Open Menu

Husn Khalq Ki Aik Aala Misaal - Article No. 3350

Husn Khalq Ki Aik Aala Misaal

حسن خلق کی ایک اعلیٰ مثال - تحریر نمبر 3350

ایک بدوی نے مسجد میں گندگی کردی۔لوگ اُسے مارنے کو اٹھے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اسے چھوڑ دو اور اس(گندگی) پر پانی کا ایک ڈول بہادو۔

ہفتہ 28 مارچ 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔فرماتے ہیں کہ ایک بدوی نے مسجد میں گندگی کردی۔لوگ اُسے مارنے کو اٹھے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اسے چھوڑ دو اور اس(گندگی) پر پانی کا ایک ڈول بہادو۔ کیونکہ تم آسانی پیدا کرنے کے لئے بھیجے گئے ہو۔مشکل پیدا کرنے کے لئے نہیں بھیجے گئے ۔
(رواہ البخاری)
محترم سامعین!مسجد نبوی میں آنے والا یہ آدمی جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرمارہے ہیں ،ایک بدوی تھا اور لگتا ہے کہ وہ یہاں پہلی بار پہنچا تھا۔اسلامی تعلیمات سے اُسے واقفیت نہیں تھی ۔وہ مسجد اور غیر مسجد کا فرق نہیں جانتا تھا۔غالباً اُسے معلوم نہ تھا کہ مسجد اللہ کا گھر کہلاتی ہے اور یہ کہ یہ ایک نہایت پاکیزہ مقام کا درجہ رکھتی ہے اور اس میں یوں گندگی پھیلانا گناہ کی بات ہے ۔

(جاری ہے)

جب وہ مجبور ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں گندگی پھیلا بیٹھا۔ایسی اَن ہونی بات دیکھ کر وہاں موجود لوگوں کا جو رد عمل ہوا،وہ ایک قدرتی امر ہے ۔چنانچہ کچھ لوگ جو صحابہ کرام ہی تھے ،اُٹھے تاکہ بدوی کی مناسب سرزنش کریں اور اُسے بتائیں کہ مساجد میں ایسی حرکت نہایت ہی نا مناسب ہے تاکہ وہ اس کی سنگینی کو جانے اور آئندہ ایسی حرکت کا ارتکاب نہ کرے ۔
لوگوں کے ارادہ کو بھانپ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا:”اسے چھوڑ دو“یہاں شارحین حدیث لکھتے ہیں کہ ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ اسے فارغ ہو لینے دو۔ ورنہ معلوم ہے کہ ایسے حالت میں مارکے ڈر سے بھاگنے والا آدمی کہاں کہاں تک ناپاکی پھیلانے کا سبب بنتا اور پھر فرمایا۔جو کچھ اس نے کیا ہے ،اس پر پانی کا ڈول ڈال کر بہادو۔

غور فرمائیے کہ کتنے سنگین معاملہ کو کتنی خوبصورت سے سلجھا دیا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۔درحقیقت آپ نے اپنے اصحاب کو اور اُن کی وساطت سے پوری امت کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ ہر مسئلہ کا علاج ضروری نہیں کہ سختی ہی سے کیا جائے ۔مشکل سے مشکل سیجوئیشن کو بڑی نرمی سے بھی ٹیکل کیا جا سکتاہے ۔گرہ جتنی سخت ہو اتنی ہی نرمی درکار ہوتی ہے ۔
اب مسئلہ تھا اس خرابی کو دور کرنے کا جو اُس بدوی کی وجہ سے مسجد کے اندر پیدا ہو گئی تھی تو صحابہ کرام ہی سے فرمایا کہ اسے پانی سے بہادو ۔اس میں بھی بڑی حکمت کار فرماہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس کی وجہ سے یہ ساری خرابی پیدا ہوئی ہے ،اُسے ہی اس کام پر مامور کیا جائے کہ وہ اس کا ازالہ کرے ۔ظاہر ہے کہ جب اس بدوی کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہی نہیں اور اُسے معلوم ہی نہیں کہ اس نے کوئی بلنڈر کیا ہے تو اُسے کیا معلوم کہ اس کا ازالہ کیسے کیا جائے؟اس لئے صحابہ کرام ہی سے فرمایا کہ اس پر تم خود پانی بہادو۔
اس طریقہ کار سے بین السطور اس بدوی کی تعلیم کا اہتمام بھی ہو گیا۔ آپ کی اس حکیمانہ تعلیم سے نہ صرف یہ کہ بدوی مار سے بچ گیا بلکہ احسن طریق سے اُسے مساجد کے احترام کا سبق بھی مل گیا۔
اس پس منظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرة طیبہ کا ایک اہم پہلو بھی نہایت اُجاگر ہو کر سامنے آتاہے اور وہ ہے آپ کا طبعی حلم اور مزاج مبارک کی نرمی ۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ مبارک وصف آپ کی پوری حیات اقدس پر حاوی ہے ․․․․․قرآن حکیم نے اپنے مخصوص پیرایہ انداز میں اُسے یوں سراہا ہے ۔اللہ کی مہربانی سے آپ کا مزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوا ہے ۔اگر آپ ترش رو اور دل کے سخت ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے ۔(ال عمران:159) انسان تو بہر حال انسان ہے ،آپ تو پرندے کی پریشانی پر بھی پریشان نظر آتے تھے۔

اس حدیث پاک میں سبق ہے ان لوگوں کے لئے جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر چیں بجبیں ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ چھوٹی باتیں لاینحل معموں کا روپ دھار لیتی ہیں ،لڑائی اور مارکٹائی تک نوبت پہنچ جاتی ہے ۔پھر پچھتا وے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔معاملے کو آغاز ہی میں نرمی سے سلجھا دینے کا نام ہی دانشمندی ہے۔
مزید آپ نے فرمایا:تم لوگ آسانی پیدا کرنے کے لئے بھیجے گئے ہو ۔
مشکل پیدا کرنے کے لئے نہیں ۔یہ وضاحت ہے دراصل اُس ارشاد کی کہ جس دین اور جس طرز زندگی کے تم داعی ہو اس کا بنیادی عنصر آسانی ہے ۔ارشاد ربانی ہے:اللہ کے دین میں تمہارے لئے کوئی مشکل پیدا نہیں کی۔(الحج)اس لئے زندگی کے ہر معاملے میں اس اصول کو ہمیشہ پیش نظر رکھو۔آسانی کی جو راہیں اللہ تعالیٰ نے خود تمہارے لئے متعین کردی ہیں،انہیں تلاش کرو۔
نہ خود مشکل پسند بنو اور نہ ہی دوسروں کو مشکل میں ڈالو۔ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا:”یہ دین نہایت ہی آسان دین ہے اور جب کوئی شخص اس کو مشکل بنانے کی کوشش کرے گا،یہ دین اپنی فطری آسانی کی وجہ سے اس پر غالب آجائے گا ۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبلیغ دین کے لئے کوئی مہم روانہ فرماتے تو منجملہ دوسری ہدایات کے ایک یہ بھی ہوتی کہ لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرنا۔
انہیں مشکل میں نہ ڈالنا۔ خوشخبری سنانا انہیں متنفر نہ کرنا۔
محترم سامعین!یہ بظاہر ایک چھوٹا سا واقعہ ہے جو آج سے تقریباً پندرہ صدی پہلے مسجد نبوی میں پیش آیا۔لیکن وسیع ترتنا ظر میں دیکھا جائے تو اس قسم کے بیسوں واقعات آج بھی رونما ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس واقعہ کو رول ماڈل بنا کر ایسی ہی حکمت عملی کو اپنا یا جائے اور وقتی طور پر جو جذبات میں اُبال آجاتاہے ،اگر اس پر قابو پا لیا جائے تو بڑے بڑے مسائل بھی حل کئے جا سکتے ہیں ۔
اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہئے کہ آج موبائل فون کی وجہ سے مساجد کا ماحول بھی متاثر ہوا ہے ۔لکھ کر اور زبان سے بول کر موبائل بند کرنے کی اپیل کی جاتی ہے مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں سے کوئی فون منہ کھول ہی لیتاہے اور حساس لوگ اس کا براہی مناتے ہیں ،تو تکار بھی ہو جاتی ہے ۔حل یہی ہے کہ اول تو موبائل فون مسجد میں نہ لایا جائے۔اگر مسجد میں آگیا ہے تو گھنٹی بند کر دینا چاہئے ۔
اگر غلطی سے بند نہ ہو سکے تو پہلی گھنٹی پر ہی آف کردیا جائے (نماز کے دوران بھی اس کی اجازت ہے )لیکن اگر نہ ہو سکے تو باقی نمازیوں کو صبر سے کام لینا چاہئے۔نرمی سے سمجھانا چاہئے۔یہ علاج قدرے مشکل ضرور ہے مگر اس کے نتائج بہت ہی دلربا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حکمت ،حلم ،مروت اور برداشت کی دولت سے مالا مال فرمائے ۔آمین۔

Browse More Islamic Articles In Urdu