Open Menu

Maah E Rajab K Maqasid - Article No. 3325

Maah E Rajab K Maqasid

”ماہ رجب کے مقاصد اور ہماری ذمےداریاں“ - تحریر نمبر 3325

راشدہ سعدیہ جمعہ 28 فروری 2020

اسلامی کلینڈر کے حساب سے تو کئی مہینے مبارک ہیں۔جن میں رمضان المبارک،شوال،محرم وغیرہ شامل ہیں مگر چار مہینے حرمت والے کہلائے جاتے ہیں۔ جن کا احترام زمانہ جاہلیت میں بھی کیا جاتا تھا۔ جس میں ایک "رجب المرجب" بھی ہے۔ ماہ رجب کو رمضان کی تمھید بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی "رمضان المبارک" میں ادا کی جانے والی عبادت اگر کسی عذر یا غفلت سے چھوٹ گئی تھی اور اب تک ادا نہیں کی گئی تو اب ادا کرلی جاۓ جیسے کہ روزے اگر سفر ، بیماری یا غفلت کی وجہ سے چھوٹ گئے تھے تو اب رکھ لیے جائیں۔
اگر کسی کے ذمہ زکوة تھی۔ جس کی ادائیگی اس نے "رمضان المبارک میں کرنی تھی مگر نہ کرسکا۔ تو وہ سب ادا کرلے۔ تاکہ "رمضان المبارک" کے آنے سے پہلے پہلے پچھلے واجبات کی ادائیگی ہوجائے۔

(جاری ہے)

اور آنے والے "رمضان المبارک" کے لیے تیار ہو جائے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب "نبی کریمﷺ" رجب کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرماتے "اَللّٰھُمَّ بَارِک لَنَا فِی رَجَب و شَعْبَان وَ بلغنا رَمَضَان"
ترجمہ: ”اے اللہ ہمارے لئے رجب و شعبان کے مہینے میں برکت دیں۔

اور ہمیں رمضان تک پہنچائیں“۔ یعنی کہ ہماری زندگی اتنی کر دیجئے کہ ہم رجب شعبان کی برکتیں سمیٹ کر رمضان تک پہنچ جائیں اور رمضان المبارک کی برکتیں حاصل کرسکیں۔
اس دعا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں رمضان المبارک کی اہمیت نظر آتی ہے۔ اور خود اس دعا سے ماہ رجب کی فضیلت بھی معلوم ہوتی ہے۔
ماہ رجب کے حوالے سے ایک بات مشہور ہے کہ اس ماہ میں 27 رجب کو معراج کا واقعہ پیش آیا تھا۔
اگرچہ تاریخی اعتبار سے یہ بات پوری طرح واضح اور ثابت نہیں ہے۔ یعنی صحیح احادیث میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ کیونکہ اس واقعے کی تاریخ، سن حتی کہ مہینے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔
لیکن واقعہ معراج کے ثبوت میں کسی کا اختلاف نہیں۔ خواہ یہ واقعہ کسی بھی سن یا تاریخ اور دن، مہینے میں پیش آیاہو۔
مگر معراج کا یہ واقعہ انسانیت کی تاریخ کا ایک عظیم الشان واقعہ تھا۔
تاریخ میں اب تک جس کی کوئی نظیر نہیں ملی۔
آپ صلی اللہ وعلی وسلم سے پہلے ایک لاکھ تیئیس ہزار نو سو نناوے انبیاء کرام آئے۔ مگر کسی کے دور نبوت اور رسالت میں ایسا واقعہ نہیں ملتا۔ اور نہ ہی قیامت تک ایسی فضیلت کسی کو ملے گی۔
بہر حال! مختصرا عرض ہے کہ اس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر تھے کہ اللہ پاک نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔
آپ آرام فرما رہے تھے۔اللہ پاک نے حضرت جبریل علیہ السلام کو نام لے کر جگانے سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ پاؤں کے تلوؤں پر بوسہ دیا جائے۔ چناچہ حضرت جبریل نے حکم کی تکمیل کی۔ اس بات کو شاعر یوں بیان کرتے ہیں :
"نہ جنت نہ کی گلیوں میں دیکھا مزہ جو محمد کے تلوؤں میں دیکھا"۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوتے ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ پاک کا پیغام پہنچاتے ہیں کہ اللہ پاک نے آپ کو اپنے پاس آسمانوں پر بلایا ہے۔

چناچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ(مقام حطیم)سے براق کی سواری پر ”بیت المقدس“ تشریف لے جاتے ہیں۔ اور وہاں اللہ پاک نے پہلے سے ہی سارے انبیاء کرام علیہ السلام کی روحوں کو نماز باجماعت کے لیے جمع فرمایا تھا جن کی امامت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔
اور پھر بیت المقدس سے ساتوں آسمانوں کی سیر کرتے ہوئے ”سدرۃ المنتہیٰ“ تک جبرائیل کی معیت میں پہنچے۔

سدرة المنتہی کے مقام پر حضرت جبرائیل علیہ السلام خود آگے بڑھنے سے رک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگے جانے کا کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے رک جانے کی وجہ دریافت کی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا۔ ”مجھے آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔“
یہاں آپ کو یہ بھی بتاتی چلوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے وہ شان عطا کی) کہ تمام نبیوں تک اللہ پاک اپنے احکامات حضرت جبریل علیہ السّلام کے ذریعے پہنچاتے رہے۔
سوائے دو نبیوں کے جن سے اللہ پاک خود ہمکلام ہوئے۔ ان میں سےایک حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ جن سے اللہ پاک کوئی طور پر ہمکلام ہوئے۔ اور یہ بھی دنیا کا ہی حصہ ہے۔
جبکہ دوسرے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ جن سے اللہ پاک اپنے عرش پر ہمکلام ہوئے۔انہیں ایسے مقام تک رسائی عطا کی کہ جہاں پر کسی بندہ بشر کی پہنچ ممکن نہیں بلکہ اس مقام پر تو فرشتوں کے پر جل جاتے ہیں۔


اس مقام پر اللہ پاک کی اپنے محبوب لاڈلے سے کیا باتیں ہوئیں۔کیا رازونیاز ہوۓ یہ تو وہی جانتے ہیں۔ مگر جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوٹنے لگے تو امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے بھی معراج تک کی رسائی کے لیے ایک نایاب اور انمول تحفہ ساتھ لائے۔ وہ تحفہ ” پانچ وقت نماز“ کا ہے کہ جس کی بدولت اس امت کا ہر فرد معراج کے مقام تک روحانی طور پر پہنچ سکتا ہے۔
کیونکہ احادیث میں آتا ہے کہ
"الصلوۃ المعراج المومنین"
”نماز مومنین کی معراج ہے“
یعنی بندہ جس وقت سر سجدے میں ٹیکتا ہے۔ وہ سب سے زیادہ اللہ کے قریب ہوتا ہے۔اور معراج میں بھی اللہ تعالی کا ”قرب“ قریب سے حاصل ہوا تھا۔ اسی وجہ سے اللہ تعالی نے عام مومنین کو یہ سعادت حاصل کرنے کے لیے نماز جیسی عبادت عطا کی۔

قرآن میں اللہ پاک فرماتے ہیں "والسجد واقترب"
ترجمہ: سجدہ کرو اور میرے قریب ہو جاؤ( میرے پاس آؤ).
حدیث مبارکہ میں آتا ہے "اقرب ما یقوم العبد فی السجود" ”سب سے زیادہ قرب اللہ کا سجدے میں حاصل ہوتا ہے۔“ یعنی کہ اگر تم میرا قرب پانا چاہتے ہو۔ میرے پاس آنا چاہتے ہو، تو سجدے میں آؤ۔ مجھ سے باتیں کرو۔ راز و نیاز کرو۔
کیونکہ سجدے جسقدر طویل اور زیادہ ہوں گے اتنا زیادہ باری تعالی کا قرب حاصل ہوگا۔
اگرسجدے کی حلاوت، اس کی لذت کسی بندے کو حاصل ہوجائے تو دنیا سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ خواجہ مجذوب رحمتہ اللہ علیہ اسی لذت کو شعر میں اس طرح ذکر فرماتے ہیں۔ ع
”میں سجدے میں سر رکھ دوں
زمین کو آسمان کردوں“

واقعہ معراج میں ایک قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی تصدیق کرتا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاء کرام علیہ السلام مسجد اقصی میں اکٹھے ہوئے۔ نماز باجماعت ہوئی۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امام بنے باقی تمام انبیاءکرام مقتدی بنے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔
تو معلوم ہوا کہ جن ایک لاکھ چوبیس ہزار مبارک شخصیات کو نبوت و رسالت کو چناگیا تھا انہیں وہاں جمع فرما کر اس بات کا عملی ثبوت دیا کہ نبوت و رسالت کے لیے ایک شرط مسجد اقصی میں حضور نبی کریم ﷺ‎ کی اقتداء ميں نماز باجماعت تھی۔
اب جتنے بھی جھوٹے مدعیان نبوت ہیں۔ چاہے اسود عنسی، مسیلمہ کذاب ،طلیحہ اسدی یا پھر مرزا غلام قادیانی ہو۔ سب کے سب جھوٹے اور فریبی ہیں۔

الغرض۔ سورۃ الاسراء میں جہاں واقعہ معراج کا ذکر ہے وہاں کئی مزید احکامات بھی ہیں۔
*والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید ہے۔
*امانتوں میں خیانت نہ کرنے کا حکم ہے۔ یہ بھی کہا گیا جب تم وعدہ کرو تو وفاداری سے نبھاو۔
یعنی حقوق العباد اور حقوق اللہ کی صورت میں مکمل عبدیت مطلوب ہے۔
اسی طرح ہمارے معاشرے میں کچھ کام رائج ہیں۔ جس کا ثبوت قرآن و حدیث سے نہیں ملتا۔ یعنی ستائیس رجب کو روزہ رکھنا، اس رات میں نوافل پڑھنا، یا اس دن کھانا تقسیم کرنا،اور چراغاں کرنا ، پٹاخے پھاڑنا یہ سب ناجائز ہیں۔
فی نفسہ قبروں کی زیارت کے لئے جانا(مردں کا) کھانا کھلانا،روزہ رکھنا، نوافل پڑھنا یا صدقہ دینا باعث ثواب اور جائز ہے۔

مگر صرف اس دن یا صرف اس رات یہ تمام کام سنت سمجھ کر کرنا ،بدعت ہے۔
امت مسلمہ کی یہ ذمے داری ہےکہ ایسے تمام کاموں سے اجتناب کریں ،جن کے ثبوت حضور کریم صلی اللہ علہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی سیرت سے نہیں ملتے۔اللہ پاک ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سچا امتی بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

Browse More Islamic Articles In Urdu