Open Menu

Al Raheeq Almakhtoom .... Quraish Ki Parliament, Dar Al Nadwa MeiN - Article No. 1663

Al Raheeq Almakhtoom .... Quraish Ki Parliament, Dar Al Nadwa MeiN

الرحیق المختوم ۔۔۔۔ قریش کی پارلیمنٹ، دارالندوہ میں - تحریر نمبر 1663

مکے کی پارلیمنٹ میں سب سے خطرناک اجتماع میں (نعوذ باللہ) نبی کریم کے قتل کا فیصلہ کیا گیا

maulana safiur rahman mubarakpuri مولانا صفی الرحمان مبارک پوری ہفتہ 24 فروری 2018

جب مشرکین نے دیکھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تیار ہو ہو کر نکل گئے اور بال بچوں اور مال و دولت کو لاد پھاند کر اوس و خزرج کے علاقے میں جا پہنچے تو ان میں بڑا کہرام مچا۔ غم و الم کے لاوے پھوٹ پڑے اور انہیں ایسا رنج و قلق ہوا کہ اس سے کبھی سابقہ نہ پڑا تھا۔ اب ان کے سامنے ایسا عظیم اور حقیقی خطرہ مجسم ہو چکا تھا جو ان کی بت پرستانہ اور اقتصادی اجتماعیت کے لیے چیلنج تھا۔


مشرکین کو معلوم تھا کہ محمدﷺ کے اندر کمال قیادت و رہنمائی کے ساتھ ساتھ کس قدر انتہائی درجہ قوت تاثیر موجود ہے اور آپﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہ میں کیسی عزیمت و استقامت اور کیسا جذبہ فدا کاری پایا جاتا ہے۔ پھر اوس و خزرج کے قبائل میں کس قدر قوت و قدرت اور جنگی صلاحیت ہے۔اور ان دونوں قبائل کے عقلأ میں صلح و صفائی کے کیسے جذبات ہیں اور وہ کئی برس تک خانہ جنگی کی تلخیاں چکھنے کے بعد اب باہمی رنج و عداوت کو ختم کرنے پر کس قدر آمادہ ہیں۔

(جاری ہے)


انہیں ا س کا بھی احساس تھا کہ یمن سے شام تک بحر احمر کے ساحل سے ان کی جو تجارتی شاہراہ گزرتی ہے اس شاہراہ کے اعتبار سے مدینہ فوجی اہمیت کے کس قدر حساس اور نازک مقام پر واقع ہے درآں حالیکہ ملک شام سے صرف مکہ والوں کی سالانہ تجارت ڈھائی لاکھ دینار سونے کے تناسب سے ہوا کرتی تھی، اہل طائف وغیرہ کی تجارت اس کے علاوہ تھی۔ اور معلوم ہے کہ اس تجارت کا سارا دارومدار اس پر تھا کہ یہ راستہ پرامن رہے۔

ان تفصیلات سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ یثرب میں اسلامی دعوت کے جڑ پکڑنے اور اہل مکہ کے خلاف اہل یثرب کے صف آرا ہونے کی صورت میں مکے والوں کے لیے کتنے خطرات تھے۔ چونکہ مشرکین کو اس گمبھیر خطرے کا پورا پورا احساس تھا جو ان کے وجود کے لیے چیلنج بن رہا تھا اس لیے انہوں نے اس خطرے کا کامیاب ترین علاج سوچنا شروع کیا اور معلوم ہے کہ اس خطرے کی اصل بنیاد دعوت اسلام کے علمبردار حضرت محمدﷺ ہی تھے۔

مشرکین نے اس مقصد کے لیے بیعت عقبہ کبریٰ کے تقریباً ڈھائی مہینہ بعد 26 صفر 14 نبوت مطابق 12 ستمبر 622 یوم جمعرات کو دن کے پہلے(پہلے پہر اس اجتماع کے منعقد ہونے کی دلیل ابن اسحاق کی وہ روایت ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی ﷺ کی خدمت میں اس اجتماع کی خبر لے کر آئے اور آپ ﷺ کی ہجرت کی اجازت دی اس کے ساتھ صحیح بخاری میں مرو ی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو ملا لیجیے کہ نبی ﷺ ٹھیک دوپہر کے وقت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا مجھے روانگی کی اجازت دے دی گئی ہے روایت یہ تفصیل آگے آرہی ہے) مکے کی پارلیمنٹ دارالندوہ میں تاریخ کا سب سے خطرناک اجتماع منعقد کیا اور اس میں قریش کے تمام قبائل کے نمائندوں نے شرکت کی۔
موضوع بحث ایک ایسے قطعی پلان کی تیاری تھی جس کے مطابق اسلامی دعوت کے علمبردار کا قصہ بہ عجلت تمام پاک کر دیا جائے اور اس دعوت کی روشنی کلی طور پر مٹا دی جائے۔
اس خطرناک اجتماع میں قبائل قریش کے نمایاں چہرے یہ تھے:
1۔ ابو جہل بن ہشام ۔۔۔قبیلہ بنی مخزوم سے۔
2۔ جبیر بن مطعم، طعیمہ بن عدی اور حارث بن عامر۔۔ بنی نوفل بن عبدمناف سے۔

3۔ شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ابوسفیان بن حرب ۔۔بنی عبد شمس بن عبد مناف سے۔
4۔ نضر بن حارث۔۔ بنی عبدالدار سے۔
5۔ ابو البختری بن ہشام، زمعہ بن اسود اور حکیم بن حزام۔ بنی اسد بن عبدالعزیٰ سے۔
6۔ نبیہ بن حجاج اور منبہ بن حجاج۔ بنی سہم سے
7۔ امیہ بن خلف۔ بنی جمح سے
وقت مقررہ پر یہ نمائندگان دارالندوہ پہنچے تو ابلیس بھی ایک شیخ جلیل کی صورت عبا اوڑھے راستہ روکے دروازے پر آن کھڑا ہوا۔
لوگوں نے کہا یہ کون سے شیخ ہیں؟ ابلیس نے کہا یہ اہل نجد کا ایک شیخ ہے، آپ لوگوں کا پروگرام سن کر حاضر ہو گیا ہے۔ باتیں سننا چاہتا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ آپ لوگوں کو خیر خواہانہ مشورے سے بھی محروم نہ رکھے۔ لوگوں نے کہا بہتر، آپ بھی آ جائیے چنانچہ ابلیس بھی ان کے ساتھ اندر گیا۔
پارلیمانی بحث اور نبیﷺ کے قتل کی ظالمانہ قرارداد پر اتفاق
اجتماع مکمل ہو گیا تو تجاویز اور حل پیش کئے جانے شروع ہوئے اور دیر تک بحث جاری رہی۔
پہلے ابو الاسود نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم اس شخص کو اپنے درمیان سے نکال دیں اور اپنے شہر سے جلاوطن کر دیں، پھر ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ وہ کہاں جاتا اور کہاں رہتا ہے، بس ہمارا معاملہ ٹھیک ہو جائے گا اور ہمارے درمیان پہلے جیسی یگانگت ہو جائے گی۔
مگر شیخ نجدی نے کہا: نہیں، خدا کی قسم یہ مناسب رائے نہیں ہے، تم دیکھتے نہیں کہ اس شخص کی بات کتنی عمدہ اور بول کتنے میٹھے ہیں اور جو کچھ لاتا ہے اس کے ذریعے کس طرح لوگوں کا دل جیت لیتا ہے، خدا کی قسم اگر تم نے ایسا کیا تو کچھ اطمینان نہیں کہ وہ عرب کے کسی قبیلے میں نازل ہوا اور انہیں اپنا پیرو بنا لینے کے بعد تم پر یورش کر دے اور تمہیں تمہارے شہر کے اندر روند کر تم سے جیسا سلوک چاہے کرے، اس کے بجائے کوئی اور تجویز سوچو۔

ابو البختری نے کہا: اسے لوہے کی بیڑیوں میں جکڑ کر قید کر دو اور باہر سے دروازہ بند کر دو، پھر اسی انجام (موت) کا انتظار کرو جو اس سے پہلے دوسرے شاعروں مثلاً زہیر اور نابغہ وغیرہ کا ہو چکا ہے۔ شیخ نجدی نے کہا: نہیں، خدا کی قسم یہ بھی مناسب رائے نہیں ہے، واللہ اگر تم لوگوں نے اسے قید کر دیا جیسا کہ تم کہہ رہے ہو تو اس کی خبر بند دروازے سے باہر نکل کر اس کے ساتھیوں تک ضرور پہنچ جائے گی، پھر کچھ بعید نہیں کہ وہ لوگ تم پر دھاوا بول کر اس شخص کو تمہارے قبضے سے نکال لے جائیں، پھر اس کی مدد سے اپنی تعداد بڑھا کر تمہیں مغلوب کر لیں۔
لہٰذا یہ بھی مناسب رائے نہیں، کوئی اور تجویز سوچو! یہ دونوں تجاویز پارلیمنٹ رد کر چکی تو ایک تیسری مجرمانہ تجویز پیش کی گئی جس سے تمام ممبران نے اتفاق کیا۔ اسے پیش کرنے والا مکے کا سب سے بڑا مجرم ابو جہل تھا۔ اس نے کہا: اس شخص کے بارے میں میری ایک رائے ہے، میں دیکھتا ہوں کہ اب تک تم لوگ اس پر نہیں پہنچے۔ لوگوں نے کہا: ابوالحکم وہ کیا ہے؟ ابوجہل نے کہا میری رائے یہ ہے کہ ہم ہر قبیلے سے ایک مضبوط صاحب نسب اور بانکا جوان منتخب کر لیں، پھر ہر ایک کو ایک تیز تلوار دیں، اس کے بعد سب کے سب اس شخص کا رخ کریں اور اس طرح یکبارگی تلوار مار کر قتل کر دیں جیسے ایک ہی آدمی نے تلوار ماری ہو۔
یوں ہمیں اس شخص سے راحت مل جائے گی اور اس طرح قتل کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس شخص کا خون سارے قبائل میں بکھر جائے گا اور بنو عبد مناف سارے قبیلوں سے جنگ نہ کر سکیں گے لہٰذا دیت (خون بہا) لینے پر راضی ہو جائیں گے اور ہم دیت ادا کر دیں گے۔
شیخ نجدی نے کہا: بات یہ رہی، جو اس جوان نے کہی، اگر کوئی تجویز اور رائے ہو سکتی ہے تو یہی ہے، باقی سب ہیچ۔ اس کے بعد پارلیمان مکہ نے اس مجرمانہ قرارداد پر اتفاق کر لیا اور ممبران اس عزم مصمم کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس گئے کہ اس قرارداد پر عمل فی الفور کرنا ہے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu