Open Menu

Saneha Bair Ke Mujrimon Ke Liye Bad Dua - Article No. 2960

Saneha Bair Ke Mujrimon Ke Liye Bad Dua

سانحہ بئر معونہ کے مجرموں کیلئے بد دُعا - تحریر نمبر 2960

سانحہ نئر معونہ کے بارے میں بکثرت روایات موجود ہیں ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو براء عامر بن مالک جو نیزہ باز کے لقب سے معروف تھا(عامر بن طفیل کا چچا)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوا

منگل 29 جنوری 2019

محمد عبداللہ مدنی
سانحہ نئر معونہ کے بارے میں بکثرت روایات موجود ہیں ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو براء عامر بن مالک جو نیزہ باز کے لقب سے معروف تھا(عامر بن طفیل کا چچا)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوا ،آپ نے اسے اسلام کی دعوت دی اس نے اسلام قبول نہیں کیا،اور نہ اسے بعید قرار دیا،بلکہ اس نے کہا:
یا رسول اللہ اگر آپ اپنے صحابہ کو نجد والوں کی طرف بھیجیں آپ کے دین کی طرف دعوت دینے کے لئے تو مجھے امید ہے کہ وہ لوگ آپ کی دعوت قبول کر لیں گے ۔


آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے اپنے صحابہ کے بارے میں اہل نجد سے خطرہ ہے ۔اس پر ابو براء نے کہا:میں ان کی حفاظت کروں گا آپ ان کو وہاں بھیجیں وہ لوگوں کو آپ کے دین کی طرف دعوت دیں گے ۔

(جاری ہے)


چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ چالیس صحابہ کرام کو روانہ فرمادیا ،صحیح بخاری اور ابن اسحاق کی روایت کے مطابق ستر افرادکو بھیجا ،منذربن عمر و انصاری خزرحی کو ان کا امیر بنا دیا،ان کا لقب (المعنق لیموت )ہے یہ صحابہ کرام نہایت بلند پایہ کے اصحاب علم وفضل تھے ۔


یہ قافلہ اپنے قائد حضرت منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ کی قیادت میں روانہ ہوا ،جب مکہ اور عسفان کے درمیان قبیلہ ہذیل کے علاقوں میں پہنچا تو وہاں ایک پانی والے مقام پر پڑاؤ ڈالا جس کا نام (بئر معونہ )
تھا یہاں سے انہوں نے ایک صحابہ حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ (حضرت انس بن مالک کے ماموں اور ان کی والدہ ام سلیم بنت ملحان انصاری کے بھائی )کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک دے کر دشمن خدا ،فاسق وفاجروغدار عامر بن طفیل کے پاس بھیجا ،اس بد بخت کمینہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ مبارک کی طرف نہیں دیکھا ،بلکہ رسول اللہ خدا کے قاصد اور اس کے لئے پیغام اسلام لانے والے پر دھو کہ بازی ومکاری سے حملہ کرکے قتل کر دیا۔

ایک روایت میں ہے کہ اس نے اپنے ایک آدمی کو اشارہ کیا ،جس نے سنگین لے کر پشت سے حملہ کر دیا جو آر پار ہو گیا ،اس وقت حضرت حرام بن ملحان نے اللہ اکبر کہہ کر فرمایا:رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔
پھر دشمن خدا اور دشمن رسول عامر بن طفیل نے اپنی قوم بنو عامر کو آواز دی کہ چلو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے لوگوں پر حملہ کرتے ہیں انہوں نے اس کی بات نہیں مانی ،بلکہ اسے سخت جواب دیا کہ ہم ابو براء کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیے گئے عہد وپیمان اور ضمانت کی خلاف ورزی نہیں کریں گے ۔

جب یہ ملعون اپنی برادری سے مایوس ہوا تو قبیلہ بنی سلیم کی شاخ رعل ،ذکو ان اور عصیہ کے پاس آیا ،ان سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آدمیوں کی طرف نکلو ،انہوں نے اس کی شقیانہ دعوت پر لبیک کہا ،وہاں پہنچ کر انہوں نے نہایت مکاری ،غداری ،خیانت اور فسق وفجور کے ساتھ ان کا محاصرہ کیا ،تلواریں نکا ل کر حملہ کر دیا اور تمام صحابہ کرام کو شہید کر دیا،سوائے ایک صحابہ کے جن کا نام کعب بن زید نجاری بدری تھا وہ شدید زخمی ہوئے ،کفار نے مردہ سمجھ کر مقتولین میں ان کو چھوڑ دیا ،زندگی کی رمق باقی تھی ،اس کے بعد ایک عرصہ تک زندہ رہے پھر غزوہ خندق میں شہید ہوئے ،ایک دوسرے صحابہ عمروبن امیہ ضمر ی کسی کام سے منذربن محمد بن عقبہ کے ساتھ گئے ہوئے تھے ،جب واپس لوٹے تو دیکھا کہ وہاں مردار خور پرندے اڑ رہے ہیں ،انہوں نے کہا:خدا کی قسم ان پر ندوں کے اڑنے کی کوئی وجہ ہے ۔

یہ دونوں اس مقام پر پہنچے تو دیکھا کہ صحابہ کرام خون میں لت پت ہیں ،اور کفار کا لشکر جس نے ان کو شہید کیا تھا وہاں پر موجود ہے ،ان دونوں صحابہ کرام نے ایک دوسرے سے اپنے موقف کے سلسلہ میں مشورہ کیا،حضرت عمروبن امیہ ضمری کی رائے یہ تھی کہ دونوں وہاں سے چلے جائیں اور مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع کر دیں ،لیکن حضرت منذر رضی اللہ عنہ نے اسے نہیں مانا ،انہوں نے کہا:
مجھے اپنی جان بچا کر اس جگہ سے جانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے جس میں امیر قافلہ منذر بن عمروشہید ہو گیا ہو ،پھر مشرکین کے ساتھ لڑائی شروع کر دی ،یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہو گئے ،ان کی روح خوش ومسرور ہو کر اپنے پروردگار کے یہاں پر واز کر گئی تا کہ اس جنت میں داخل ہوجائے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے ساتھ کیا ہے ،
جبکہ عمرو بن امیہ کو گرفتار کر لیا گیا ،عامر بن طفیل نے کہا کہ تم اپنا نسب بیان کر وا نہوں نے بتایا کہ میرا تعلق قبیلہ مضر سے ہے ،عامر نے ان کو قتل نہیں کیا بلکہ ان کے پیشانی کے بال کاٹ دیے اور یہ کہہ کر ان کو آزاد کر دیا کہ میری والدہ کے ذمہ ایک غلام آزاد کرنا تھا۔

حضرت عمروبن امیہ ضمری اس اندوہ ناک سانحہ کی خبر لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ،جس میں عامر بن طفیل نے خیانت ،غداری ،عیاری اور مکاری سے ستر صحابہ کرام کو شہید کر دیا تھا۔
جب حضرت عمر ورضی اللہ عنہ مدینہ کی طرف واپس ہورہے تھے تو راستہ میں ایک چشمہ جس کا نام (قرقرة الکدر )تھا کے پاس ایک درخت کے سایہ تلے کچھ دیر آرام کے لئے بیٹھ گئے ،اتنی دیر میں قبیلہ بنی عامر (عامر بن طفیل کا قبیلہ) کے دو آدمیوں نے بھی وہاں پڑاؤ ڈالا ،اور پھر سو گئے ،حضرت عمروبن امیہ ضمری نے ان دونوں کو قتل کردیا ،ان کا گمان یہ تھا کہ اس طرح میں نے اپنے ساتھیوں کا تھوڑا بہت بدلہ لے لیا ہے جب کہ ان دونوں کا انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عہد وپیمان تھا ،لیکن حضرت عمر و رضی اللہ عنہ کو اس کا احساس نہیں ہوا ،جب حضرت عمرو رضی اللہ عنہ مدینہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈرتے اور خوفزدہ ہوتے ہوئے اس واقعہ کی اطلاع بھی دی۔

انہوں نے کہا:یا رسول اللہ ! میں نے مدینہ واپس آتے ہوئے موقعہ پا کر ان دو عامریوں کو اس نیت سے قتل کر دیا ہے کہ شاید اس سے ان مظلوم صحابہ کرام کے قتل کا کچھ نہ کچھ انتقام ہو ہی جائے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم نے دو آدمیوں کو قتل کردیا ہے میں تمہارے طرف سے ان کی دیت اداکروں گا۔
اس سانحہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت افسردہ ہوئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی بڑی تعداد میں قاری صحابہ کے قتل پربڑا غم ہوا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم افسوس کیا کرتے تھے اور کہتے تھے ”یہ ابو براء کا کام ہے مجھے اسی کا خدشہ تھا اور نہیں چا ہتا تھا کہ ان صحابہ کو بھیجوں “۔

ابو براء نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول سنا تو غم کے مارے اس کی جان نکل گئی وہ مر گیا،اسے اپنے بھتیجے کے فعل پر بڑا دکھ ہوا تھا،عامر بن طفیل نے اپنے چچا کے عہد وپیمان کو قابل اعتنا ء نہیں سمجھا تھا ،اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیے گئے وعدے اور ضمانت کا پاس نہیں کیا تھا ،جس کی وجہ سے دیگر قبائل میں ان کا وقار مجروح ہوا تھا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس سانحہ کا بڑا اثر ہوا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت نازلہ پڑھ کر ان فاجر وفاسق وخائن کفار کے حق میں بددعا کی۔
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رحمتہ اللہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے ایک مہینہ تک فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھ کر قبیلہ رعل ،ذکوان ،عصیہ اور لحیان کے لئے بددعا کی ۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس دنوں تک فجر کی نماز میں رعل ،ذکوان ،بنی لحیان اور عصیہ کے لئے بد دعا کی۔

Browse More Islamic Articles In Urdu