Open Menu

Waldain Se Jhagre Ki Sorat Main Olaad Kis K Pass Rahe Gi - Article No. 3100

Waldain Se Jhagre Ki Sorat Main Olaad Kis K Pass Rahe Gi

والدین سے جھگڑے کی صورت میں اولاد کس کے پاس رہے گی - تحریر نمبر 3100

مذکورہ بالاصورت کی تقسیم کے لیے درج ذیل احادیث صحیحہ وحسنہ پر غور کیا جائے۔

بدھ 8 مئی 2019

مُبشّر احمد رَبّاَنی
مذکورہ بالاصورت کی تقسیم کے لیے درج ذیل احادیث صحیحہ وحسنہ پر غور کیا جائے۔
(1)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ سے جب صلح کا معاہدہ کیا اور اس کے نتیجے میں آئندہ سال عمرہ کے لیے تشریف لے گئے اور تین دن کی مدت پوری ہوگئی۔تو مکہ والے علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا:
”اپنے ساتھی سے کہو اب یہاں سے چلے جائیں کیونکہ مدت پوری ہو چکی ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکلے تو حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی چچا چچا کہتے ہوئے آئی علی رضی اللہ عنہ نے اسے لے لیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آئے اور کہا اپنے چچا کی بیٹی کو لے لو میں اسے اٹھالایا ہوں۔
اس بچی کے بارے علی ‘زیداور جعفررضی اللہ عنہ کا اختلاف ہوا علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے اسے پکڑا ہے یہ میرے چچا کی بیٹی ہے ۔

(جاری ہے)

اور جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہیں ۔اور زید رضی اللہ عنہ نے کہا یہ میرے بھائی کی لڑکی ہے ۔لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خالہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا:خالہ ماں کے درجہ میں ہوتی ہے اور علی رضی اللہ عنہ سے کہا تم مجھ سے اور میں تم سے ہوں۔


جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:تم شکل وصورت اور عادات واخلاق میں مجھ سے مشابہہ ہو۔اور زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا:تم ہمارے بھائی اور مولی ہو۔علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو اپنے نکاح میں لے لیں لیکن آپ نے فرمایا:کہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔
(2)عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
بلاشبہ ایک عورت نے کہا اے اللہ کے رسول یہ میرا بیٹا ہے میرا پیٹ اس کے لیے تھیلا تھا اور میرے دونوں پستان اس کے مشکیزہ تھے اور میری گود اس کو سمیٹے رہی اور اب اس کے والد نے مجھے طلاق دے دی ہے اور مجھ سے وہ اسے چھینا چاہتا ہے ۔

اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تو اس کی زیادہ حق دار ہے جب تک تو نکاح نہ کرے۔
(3)ابومیمونہ کہتے ہیں میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ان کے پاس ایک فارسی عورت آئی اس کے ساتھ اس کا بیٹھا تھادونوں (میاں بیوی )نے اس کا دعویٰ کیا اور شوہر بیوی کو طلاق دے چکا تھا۔اس عورت نے کہا:اے ابوہریرہ ۔عورت نے ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ سے فارسی میں گفتگوکی۔
میرا شوہر میرا بیٹا لے جانا چاہتا ہے ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس سے فارسی میں بات کرتے ہوئے کہا تم دونوں اس پر قرعہ اندازی کر لو اس عورت کا شوہر آیا تو اس نے کہا:میرے بیٹے کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑا کر سکتا ہے ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا اے میرے اللہ میں یہ فیصلہ اس لیے دے رہا ہوں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے آپ کے پاس ایک عورت آئی اس نے کہا میرا شوہر مجھ سے میرا بیٹا چھیننا چاہتا ہے۔
حالانکہ وہ مجھے ابوعتبہ کے کنویں سے پانی پلاتا ہے اور اس نے مجھے نفع پہنچایا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم دونوں اس پر قرعہ اندازی کرو۔تو اس کے شوہر نے کہا میرے بچے کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑا کر تا ہے ؟تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ تیراباپ ہے اور یہ تیری ماں ہے ۔“
ان دونوں میں سے جس کا چاہو ہاتھ پکڑ لو تو اس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا وہ اسے لے کر چلے گئی۔

(4)رافع بن سنان سے مروی ہے کہ :
”رافع اسلام لے آئے اور ان کی بیوی نے اسلام لانے سے انکار کر دیا۔وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگی ۔میری بیٹی دودھ چھوڑ نے والی ہے ۔یا اس کی مثل ہے اور رافع کہنے لگے میری بیٹی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رافع سے کہا ایک جانب بیٹھ جاؤ اور اس خاتون سے کہا تم بھی ایک جانب بیٹھ جاؤ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچی کو دونوں کے درمیان بٹھا دیا پھر فرمایا:تم دونوں اسے بلاؤ بچی جب ماں کی طرف مائل ہونے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی :اے میرے میرے اللہ اس بچی کو ہدایت دے تو وہ اپنے باپ کی طرف مائل ہو گئی تو رافع رضی اللہ عنہ نے اس بچی کو لے لیا۔

ان احادیث صحیحہ وحسنہ سے معلوم ہو تا ہے کہ جب خاوند اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی پڑجائے تو بچے اگر چھوٹی عمر کے ہوں تو ماں ان کی زیادہ حقدار ہے جب تک وہ نکاح نہیں کرتی۔اگر بچوں کی ماں موجود نہ ہوتو خالہ کوماں کے قائم مقام قرار دیا گیا ہے اور اگر بچے سن شعور کو پہنچ جائیں تو انہیں والدین کے درمیان اختیار دیا جائے گا وہ جس کے پاس جانا چاہیں جا سکتے ہیں۔

البتہ والدین میں سے کسی ایک کوبھی اولاد کے ساتھ ملاقات سے روکا نہیں جائے گا۔کیونکہ صلہ رحمی واجب ہے ۔حضانت وپرورش میں بچے کی نگہداشت مقصود ہوتی ہے جس سے اس کی جسمانی وروحانی تربیت ہو اور جس کے ذریعے یہ اغراض ومقاصد حاصل نہ ہو سکتے ہوں تو اس کا حق حضانت ختم ہو جائے گا۔
جیسا کہ ماں اگر دوسری جگہ شادی کرلے تو اس کا حق حضانت ختم ہو جائے گا جیسا کہ آپ نے فرمایا
جب تک تو نکاح نہ کرلے اس کی زیادہ حق دار ہے ۔
کیونکہ جب دوسرے شخص سے نکاح ہو جاتا ہے تو وہ صحیح طور پر پہلے خاوند کی اولاد کی نگہداشت نہیں کر سکتی۔بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اسی طرح عورت اگر مجنون ہو یا جذام وکوڑھ وغیرہ جیسے امراض میں مبتلا ہو۔یا کافر ہو جس سے بچے کے دین وعقائد خراب ہونے کا خطرہ ہوتو اس صورت میں بھی عورت کا حق حضانت ختم ہو جائے گا۔ملاحظہ ہو ”اسلامی طرز زندگی“ص663اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کے حصول کے لیے ان کے درمیان قرعہ اندازی بھی کر سکتے ہیں جیسا کہ اوپر حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ میں بالتصریح موجود ہے ۔
اسی طرح ایک صحیح مرسل روایت میں خلیفہ الرسول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا بھی فیصلہ موجود ہے ۔قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کا اپنی اھلیہ ام عاصم بنت عاصم انصاریہ سے بیٹے کے بارے جھگڑا ہو گیا عمر رضی اللہ عنہ نے ام عاصم سے جدائی اختیار کی ۔
تو عمررضی اللہ عنہ قباء تشریف لائے تو اپنے بیٹے عاصم کو مسجدکے صحن میں کھیلتے ہوئے پایا۔
تو اس کے بازو سے پکڑا اور سواری پر اپنے آگے بیٹھالیا تو بچے کی نانی نے انہیں آلیا اور ان سے جھگڑنا شروع کر دیا یہاں تک کہ یہ فیصلہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میرا بیٹا ہے اور عورت نے کہا میرا بیٹا ہے تو ابو بکر نے فرمایا:
”اس عورت کی ہوا‘بستر اور گود آپ کی نسبت بچے کے لیے زیادہ بہتر ہے یہاں تک کہ وہ بڑا ہو جائے اور اپنے نفس کا مختار بن جائے۔

اور ایک روایت میں ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
”ماں زیادہ مشفق ‘لطیف‘رحم کرنے والی‘مائل ہونے والی اور نرم ہے یہ اپنے بچے کی زیادہ حق دار ہے جب تک شادی نہ کرلے۔“
امام ابن عبدالبرفرماتے ہیں :یہ خبر کئی اسانید منقطعہ ومتصلہ سے مشہور ہے اسے اہل علم کے ہاں قبولیت عامہ حاصل ہے ۔(زادالمعاد436/5)
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے دورخلافت میں اس پر فتویٰ دیتے اور فیصلہ فرماتے رہے ہیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مخالفت اس بات میں نہیں کی کہ جب تک بچہ چھوٹا ہو اور سن تمیز تک نہ پہنچا ہوتووہ ماں کے پاس رہے گا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے بھی ان دونوں کا کوئی مخالف نہیں ہے ۔
(زادالمعاد 436/5)
(آپ کے مسائل اور اُن کا حل کتاب نمبر 3)
(مُبشّر احمد رَبّاَنی)

Browse More Islamic Articles In Urdu