Open Menu

Hijrat Ke Waqt Aap Sale Allah Alaihi Wasallam Ka Aik Ahem Faisla - Article No. 2626

Hijrat Ke Waqt Aap Sale Allah Alaihi Wasallam Ka Aik Ahem Faisla

ہجرت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اہم فیصلہ - تحریر نمبر 2626

سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زادراہ کا بندوبست کیا ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دواونٹنیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیں اور عرض کی یا رسول اللہ ان میں سے ایک آپ اپنے لئے پسند فرمائیں ۔

پیر 12 نومبر 2018

محمد عبداللہ مدنی
سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زادراہ کا بندوبست کیا ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دواونٹنیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیں اور عرض کی یا رسول اللہ ان میں سے ایک آپ اپنے لئے پسند فرمائیں ۔چاہئے تو یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ اونٹنی لے لیتے ۔کیونکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام کی بڑی خدمت کی تھی ۔


اس کی ہر خدمت کا صلہ اللہ کے ہاں بڑا عظیم ہے ۔مگر ایسا کرنا عدل کے شہنشاہ کے لئے ممکن نہ تھاعدل کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ جو کام ہورہا ہے وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا کے لئے ہورہا ہے ۔اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں ان میں سے کسی اونٹنی پر اس وقت تک سوار نہیں ہوں گاجب تک کہ میں اس کو خرید نہ لوں ۔

(جاری ہے)


آپ مجھے اس کی قیمت تائیں اور سوداطے کرلیں ۔چنانچہ سوداطے ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الجد عاء نامی اونٹنی اپنے لئے پسند فرمائی ۔ذرا سوچیں ! اللہ کا رسول ہر طرح کی آسائش سے دور ہے ۔غریب الوطنی ہے مگر عدل کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اس آدمی سے بھی اونٹ مول لے کر سوار ہوئے جس کا سلام میں بڑا نام ہے ،بڑا کام ہے ۔یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی سے ممکن نہیں ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں ،پھر ہم نے دونوں کے لیے بہت اچھا سامان تیار کیا،سفر میں کھانے کے لکھانا پکر کا ایک تھیلی میں بند کیا اور اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا دو پٹہ چیر کر اس کا ایک حصہ پانی کے مشیکنرے پر لپیٹا ،اور دوسرا کھانا باندھنے میں استعمال کیا ۔اسی وجہ سے ان کا نام ”ذات النطا قین “پڑگیا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات تک ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر رہے ،پھر رات کی تاریکی میں غارثور میں چلے گئے ،ایک روایت میں ہے کہ وہ دونوں رات کی تاریکی میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کی پچھلی طرف کی کھڑ کی سے نکلے اور غارثور میں جا چھپے وہاں تین رات ٹھہرے ،رات کے وقت عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بڑے ہونہار اور سمجھ دار نوجوان تھے ،آخررات وہاں سے نکل کر منہ اندھیرے مکہ پہنچ جاتے ۔

ایسا معلوم ہوتا جیسے انہوں نے شہر میں ہی رات گزاری ہے۔اہل مکہ ان دونوں کے خلاف جو تدبیریں کرتے ،وہ پوری کارروائی رات کی تاریکی میں ان کو آکر بتادیتے اور ادھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غلام عامر بن فہیر ہ عشاء کے بعد بکریاں چرا کر لاتا ، ان کو ان کا دودھ پلاتا رات ان کے پاس رہ کر صبح سویرے بکریاں چرانے کے لیے لے جاتا ۔
تین رات یہ ایسا ہی کرتا رہا ۔ان کا راہنما عبداللہ بن اریقط لیثی اس طرح ایک دن انتظار کرتے کرتے مایوس ہو کر واپس آگئے ۔
ابھی گھر آکر کچھ دیر آرام بھی نہیں کرنے پائے تھے کہ ایک یہودی جو کسی کام کے لیے اپنے مکان کی چھت پر گیا تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو سفید لباس میں ملبوس آتے دیکھ کر بلند آواز سے پکار اٹھا کہ ”اے مسلمانو ! تم جس خوش قسمت آدمی کی آمد کا انتظار کررہے ہو ،وہ یہ آرہا ہے “بس یہ سننا تھا کہ مسلمان جلدی جلدی ہتھیار پہن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے باہر نکل آئے اور حرہ میدان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو لے کردائی جانب پھر گئے اور قباء بستی میں بنو عمروبن عوف کے ہاں فروکش ہوئے ،یہ بروز پیر ،بارہ ربیع الاول کا واقعہ ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے تھے اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنے والوں کے سلام کا جواب دے رہے تھے ۔انصار کے جن لوگوں نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں دیکھا تھا وہ اُن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر سلام کہتے تھے جب سایہ ہٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دھوپ پڑنے لگی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی چادر کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کیا ۔
اس وقت لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچا نا ۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشی میں مسلمانوں نے اس زور سے نعرہ تکبیر لگا یا کہ بنو عمرو بن عوف کا گاؤں نعرہ تکبیر سے گونج اٹھا جہاں جہاں مسلمان تھے ،یہ آواز سن کر اپنے اپنے گھروں سے نکلے اور آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر تحیتہ نبوت عرض کیا،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے سکون سے تشریف فرماتھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اُتر رحی تھی اور اللہ تعالیٰ ،جبرائیل علیہ السلام ،اہل اسلام اور فرشتوں کی مدد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمروبن عوف کی بستی قباء میں کلثوم بن ہدم کے گھر اُترے اور بعض کہتے ہیں کہ خارجہ بن زید کے مہمان ہوئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ میں ٹھہر گئے تھے اور لوگوں کی امانتیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحویل میں تھیں ،ان کے مالکوں کے حوالے کر کے وہ بھی مدینہ منورہ میں آگئے اور چند دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قباء میں قیام کیا ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں چودہ دن ٹھہرے ۔مسجدقباء کی بنیاد رکھی اور اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا یا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے بعد یہ پہلی مسجد ہے ،جس کی تقویٰ پر بنیاد رکھی گئی۔پھر جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔
صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانگی سے پہلے بنو نجار کو بلا بھیجا وہ گلے میں تلواریں لٹکائے ہوئے حاضر ہوئے ۔
انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ،قباء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کا منظراب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے آگے چل رہے تھے ،ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیچھے آرہے تھے ،اور بنو نجار کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد تھے ۔راستہ میں جب بنو سالم بن عوف کی بستی میں پہنچے ،تو نماز جمعہ کا وقت آگیا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جمعہ وہاں اس جگہ پڑھی ،جہاں وادی کے وسط میں ایک مسجد بنی ہوئی ہے ،جو اب تک مسجد جمعہ کے نام سے مشہور ہے۔
نماز جمعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار ہوئے ،اس کی مہار ڈھیلی چھوڑ دی اور مدینہ کی طرف چل پڑے ،اونٹنی دائیں بائیں دیکھتی ہوئی چلتی رہی ،جب انصارکے کسی محلّہ سے گزرتی تو اہل محلّہ اونٹنی کی مہار پکڑ لیتے ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہاں اُترنے کی درخواست کرتے کہ ”یہاں پنا ہ کی جگہ ہے ،ہتھیار اور سامان حرب موجود ہے ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاطت کرنے کے لیے جانباز حاضر ہیں “مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ،”اس کا راستہ چھوڑ دو ،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے جہاں تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہے ،جائے گی “چنانچہ اونٹنی چلتے چلتے اس جگہ پہنچی جہاں مسجد نبوی تعمیر ہے ،وہاں پہنچ کر بیٹھ گئی،مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی اترے نہیں تھے کہ وہ کھڑی ہو گئی ،پھر تھوڑی دورادھر اُدھر چل کر پہلی جگہ آکر بیٹھ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اتر آئے ۔

یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں خاندان بنو نجار کا محلّہ تھا ،اور اونٹنی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے یہاں پہنچی تھی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماموں خاندان میں اُتر کر ان کی عزت کرنا چاہتے تھے ورنہ دوسرے قبائل بھی اپنے ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اترنے کی پیش کش کرتے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹنی سے اُترنے کے بعد ابوایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلدی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پالان اپنے گھر لے گئے ۔
یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”المرمع رحلہ“یعنی آدمی وہاں اترتا ہے جہاں اس کا پالان ہوتا ہے ۔
اسعد رضی اللہ تعالی عنہ بن زرارہ کو پتہ چلا تو وہ آئے اور اونٹنی کی مہار پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور اس کے
چارہ دانہ کا انتظام اُن کے گھر تھا ۔صحیح بخاری میں انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارے رشتہ داروں میں کس کا گھر قریب ہے ؟ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا گھر قریب ہے ،اور یہ میرا دروازہ ہے “آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جاؤ اور آرام کرنے کے لیے جگہ بناؤ “ابوایوب نے کہا”بسم اللہ ! آئیے ،دونوں صاحب تشریف لائیے“۔

Browse More Islamic Articles In Urdu