Open Menu

Sahaba Karaam Ka Zouq Namaz - Article No. 2447

Sahaba Karaam Ka Zouq Namaz

صحابہ کرام کا ذوق نماز - تحریر نمبر 2447

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذوق عبادت کا اثر صحابہ کرام کی طبیعتوں پر بھی ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ طبع رفیق القلب تھے۔ نماز میں کھڑے ہوکر قرآن پڑھتے۔آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب رواں ہو جاتا،

بدھ 3 اکتوبر 2018

رضاءالدین

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذوق عبادت کا اثر صحابہ کرام کی طبیعتوں پر بھی ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ طبع رفیق القلب تھے۔ نماز میں کھڑے ہوکر قرآن پڑھتے۔آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب رواں ہو جاتا، لہجے میں وہ گداز تھا کہ اردگرد کا سارا ماحول ایک روحانی کیفیت میں ڈوب جاتا۔ کبھی مسجد حرام میں نماز ادا کرتے تو آپ کے اردگرد قرآن سننے والوں کو ہجوم ہوجاتا۔

جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہو جاتے۔ اس پر کفار نے رکاوٹ ڈالنی شروع کی تو گھر کے ایک گوشے میں نماز ادا کرنے لگے لیکن اسے سننے کے لئے پھر لوگ گھر کے باہر جمع ہوجاتے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا ایسے عالم میں بھی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔

(جاری ہے)

حضرت مسور بن مخرومہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دوسرے دن صبح کے وقت ان کے گھر گیا ان پر زخموں کی شدت کی وجہ سے غشی طاری تھی اور ان کے اوپر ایک کپڑا پڑا ہوا تھا۔


میں نے پوچھا آپ لوگوں کی ان کے بارے میں کیا رائے ہے؟ لوگوں نے کہا جیسے آپ مناسب سمجھیں، میں نے کہا آپ لوگ انہیں نماز کا نام لے کر پکاریں،کیونکہ نماز ہی ایسی چیز ہے، جس کی وجہ سے یہ سب سے زیادہ گھبرائیں گے۔ چنانچہ لوگوں نے کہا امیر المومنین نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ اس پر آپ نے فوراً آنکھیں کھول دیں، اور فرمایا۔ اللہ کی قسم جو آدمی نماز چھوڑ دے اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز ادا فرمائی اور حالت یہ تھی کہ ان کے زخم سے مسلسل خون بہہ رہا تھا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نماز اور تلاوت کے ذوق سے معمور تھے۔ نماز میں کثرت گریہ سے ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہو جاتی۔ ساری رات نماز پڑھتے اور ایک رکعت میں قرآن ختم کر لیتے۔
عطا بن ابی ریاح کہتے ہیں حضرت عثمان نے ایک مرتبہ حرم میں نماز پڑھائی پھر مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑے ہوئے اور وتر کی ایک رکعت میں سارا قرآن ختم کر دیا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا چہرہ اذان سنتے ہی متعیر ہو جاتا، ارشاد فرماتے اس امانت کو ادا کرنے کا وقت آ گیا ہے، جسے اٹھانے سے زمین و آسمان عاجز آگئے۔ نماز میں ایسی محویت ہوتی کہ جسم میں ترازو ہونے والا تیر کھینچ لیاگیا اور آپ کو مطلق خبر نہ ہوسکی ۔
’’امام مظلوم حسین بن علی کربلا کے میدان میں رونق افروز ہوتے ہیں۔
عزیزوں اور دوستوں کی لاشیں میدان جنگ میں نظر کے سامنے پڑی ہوتی ہیں، ہزاروں اشقیاء آپ کو نرغہ میں لئے ہوئے ہیں۔‘‘ اتنے میں نماز کا وقت آجاتا ہے۔ ایسے عالم میں بھی آپ نماز کو نہیں بھولتے۔
حضرت ابو عثمان نہدی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں سات راتوں تک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا مہمان رہا۔میں نے دیکھا کہ آپ، آپ کی اہلیہ اور آپ کا خادم تینوں باری باری اٹھ کر عبادت کیا کرتے تھے، اور اس کے لیے انہوں نے رات کے تین حصے کیے ہوئے تھے۔
(ابو نعیم)
٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک رات میں نماز عشاء کے بعد قدرے تاخیر سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ آپ نے مجھ سے استفسار فرمایا۔کہاں تھیں؟ میںنے عرض کیا:آپ کے ایک صحابی مسجد میں (ادائیگی نفل کرتے ہوئے) قرآن پڑھ رہے تھے۔ میں اسے سن رہی تھی۔ میں نے اس جیسی آواز اور اس جیسا حسن قرأت آپ کے کسی اور صحابی سے نہیں سنا، آپ نے بھی کچھ دیر ان کی تلاوت سماعت فرمائی اور میری جانب متوجہ ہوکر فرمایا۔
یہ ابوحذیفہ کے غلام سالم ہیں۔
٭تمام تعریفیں اس پاک پروردگار کے لئے ہیں، جس نے میری امت میں ایسے افراد پیدا کئے۔ (حاکم)
٭حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نماز سے بڑی محبت تھی، وہ زیادہ نفلی روزے نہیں رکھتے تھے۔ عام طور پر مہینے میں تین نفلی روزے رکھتے۔ فرماتے، جب روزہ رکھتا ہوں تو کمزوری محسوس ہوتی ہے اس وجہ سے نماز میں کمی ہوجاتی ہے۔
اور مجھے نماز سے زیادہ محبت ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن یزید ؒ کہتے ہیںکہ میں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کم روزے رکھنے والا کوئی فقیہ نہیں دیکھا، ان سے وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا مجھے نماز سے زیادہ رغبت ہے۔
٭حضرت عبداللہ بن مسعود السابقون الاولون میں سے ہیں مکہ میں غربت کی وجہ سے اجرت پر بکریاں چراتے تھے۔ صحت کے اعتبار سے نحیف ونزار تھے۔
مشرکین مکہ کی زیادتیوں کا خاص نشانہ بھی بنتے۔

اس کے باوجود بڑی تندہی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے۔ جہاد میں سرگرم حصہ لیتے۔ نوافل میں مشغولیت کے علاوہ تحصیل علم اور درس وتدریس سے خصوصی شغف تھا۔ سنت رسول کے ابلاغ میں آپ نے خاص کردار ادا کیا اور بے شمار تلامذہ نے آپ سے اکتسابِ فیض کیا۔ انہیں وجوہات کی بنا پر زیادہ روزہ کی مشقت نہیں اٹھا پاتے تھے۔

لیکن عبدالرحمن بن یزید ؒ کی روایت سے یہ اندازا بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں لوگ فقہا و علماء سے کیسی توقعات رکھتے تھے۔
٭حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ساری ساری رات عبادت میں گزار دیتے۔ دن کو روزہ رکھتے اپنا زیادہ وقت مسجد میں گزارتے اس شغف کی وجہ سے ان کا نام ہی ’’حمامۃ المسجد‘‘ (مسجد کا کبوتر) پڑگیا۔ نماز کے لیے یوں ایستادہ ہوجاتے گویا کہ کوئی ستون ہیں۔ قیام کرتے تو کئی کئی سو سورتیں تلاوت کر ڈالتے۔ برستے تیروں کی بوچھاڑ میں بھی بڑے سکون سے نماز پڑھتے۔
٭حضرت انس قیام سجدہ میں اتنی دیر لگاتے کہ لوگ سمجھتے کہ یہ کچھ بھو ل گئے ہیں۔ (بخاری)

Browse More Islamic Articles In Urdu