Open Menu

Hazrat Syedina Bilal Habshi - Article No. 2207

Hazrat Syedina Bilal Habshi

حضرت سیدنا بلال حبشیؓ - تحریر نمبر 2207

اللہ کے رسول کریمؐ نے خود ارشاد فرمایا کہ بلال کس قدر اچھا آدمی ہے وہ تمام موذنوں کا سردار ہے آپ کے والد رباح اور والدہ حمامہ عرب کے ایک قبیلے کے غلام تھے یہ سرزمین عرب کا وہ تاریک دور تھا جب

منگل 7 اگست 2018

صاحبزادہ ذیشان کلیم
عاشق زلف رسولؐ سیدنا حضرت بلال حبشی کائنات کی وہ پہلی عظیم مقدس ہستی ہیں جن کو دنیا کے پہلے موذن ہونے کا اعلیٰ شرف حاصل ہوا اللہ کے رسول کریمؐ نے خود ارشاد فرمایا کہ بلال کس قدر اچھا آدمی ہے وہ تمام موذنوں کا سردار ہے آپ کے والد رباح اور والدہ حمامہ عرب کے ایک قبیلے کے غلام تھے یہ سرزمین عرب کا وہ تاریک دور تھا جب انسان اخلاقی پستیوں کی گہرائیوں میں گرا ہوا تھا اور اس پر گمراہی مسلط تھی اور اس دور جہالت میں سب مظلوم طبقہ غلاموں کا تھا جسے بنیادی انسانی حقوق ملنا تو بہت دور کی بات سکون سے اپنی زندگی گزارنے کا بھی حق نہ تھا سیدنا حضرت بلال امیہ بن خلف کے غلام تھے وہ اپنے آقا کی بکریاں چرانے پہاڑوں پر جایا کرتے تھے اور ایک دن آپ کا گزر غار حرا کی طرف سے ہوا جہاں رسول کریمؐ اپنے یار غار سیدنا حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ تشریف فرما تھے اللہ کے رسول غیب داں نے اس حبشی جوان کو دیکھا تو اپنے پاس بلا کر فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں تمہاری اسلام کے متعلق کیا رائے ہے؟ سیدنا حضرت بلال حبشی تو رسول کریمؐ کی ذات اقدس سے پہلے ہی متاثر ہو چکے تھے پھر آقائے کونین کا دلکش انداز گفتگو تو حضرت بلال کے منہ سے نکلا کہ میں آپ کے دین کو اچھا پاتا ہوں یہ کہہ کر حضرت بلال تو واپس لوٹ گئے مگر ان کا دل وہیں حضورؐ کی طرف رہ گیا دوسرے روز پھر بکریاںلے کر وہیں پہنچے نبی کریمؐ کی سادہ اور باتیں سنیں تو دل اور بھی بے قرار ہوگیا جو سچائی آپ کے قلب پر اسلام کی صورت میں پہلے ہی ودیعت کر دی تھی وہ دین اسلام کی صورت میں سامنے آگئی اور آپ نے اسلام کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے کلمہ شہادت پڑھا حضورؐ کی غلام کی سند حاصل فرمائی آپ کے مرید ہو کر اسلام کی دولت سے مالا مال ہو گئے اس وقت سیدنا حضرت بلالؓ کی عمر مبارک 28برس تھی آپ ان پہلے سات خوش نصیبوں میں ہیں جن کے لئے اسلام نے اپنے دروازے کھول دئیے یہ اسلام کا اولین دور تھا حضور پاکؐ اللہ کے حکم سے فی الحال رازداری سے اسلام کی تبلیغ فرما رہے تھے لیکن اسلام کا منفرد اور پاکیزہ رنگ زیادہ عرصے تک کفار مکہ سے پوشیدہ نہ رہ سکا انہوں نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ ان کے بعض ساتھیوں خاص طور پر غلام اور خواتین میں ایک تبدیلی آگئی ہے امیہ بن خلف کو جلد یہ خبر مل گئی کہ اس کا غلام بلال نبی کریمؐ کا غلام بن گیا ہے اور اس کا شمار آپ کے ساتھیوں میں ہوتا ہے اس جرم کی پاداش میں امیہ نے سیدنا حضرت بلالؓ حبشی پر ظلم و ستم کے پہاڑ گرانا شروع کر دئیے حرہ کی یہ زمین اپنی گرمی کی وجہ سے مشہور تھی جو دھوپ میں تانبے کی طرح گرم ہو جاتی تھی امیہ حضرت بلال کو تانبے کی زمین پر لٹاتا اور آپ کے سینے پر بھاری پتھر رکھتا آپ کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیتا آپ کے بدن کی چربی پگھل پگھل کر انگارے بجھا دیا کرتی تھی مگر آپ کی زبان مبارک سے احد احد کے سوا کچھ نہ نکلتا تھا امیہ آپ کو کہتا اب بھی تو محمدؐ کے خدا سے باز آ جا لیکن اسلام اور سرکارؐ کی محبت ان کے سینے سے دنیا کی کوئی بھی سخت سے سخت سزا ختم نہیں کر سکتی تھی۔

(جاری ہے)

آپ کے سینے میں عشق رسولؐ کی حقیقی شمع روشن تھی آپ عاشق حبیب خدا تھے دنیا کی ان ماروں سے کہاں دریار کو چھوڑتے حضرت عمرو بن عاصؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال کو اس حالت میں دیکھا کہ امیہ نے ان کو ایسی تپتی ہوئی زمین پر لٹا رکھا تھا کہ جس پر اگر گوشت بھی رکھ دیا جاتا تھا تو وہ بھی جل جاتا لیکن اس حالت میں بھی حضرت بلال اللہ کے سوا کسی بھی دسرے معبود کاانکار کرتے رہے امیہ نے طیش میں آ کر ان کے گلے میں رسی ڈال دی اور انہیں مکے کے شریر لڑکوں کے حوالے کر دیا وہ بدبخت لڑکے آپ کو مکہ کی وادی میں گھسیٹتے پھرتے تھے اور تپتی ہوئی انگارہ ریت پر اوندھے منہ ڈال دیتے تھے اور آپ پر پتھروں کا ڈھیر لگا دیتے تھے لیکن عاشق رسولؐ نے اسلام اور سرکارؐ کا دامن پھر بھی چھوڑنا گوارا نہ کیا آپ پر بیحد ظلم و ستم کا یہ سلسلہ کافی عصرہ جاری رہا یار غار رسول سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ اس عاشق صادق پر اتنا ظلم ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے ایک دن ان سے رہا نہ گیا تو وہ امیہ کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اس بیگناہ اور بے کس غلام پراتنا ظلم و ستم مت کرو اگر وہ ایک خدا کی عبادت کرتا ہے تو اس میں تمہارا کیا نقصان ہے اور اگر تم اس کے ساتھ احسان کرو گے تو وہ و احسان آخرت میں تمہارے کام آئے گا۔
امیہ نے حقارت سے کہا کہ میں تمہارے خیالی یوم آخرت کا قائل ہی نہیں جو میرے جی میں آئے گا میں وہی کروں گا۔سیدنا صدیقؓ اکبر نے اس کو پھر تحمل سے سمجھایاکہ تم طاقت ور ہو اس مجبور غلام پر ظلم کرنا تمہارے شایان شان نہیں ہے تم عربوں کی قومی روایت کودھبہ مت لگائو امیہ نے کہا تم اس کالے غلا م کے اگر اتنے ہی ہمدرد ہو تو اس کو خرید کیوں نہیں لیتے سیدنا صدیق اکبرؓ راضی ہو گئے اور آپ کو آزاد کرا دیا سرکار دو عالمؐ کو سیدنا حضرت بلالؓ کے آزاد ہونے کی جب خبر ملی تو آپ بہت ہی خوش ہوئے اور حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ مجھے بھی اس میں شریک کر لوتو یار غار نے عرض کی یا رسول اللہؐ میں تو بلال کو آزاد کر چکا ہوں سیدنا حضرت بلال حبشیؓ اب آزاد تھے اور اپنا زیادہ وقت اپنے کریم آقاؐ کی بارگاہ اقدس میں گزارتے تھے ان سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے حکمت و دانائی کی باتیں سیکھتے اور دین حق کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی کوشش کرتے جب ہجرت کا حکم آیا تو حضرت بلال حبشیؓ نے بھی ہجرت کی اور مکہ سے مدینہ منورہ جا پہنچے رسول کریمؐ نے مہاجرین و انصار کا مواخات کرایا تو حضرت سیدنا بلالؓ کو حضرت ابو رویحہ کا بھائی بنایا گیا ج ن سے آپ کو بہت محتب تھی پھر جب مدینہ منورہ میں اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈالی گئی تو ایک سال بعد یہ سوال اٹھا کہ لوگوںکو نماز کے لیے بلانے کے لیے کون سا انداز اپنایا جائے۔
لوگوں نے مشورہ دیا کہ ہر نماز کے بعد پرچم بلند کر دیاجائے کچھ نے کہا کہ ناقوس بجایا جائے کچھ لوگوں کی تجویز تھی کہ آگ نماز کے وقت جلائی جائے اور جسے لوگ دیکھ کرنماز کی طرف آ جائیں گے اور کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ ایک آدمی لوگوں کے گھروں میں جا کر ان کو نماز کے لئے بلایا کرے اس طرح لوگ نماز کے لئے آ جائیں گے لیکن اللہ کے رسولؐ نیان سب طریقوںکو پسند نہیں فرمایا ابھی یہ بحث جاری تھی کہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ حضور پاکؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے خواب میںا یک شخص نے اذان کے الفاظ سیکھائے ہیں یہ کہہ کر انہوں نے وہ کلمات دہرائے حضور پاکؐ نے وحی الٰہی کے ذریعے ان کلمات کو پسند فرمایا سیدنا حضرت عمر فاروقؓ اعظم نے بھی اسی قسم کا خواب دیکھا تھا انہوں نے بھی خواب اپنا بیان کر دیا سرکار کونینؐ نیسیدنا حضرت بلالؓ کو حکم فرمایا کہ اذان دو پھر آپ نیان کواذان کے کلمات سکھائے اور ان کی ہدایت فرمائی کہ دونوں کانوںمیںانگلی دے کراذان دو تاکہ تمہاری آواز بلند ہو اور دورتک پہنچے چناں چہ مدینہ کی فضائوںمیں نغمہ توحید بلند ہوا اور سیدنا حضرت بلال حبشیؓ کو دنیائے اسلام کے پہلے موذن رسول ہونے کا عظیم اعزاز ملاجب مسجد نبویؐ کی تعمیر ہوئی تو اس کے ایک سرے پر ایک چبوترا بنا کر اس پر چھت ڈال دی گئی اس جگہ رسول پرنورؐ کے وہ صحابہ کرام رہنے لگے جو ہمہ وقت حضورپاکؐ کی خدمت اقدس میں رہتے تھے اور علم حاصل کرتے ان مقدس اصحاب کواصحاب صفہ کہاجاتا ہے عربی میں صفہ چبوترے کوکہتے ہیں اورسیدنا حضرت بلال حبشیؓ ھی اصحاب صفہ میں سے تھے سرکار دو عالم کے وصال مبارک کے بعد آپ شام کی جنگوں میں شرکت کے لئے چلے گئے۔
بیت المقدس کی فتح میں بھی آپ شریک تھے۔ 16 ہجری میں جب حضرت عمرؓ شام گئے تو حضرت بلالؓ نے جابیہ میں ان کا استقبال کیا قبلہ اول پر توحید کا پرچم لہرانے کی خوشی میں آپ نے وہاںاذان دی بعد میں آپ مدینہ منورہ روانہ ہو گئے تو لوگوں کے اصرار پر شہزادگان رسول ؐ کے حکم پر جب آپ نے مدینہ منورہ میں اذان دی تو عورتیں گھروں سے باہر نکل آئیں ہر طرف کہرام مچ گیا آپمحبت رسولؐ میں بے ہوش ہو کر گرگئے اور بعد میں مدینہ منورہ چھوڑ گئے اور واپس شام چلے گئے۔
20 ہری میں آپ کا وصال ہوا اور آپ کو دمشق میں باب الصغیر کے قریب دفن کیا گیا جب آپ کے وصال ک خبرسیدنا فاروق اعظمؓ کو ملی تو آپ روتے روتے نڈھال ہو گئے آپ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھیکہ آہ! ہمارا سردار بلالؓ بھی ہمیں جدائی کا داغ دے گیا آپ وہ عاشق رسولؐ تھے جب یار کو دیکھا تو سب برداشت کر لیا مگر دامن مصطفیؐ نہ چھوڑا اللہ کریم آپ کے عشق کا ایک ذرہ ہم سب کو بھی عطا فرمائے اورسیدنا حضرت بلال حبشیؓ جیسے عظیم صحابی رسول کے صدقے امت مسلمہ کی بخشش فرمائے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu