Open Menu

Gheebat Gunah Kabirh - Article No. 2186

Gheebat Gunah Kabirh

غیبت گناہ کبیرہ - تحریر نمبر 2186

غیبت اورغیبت کرنے والے کو رسول کریمؐ نے بھی سخت ناپسند فرمایا ہے ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ ’’ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ایک دن صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ کیا تم جاتنے ہو غیبت کس کو کہتے ہیں؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اللہ اور اللہ کا رسولؐ ہی ذیادہ جانتے ہیں۔ آنحضرتؐ نے فرمایا

بدھ 1 اگست 2018

امیر افضل اعوان
اسلامی تعلیمات کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیاجائے تو بخوبی احساس ہوتا ہے کہ اسلام میںہر شخص کے حقوق کا پوری طرح تحفظ کرتے ہوئے معاشرہ میں اخلاقی اقدار کے فروغ کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، اسی طرح اسلام میں برائی کی راہ سے بچتے ہوئے گناہ سے گریز اور راہ مستقیم پر چلنے کا درس دیا گیا ہے، جس طرح نیکی کے کاموں کا اجر ء وثواب بیان کیا گیا ہے اسی طرح گناہ کے بھی درجات کا ذکر سامنے آتا ہے، اس حوالہ سے بنیادی طور پر گناہوں کو دو درجات گناہ کبیرہ اور گناہ صغیرہ میں تقسیم کیا گیا ہے، گناہ کبیرہ کے سلسلہ میں سخت وعید ملتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اس میں معافی اور بچت کی امید نہیں ہے، گناہ کبیرہ میں اول الذکر شرک ہے کہ جس میں کوئی راہ مغفرت نہ ہے ، مشرک دونوں جہانوں میں ذلیل و خوار ہی ہوگا اور اس کا کوئی بھی پرسان حال نہ ہوگا،جب کہ غیبت کا شمار بھی گناہ کبیرہ میں ہی آتا ہے اور اس حوالہ سے اس قدر ممانت ہے کہ عام زندگی میں اس کا تصور بھی محال ہے، اللہ اور اس کے محبوبؐ نے غیبت کو پسند نہیں کیا اورغیبت کا شمار بھی گناہ کبیرہ میں ہی آتا ہے، اس حوالہ سے قرآن کریم میں آتا ہے کہ ’’ اے ایمان والو! بہت بد گمانیوں سے بچویقین مانو کہ بعض بد گمانیا ںگناہ ہیں(۱) اور بھید نہ ٹٹولا کرو(۲) اور نہ تم کسی کی غیبت کرو(۳) کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی(۴) اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

(جاری ہے)

‘‘ سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12، اسی طرح قرآن پاک میں ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے کہ ’’ بڑی خرابی ہے ایسے شخص کی جو غیبت ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو ‘‘ سوۃ الحمزہ، آیت نمبر 1، یہاں بہت واضح ہے کہ اللہ تعالی نے غیبت کرنے سے منع فرمایا ہے اور غیبت کرنے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے ۔
غیبت اورغیبت کرنے والے کو رسول کریمؐ نے بھی سخت ناپسند فرمایا ہے ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ ’’ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ایک دن صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ کیا تم جاتنے ہو غیبت کس کو کہتے ہیں؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اللہ اور اللہ کا رسولؐ ہی ذیادہ جانتے ہیں۔
آنحضرتؐ نے فرمایا غیبت یہ ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی کا ذکر اس طرح کرو کہ جس کو اگر وہ سن لے تو اسے نا پسند کرئے ، بعض صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ یہ بتائیے کہ اگر میرے اس بھائی میں جس کا میں نے برائی کے ساتھ ذکر کیاہے وہ عیب موجود ہو ں جو میں نے بیان کیا ہے تو کیا جب بھی غیبت ہو گی یعنی میں نے ایک شخص کے بارے میں اس کی پیٹھ پیچھے یہ ذکر کیا کہ اس میں فلاں برائی ہے جب کہ اس میں واقعتا وہ برائی موجود ہو اور میں نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہو تو ظاہر ہے کہ اگر وہ شخص اپنے بارے میں میرے اس طرح ذکر کرنے کو سنے گا تو خوش نہیں ہو گاتو کیا میرا اس کی طرف سے کسی برائی کو منسوب کرنا جودرحقیقت اس میں ہے غیبت کہلائے گا؟ آپؐ نے نے فرمایا تم نے اس کی جس برائی کا ذکر کیا ہے اگر وہ واقعی اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ برائی موجود نہیں ہے جس کا تم نے ذکر کیا ہے تم نے اس پر بہتان لگایا ، یعنی یہ ہی تو غیبت ہے کہ تم کسی کا کوئی عیب اس کی پیٹھ پیچھے بالکل سچ بیان کرو اگر تم اس کے عیب کو بیان کرنے میں سچے نہیں ہو کہ تم نے اس کی طرف جس عیب کی نسبت کی ہے و ہ اس میں موجود نہیں ہے تو یہ افتراء اور بہتان ہے جو بذات خود بہت بڑا گناہ ہے ‘‘ مشکوۃ شریف، جلد نمبر چہارم، حدیث نمبر 766،اس حدیث میں غیبت کے حوالہ سے بہت ذیادہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا کہ اگر کسی شخص میں کوئی برائی موجو د بھی ہے تو اس کی پیٹھ پیچھے یا دوسروں کے سامنے اس برائی کے بیان سے مکمل گریز کیا جائے ۔

’’ مستورد بن شداد ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی کی غیبت کا نوالہ کھایا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے اس کے مثل جہنم کا لباس پہنائیں گے اور جس شخص نے شہرت و ریا کاری اور دکھلاوے کے مقام پر کھڑا کیا یا کسی شخص کی وجہ سے ریاکاری اور شہرت کے مقام پر کھڑا ہو تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے شہرت و ریا کاری کے مقام پر کھڑا کرئے گا‘‘

سنن ابو دائو، جلد نمبر سوم، حدیث نمبر 1476،یہ تو غیبت کرنے والے کے حال جہنم کا بیا ن ہے مگر غیبت کرنے والے پر تو قبر سے ہی عذاب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، ’’ حضرت ابوبکر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ دو قبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا ان کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی مشکل کام کی وجہ سے عذاب نہیں ہورہا.بلکہ ایک کو پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے اور دوسرے کو غیبت کی وجہ سے عذاب ہورہا ہے‘‘ سنن ابن ماجہ ، جلد نمبر اول، حدیث نمبر 349، غیبت کرنے والا دنیامیں بھی ذلیل و رسوا ہوتا ہے تو اس کی آخرت بھی خراب ہوتی ہے، اس حوالہ سے ایک حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ’’ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے مجھے معراج کی رات اوپر بلایا تو عالم بالا میں میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پرہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے. اور وہ ان ناخنوں سے اپنے چہروں کو کھرچ رہے تھے ان کی اس حالت کو دیکھ کر میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں انہوں نے جواب دیا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے یعنی لوگوں کی غیبت کرتے ہیں یا ان کی عزت وآبرو کے پیچھے پڑے رہتے ہیں‘‘ مشکوۃ شریف، جلد نمبر چہارم،حدیث نمبر 974، حضرت جبرائیل ؑکے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ لوگوں کی عزت وآبرو کے درپے رہتے ان کی برائی کرتے اور لوگوں کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں اور یہ ہی ان کی سزا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسے ہی اپنے ہاتھوں سے نوچتے رہیں گے۔

موجودہ معاشرہ میں حالات یہ ہیں کہ ہم غیبت کو برائی ہی تسلیم نہیں کرتے اور ایک دوسرے کی برائیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کا بیان فیشن کے طور پر کیا جاتا ہے، جب کہ یہ کسی بھی طرح درست نہیں، بد قسمتی سے آج ہم علم نہ ہونے کی وجہ سے ایسی باتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں جو غیبت کے زمرے میں آتی ہیں.ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی ہر بات جس سے کسی کی برائی واضح ہوتی ہو ، چاہے اس کا تعلق اس کے لباس ، جسم ، اس کے فعل یا قول کے متعلق ہو ، مثال کے طور پر جسم کے بارے میں کہا جائے کہ اس کا قد بہت لمبا ہے یا اس کا رنگ کالا ( سیاہ ) ہے یا پھر وہ بھینگا ہے اسی طرح اگر کسی کے بارے میں غلط بیانی کی یا اخلاق کے بارے میں کہا جائے کہ وہ بری عادات والا ہے ، یا مغرور، بد تمیز ، اور بزدل ہے ، یا افعال کے بارے میں ہو کہ وہ چور ، خائن ، بے ایمان ، بے نمازی ہے ،نماز میں ارکان کو سکون سے ادا نہیں کرتا ، قرآن پاک غلط پڑھتا ہے یا کہے کہ اپنے کپڑوں کو نجاست سے پاک نہیں رکھتا یا زکوٰۃ ادا نہیں کرتا یا حرام مال کھاتا ہے ، زبان دراز ہے ، بہت پیٹو ہے ، سوتا بہت ہے ، اس طرح لباس کے بارے میں کہا جائے کہ کھلی آستین والا کپڑا پہنتا ہے، دراز دامن یا میلا کچیلا لباس پہنتا ہے ، یہ سب باتیں غیبت کے زمرے میں آتی ہیں ،یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ غیبت کرنا گناہ کبیرہ تو ہے ہی ، غیبت سننا بھی گناہ کبیرہ ہے، لہذا کوئی بھی شخص غیبت کر رہا ہو تو ہمیں اس کو روکنا چاہیے ۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’ جو اپنے مسلمان بھائیوں کی پیٹھ پیچھے اس کی عزت کا تحفظ کرے تو اللہ تعالی کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ اسے جہنم سے آزاد کر دے ‘۔ ( مسند امام احمد ) متذکرہ بالا آیات قرانی اور احادیث کی روشنی میں غیبت کا گناہ کبیرہ ہونا اور غیبت گو کے عذاب بارے مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے جب کہ آج ہم غیبت کو تو کوئی برائی یا گناہ سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ، ہمیں چاہئے کہ نہ صرف خود غیبت کرنے سے گریز اور پرہیز کریں بلکہ دوسرں کو بھی اس کی تلقین کریں ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu