Open Menu

Kia Hijr E Aswad Badla Gaya - Article No. 1082

Kia Hijr E Aswad Badla Gaya

کیا حجر اسود بدلا گیا - تحریر نمبر 1082

تاریخ مشہور ہے کہ ابو طاہر القرمطی ، ذی الحجہ 317ھ میں مکہ پہنچا ۔ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے وہاں بڑے برے کام کیے۔ ابو طاہر نے جعفربن ابی علاج معمار کو حکم دیا کہ حجراسود کواکھاڑ لائے۔

جمعرات 2 فروری 2017

محمد طاہر الکردی :
تاریخ مشہور ہے کہ ابو طاہر القرمطی ، ذی الحجہ 317ھ میں مکہ پہنچا ۔ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے وہاں بڑے برے کام کیے ۔ ابو طاہر نے جعفربن ابی علاج معمار کو حکم دیا کہ حجراسود کواکھاڑ لائے ۔ لہٰذا اس نے 10ذی الحجہ 317 ھ میں حجراسود کو اکھاڑ دیا۔ ابو طاہر اس پتھرکو اپنے شہر ہجر میں لے گیا ۔ حجراسود کی جگہ خالی رہ گئی اور لوگ تبرک کے طور پر اس خالی جگہ پر ہاتھ رکھ دیا کرتے ۔
پھر سبزبن الحسن القرمطی 339ھ میں مکہ شریف حجراسود کولے آیا اور خود اپنے ہاتھوں سے اُسے اس مقام پر رکھ دیا اور کہا ہم اے اللہ کی تقدیر کی وجہ سے لے گئے اور اسی کی مشیت کی وجہ سے لوٹا لائے ۔ یہ واقعہ 10ذی الحجہ 339ھ کا ہے ۔
بعض بے عقل یہ خیال کرتے ہیں کہ قرامطہ نے حجرا سود کو بدل دیا۔

(جاری ہے)

ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ اس کے دوسبب ہیں ایک تاریخی اور دوسرے مذہبی ۔


تاریخی دلیل یہ ہے کہ تقی فاسی نے شفا ء الغرم میں اس قصہ کے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ” جب اس نے کعبہ میں حجرا سود کو لگادیا تو لوگوں نے اسے پہچانا، بوسہ دیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ یہ مسجی کے کلام کا خلاصہ ہے ۔
مصنف کا یہ قول کہ لوگوں نے اسے پہچانا اور چوما اس امر کی صریح دلیل ہے کہ اُن کے نزدیک اس میں کسی قسم کا بغیر واقع نہیں ہوا تھا۔
حجراسود قرامطہ کے پاس چار دن کم بائیس سال رہا۔ اس مدت میں کوئی سارے اہل مکہ تو مرنہیں گئے ہوں گے کہ کوئی بھی اس کا پہچاننے والا باقی نہ ہوتا، علاوہ بریں حجرا سود کے خاص امتیازی نشانات ہیں جن سے سب لوگ ناواقف ہیں۔
الاشاعة فی اشراط الساعہ میں لکھا ہے کہ ” محمد بن نافع الخزاعی نے کہا کہ میں نے حجرا سود کو اس حالت میں دیکھا جبکہ وہ اکھاڑا گیا تھا تو دیکھا کہ صرف اس کااوپر کا سراسیاہ ہے ، باقی تمام حصہ سپید ہے ۔
اس کی لمبائی ہاتھ بھر تھی ۔ محمد بن نافع نے اسے قرمطی کے اکھاڑنے کے بعد دیکھا تھا۔ اسی کتاب کے صفحہ چھبیس پر جو اور لوگوں کے بیانات ہیں وہ اس کے بیان کے بالکل مطابق ہیں جنہوں نے اسے لگاجانے کے بعد دیکھا ۔
مذہبی دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اے لوگو حجراسود کو کثرت سے بوسہ دیا کرو کیونکہ عنقریب تم اُسے گم کر دو گے ۔
ایک رات لوگ طواف کرتے ہوں گے اور اُسے دیکھتے ہوں گے مگر جب صبح ہوگی تو وہ غائب ہوچکا ہوگا کیونکہ قیامت سے قبل اللہ تعالیٰ جنت کی ہر چیز کو زمین سے اُٹھا لے گا۔ مجاہد سے روایت ہے آپ نے فرمایا ” اس وقت تم لوگوں کاکیاحال ہوگا جب قرآن اٹھالیا جائے گااور تمہارے سینوں اور دلوں سے مٹادیا جائے گا اور رکن کو بھی اٹھا لیاجائے گا۔ عبداللہ بن عمروبن العاص سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کو لوگوں کے سینوں سے اٹھالیں گے اور حجرا سود کو بھی قیامت سے قبل اٹھا لیں گے ۔
یوسف بن ماھک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” رکن اہل قبلہ کی عید ہے جیسے مائد بنواسرائیل کی عید تھا، جب تک یہ تم میں رہے گا تم بھلائی پر گامزن رہو گے۔ اس پتھر کو جبریل نے خود رکھا تھااور وہی اسے اٹھالیں گے ۔
رسول اللہ ﷺ کی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حجرا سود قیامت تک اپنی جگہ پر باقی رہے گاا ور قیامت کے قریب اُسے ملائکہ اٹھا کر لے جائیں گے ۔
وہ چوری یا سینہ زوری کے ذریعہ غائب نہیں ہوگا ۔
یہ وہ باپ ہے جس پر تمام مسلمانوں کاایمان ہے لہٰذا بے دین زندیقوں کی باتیں قابل اعتبار نہیں ہوسکتیں۔
استاذیوسف احمد منقش آثار عربیہ نے اپنی کتاب المحمل والحج میں صفحہ 103 پر لکھا ہے ” پتا نہیں آیا یہ پتھر اہل عرب تک ٹوٹے ہوئے تاروں کے ذریعہ پہنچایا۔ یا کسی اور طریق سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ میں اُسے پروردگار کی تعمیل حکم کی یادگار میں یہاں رکھ دیا تھا۔
اس پتھر کا رنگ سیاہ ہے ۔
یہاں تک استاذ یوسف کے کلام کا خلاصہ ہے ، وہ میرے استاذ ہیں اور میں ان کا بے حداحترام کرتا ہوں مگر مجھے ان کے اس بیان پر افسوس ہے کہ انہوں اس سلسلہ میں احادیث اور مورخین کے اقوال پر اعتبار نہیں کیااور حجراَ سود کو اس نظر سے دیکھا جس طرح وہ آثار قدیمہ کے کسی اثر کودیکھتے ہیں۔ ہزاروں قدیم پتھر ان کی نگاہوں سے گذرے ہوں گے مگر چونکہ انہوں نے اس پتھر کو ارضی پتھروں کے مشابہ نہ پایا تو اسے شہاب ثاقب کا ٹکڑا قراردے دیا۔

حدیث میںآ تا ہے کہ ” جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی دیواروں کو حجراَسود کے مقام تک بلند کردیا تو حضرت جبریل علیہ السلام امین نے اپنے ہاتھوں سے یہ پتھر اس جگہ پر نصب کیا۔ یہ پتھر بالکل سپید اور بیحد روشن تھا کہ تمام حرم میں روشنی ہوجاتی تھی مگر اہل زمین کے گناہوں کی وجہ سے اس کا نور زائل ہوتا چلاگیا۔ بیت اللہ میں کئی بارآگ لگنے سے بھی وہ سیاہ پڑگیا جیسا کہ ہم پیچھے بیان کرچکے ہیں ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حجراَسود کوئی شہاب ثاقب کا ٹکڑا نہیں ہے وہ تو جنت کا ایک یاقوت ہے ۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حکم الٰہی سے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اسی طرح خدا کے حکم سے حجرا سود کو اس مقام پر رکھا گیا۔ استاذ یوسف احمد نے جو کچھ بیان کیا وہ بے حقیقت ہے ۔
عکرمہ سے روایت ہے کہ ” حجراسود، یمین اللہ ہے ، جس نے رسول اللہ ﷺ کا زمانہ نہیں پایا اور حجرا سوس کو چھولیا اس نے گویا اللہ اور رسول ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔

حضرت ابن عباس نے فرمایا ” رکن یمین اللہ ہے جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہو اسی طرح گویا اللہ سے مصافحہ کرتے ہو ۔
حجرا سود کی فضیلت اور اس کے چومنے کے بارے میں اس قدر احادیث وار دہوئی ہیں کہ اگر ہم سب کا بیان کریں تو بات طویل ہوجائے ۔ لہٰذا اس طول بیانی کی ضرورت نہیں ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu