Eid Ul Fittar Ke Masail O Fazail - Article No. 1985

Eid Ul Fittar Ke Masail O Fazail

عیدالفطر کے مسائل وفضائل - تحریر نمبر 1985

نماز عید پڑھنے والوں سے اللہ تعالی فرماتا ہے بندو! تم گھروں کو لوٹ جاو میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔

جمعرات 14 جون 2018

عید کا لفظ عود سے بنا ہے، جس کا معنی ہے: لوٹنا، عید ہر سال لوٹتی ہے اور اس کے لوٹ کے آنے کی خواہش کی جاتی ہے۔
فطر کا معنی ہے :” روزہ توڑنایا ختم کرنا“۔ عید الفطر کے روز روزوں کا سلسہ ختم ہوتا ہے اس کا روز اللہ تعالی بندوں کو روزہ اور عبادت رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں ، لہذا اس دن کو عید الفطر قراردیا گیا ہے۔
ہجرت مدینہ سے پہلے یثرب کے لوگ دو عیدیں مناتے تھے، جن میں لہو ولعب میں مشغول ہوتے اور بے راہروی کے مرتکب ہوتے، چنانچہ نبی کریم نے زمانہ جاہلیت کی دو غلط رسوم پر مشتمل عیدوں کی جگہ " عید الفطر اور عیدالاضحی ‘ منانے اور ان دونوں عیدوں میں شروع کی حدود میں رہ کر خوشی منانے ، اچھا لباس پہننے، اور بے راہ روی کی جگہ عبادت ،صدقہ اورقربانی کا حکم دیا۔


رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: جس نے پانچ راتوں8،9،10 ذوالحج کی راتیں ، عید الفطر کی رات ، اور 15 شعبان کی رات (شب برات) کو شب بیداری کی اس کیلئے جنت واجب ہوگئی
۔

(جاری ہے)

حوالہ : ترغیب مندرمی جلد نمبر 1۔
ایک حدیث میں فرمایا: فرشتے عید الفطر کی رات کا نام لیلتہ الجائزہ (انعام و اکرام کی رات)رکھتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:” جب مسلمانوں کی عید یعنی عیدالفطرکا دن آتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پرفخر فرماتا ہے، اے میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزاء ہے جو اپنا کام مکمل کر دے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں : اس کی جزاء یہ ہے کہ اس کو پورا اجر وثواب عطا کیا جائے۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں: اے فرشتو! میرے بندوں اور باندیوں نے اپنا فرض ادا کیا پھر وہ ( نماز عید کی صورت میں) دعاء کیلئے چلاتے ہوئے نکل آئے ہیں مجھے میری عزت و جلال ، میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم! میں ان کی دعاوٴں کو ضرور قبول کروں گا۔ پھر فرماتا ہے:”بندو! تم گھر کو لوٹ جاوٴ میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔

نبی پاکﷺنے فرمایا پھر وہ بند ے (عید کی نماز سے ) لوٹتے ہیں حالانکہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں۔
نوٹ: دعا کی قبولیت کی تین صورت میں:
1- جو مانگا، وہی مل جائے۔ 2- اس کی جگہ کچھ اور مل جائے۔ 3- روز قیامت ثواب مل جائے۔ لہذا دعاء ضائع نہیں جاتی کم از کم ثواب ضرور ملتا ہے۔
صدقہ الفطر:
عید الفطر کے روز صبح صادق کے وقت ہر ایسے مسلمان پر جو آزاد ہو، اور ضرورت اصلیہ (یعنی مکان، سواری، بستر، برتن، اور اوزار وغیرہ) کے علا وہ ، نصاب ( مثلا ساڑھے 52 تولہ چاندی، یا اس کی قیمت) کا مالک بھی ہو، پرفطرانہ ادا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔
لیکن اس کو پیشگی رمضان المبارک میں ادا کرنا بھی سنت صحابہ سے ثابت ہے، اس صورت میں رمضان المبارک کی برکت سے ثواب ستر گنا زائدملتا ہے۔فطرانہ کی مقدار 4 سیر اور ساڑھے 6 چھٹانک کھجور یا جو یا کشمش یا پھر اس کی قیمت ہے اور یا 2 سیر اور سوا3 چھٹانک گندم یا اس کی قیمت ہے۔ صاحب نصاب مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ نابالغ بچوں کا فطرانہ بھی ادا کریں فطرانہ کا مصرف وہی ہے جو زکوة کا ہے۔
اس کا بہترین مصرف دینی مدارس کے طلبہ ہیں، نیز وہ لوگ ہیں جو عید الفطر کی تیاری مثلا لباس خوراک کیلئے ضرورت رکھتے ہیں رسول اللہﷺ کا فرمان ہے ترجمہ: اور ان مساکین و غرباء کو اس دن غنی کر دو۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں: رسول اللہ نے صدقہ فطرانہ واجب کیا تاکہ روز و لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک ہوجائے اور مساکین کے لئے کھانے کا بندوبست بھی ہوجائے۔
اس نماز کا وقت سورج کے ایک نیزہ کے برابر بلند ہونے سے ضحوہ کبری“ تک ہے۔ ضحوہ کبری کاصبح صادق سے کو آفتاب تک کے کل وقت کا نصف پورا ہونے پر آ غاز ہوتا ہے۔ نماز عید دو رکعتیں واجب ہے، پہلی رکعت میں ثناء کے بعد اور دوسری رکعت میں قرآت سورت کے بعد ہاتھ اٹھا کر تین تین زائدتکبیریں مسنون ہیں۔
نماز عید الفطر کے بعد خطبہ سنت ہے۔ نماز عید میں آتے اور جاتے ہوئے آہستہ تکبیریں اللہ اکبر اللہ لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر اللہ اکبر ولد احمد اور راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔
نماز عید سے پہلے طاق عدد میں کھجور کھانا سنت ہے عید کے روزغسل کرنا، خوشبو استعمال کرنا، اور اچھا لباس پہننا سنت ہے نماز عید کیلئے اذان اورتکبیر سنت نہیں ہے عیدالفطر کے روز روزہ رکھنا حرام ہے عید الفطر کے بعد مسلسل یا وقفہ کیساتھ ماو شوال کے 6 روزے رکھنا، پوری زندگی روزے رکھنے کے برابر ہے۔ایک ماہ کے روزے رکھ کر عید منانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اب چھٹی ہو گئی جو چاہو سو کرتے رہو بعض لوگ اس موقعہ پر مادر پدر آزاد ہونے کو عید مناناسمجھتے ہیں۔
بے شک عید کی خوشیاں منانا چاہئے لیکن شریعت کی مقررہ کردہ حدود کے اندر رہ کر فحاشی ،شراب ، اور جوا وغیرہ قباحتیں تو پہلے ہی منع ہیں خصوصا اس مبارک مہینے میں اکٹھے کئے ہوں وہ یکسر ختم کر کے ان فضول کاموں کی نذر کر دینانا دانشمندانہ فعل ہوتا ہے اس خوشی کے موقع پر معاشرے کے ان افراد کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہئے جو مالی لحاظ سے کمزور ہوں تا کہ وہ بھی آپ کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کے قابل ہو سکیں نماز عید پھڑنے سے پہلے بلکہ رمضان میں ہی فطرانہ ادا کر دینے سے مستحقین بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہو کر اسے یوم تشکر کے طور پر منا سکتے ہیں صدقہ فطر واجب ہے۔
عورتوں کا بے پردہ اور نیم عریاں لباس میں گھر سے باہر نکلنا ہمیشہ ممنوع ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ترجمہ: اے غیب کی خبر رکھنے والے اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں کی فرمادو کہ وہ اپنی بڑی چادروں کا ایک حصہ اپنے چہرے پر ڈالے رہیں۔ ( سورہ احزاب، آیت:59) اور حدیث پاک میں ہے : جو عورت اپنے شوہر کے سوا کسی اور کو اپنا حسن دکھانے کیلئے سنگار کرے ، اس کے چہرے کواللہ تعالی قیامت کے دن سیاہ کردے گا اور اس کی قبر جہنم کا گڑھا بنا دے گا۔

لیکن عید الفطر جو کہ اللہ تعالی کی رحمتوں اور مغفرتوں اور روز دو عبادت رمضان کا انعام خاص حاصل کرنے کا دن ہے، اس روز اللہ تعالی کی شریعت کی کھلی خلاف ورزی کرنا اور کفار کے طریقے کے مطابق بے راہروی اختیار کرنا، گندی فلمیں اور ڈرامے دیکھنا، اور لڑکیوں کا نیم عریاں لباس میں گلی کوچوں میں گھومنا بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اس روز اللہ تعالی کی عبادت کریں ، صدقہ خیرات کریں، ناراض مسلمانوں میں مصالحت کرانے جیسے اچھے کاموں میں مشغول رہیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu