Open Menu

Trke Mein Poton Ke Hissay Ki Sharai Hesiyat - Article No. 2511

Trke Mein Poton Ke Hissay Ki Sharai Hesiyat

ترکے میں پوتوں کے حصے کی شرعی حیثیت - تحریر نمبر 2511

کسی شخص کے انتقال کے بعد اُس کے جوور ثاء حیات ہیں ،ترکہ اُن کے درمیان قرآن کریم میں بیان کیے ہوئے اَحکامِ وراثت کے مطابق تقسیم ہوتا ہے ۔اگر کسی شخص کے صاحبِ اولاد بیٹے کا اس کی زندگی میں انتقال ہو چکا ہے

جمعہ 19 اکتوبر 2018

مفتی منیب الرحمن
بیٹے کے انتقال کے بعد اس کے بچوں کا دادا کے ترکے میں کتنا حصہ ہے ،جب کہ وہ بیٹا والد کی حیات میں وفات پا چکا ہو ؟
جواب :۔ کسی شخص کے انتقال کے بعد اُس کے جوور ثاء حیات ہیں ،ترکہ اُن کے درمیان قرآن کریم میں بیان کیے ہوئے اَحکامِ وراثت کے مطابق تقسیم ہوتا ہے ۔اگر کسی شخص کے صاحبِ اولاد بیٹے کا اس کی زندگی میں انتقال ہو چکا ہے اور اس کی دیگر اولاد (بیٹے بیٹیاں)موجود ہیں ،تو اس شخص کی وفات کے بعد اس فوت شدہ بیٹے کی اولا (پوتے پوتیوں )کو اس کے ترکے سے کچھ نہیں ملے گا،کیوں کہ تقسیمِ وراثت کا ایک مسلّمہ اصول ہے :”قریب کا وارث دور کے وارث کو محروم کر دیتا ہے “،اسے ”اصولِ حَجب “بھی کہتے ہیں

تنویر الا بصار مع الدر المختار میں ہے :ترجمہ :”ہر وہ شخص جسے میت سے کسی شخص کے ذریعے سے تعلق ہو،وہ اس درمیانی شخص کی موجودگی میں وراثت سے محروم رہے گا،جیسا کہ پوتا،بیٹے کی موجودگی میں وارث نہیں بنے گا“۔

(جاری ہے)

(جلد 10ء ص435:،بیروت)تا ہم اگر ورثاء حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی اولاد کو بطور استحسان کچھ دے دیں،تو اجر پائیں گے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :ترجمہ :”اور جب (ترکے کی )تقسیم کے موقع پر قرابت دار،یتیم اور مسکین آجائیں (جو شرعاً وارث نہیں بن سکتے )،تو انہیں بھی(رضا کا رانہ طور پر )تر کے میں سے کچھ دے دو اور ان سے اچھی بات کہو “۔
(سورة النساء8:)قرآن کایہ حکم ایجابی نہیں ہے ،استحبابی ہے،اس کی حیثیت مقاصد خیر کے لئے سفارش اور مشاورت کی ہے ،لہٰذا جتنا حصہ فوت شدہ بیٹے کے حیات ہونے کی صورت میں اُسے مل سکتا تھا،اگر تمام ورثاء اتفاق رائے سے اتنا یا اس سے کچھ کم تُّبر ع اور استحسان کے طور پر تقسیم ترکہ کے موقع پر ان بچوں کو بطور ہبہ دے دیں تو یہ ایک مستحسن امرہو گا ،صلہ رحمی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث ہو گا،اور اس کا اجر انہیں ملے گا۔

قرآن مجید حکیمانہ انداز میں ارشاد فرماتا ہے :ترجمہ:”اور لوگ (یہ سوچ کر )ڈریں کہ اگر وہ (اپنے پیچھے)کمزور (بے سہارا)اولاد چھوڑ جاتے ہیں ،تو انہیں ان کے (رُلنے اور خوار ہونے کا )اندیشہ لاحق ہوگا،سو اُنہیں چاہئے کہ اللہ سے ڈرتے رہیں اور درست بات کہیں “۔(سورة النساء 9:)پس قرآن نے بتایا کہ لوگ اپنے پسماندگان پر کسی ایسے مشکل مرحلے کا تصور کرکے غیر وارث نادار اور کمزور رشتے داروں پر ترس کھا کرتقسیم وراثت کے وقت ان کی مدد کر لیا کریں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu