Open Menu

Namaz Bajamat Ki Takeed - Article No. 3370

Namaz Bajamat Ki Takeed

نماز باجماعت کی تاکید - تحریر نمبر 3370

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کسی بستی اور جنگل میں تین آدمی ہوں اور ان میں نماز باجماعت کا اہتمام نہ کیا جاتا ہوتو شیطان اُن پر مسلط ہو جاتاہے ۔اس لئے جماعت کو لازم پکڑو بھیڑیا اُس بکری یا بھیڑ کو کھا جاتاہے جو ریوڑ سے الگ ہو گئی ہو۔

ہفتہ 11 اپریل 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کسی بستی اور جنگل میں تین آدمی ہوں اور ان میں نماز باجماعت کا اہتمام نہ کیا جاتا ہوتو شیطان اُن پر مسلط ہو جاتاہے ۔اس لئے جماعت کو لازم پکڑو بھیڑیا اُس بکری یا بھیڑ کو کھا جاتاہے جو ریوڑ سے الگ ہو گئی ہو۔
(رواہ ابو داؤد)
محترم سامعین!آج کی زیر مطالعہ حدیث مبارک کو امام ابو داؤد رحمة اللہ علیہ نے اپنی سنن میں نقل کیا ہے جس کو جلیل القدر صحابی حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے ۔تین اہم ترین باتیں اس حدیث مبارک میں ذکر کی گئی ہیں۔ (1) کسی بستی یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور وہ نماز باجماعت کا اہتمام نہ کریں تو شیطان اُن پر مسلط ہو جاتاہے۔

(جاری ہے)

(2)جماعت کو لازم پکڑو اور (3)بھیڑیا اُس بکری یا بھیڑ کو کھا جاتاہے جو ریوڑ سے الگ ہو گئی ہو۔
نماز پنجگانہ کو جو اہمیت دین اسلام کی عبادات میں حاصل ہے ،ہم سب اُس سے واقف ہیں ۔انسانی جسم میں جو حیثیت سر کی ہے وہی حیثیت نماز کو عبادات میں حاصل ہے ۔خدا نخواستہ سرکٹ جائے تو انسان نہیں ۔نماز دین کی زندگی سے چلی جائے تو دین نہیں ۔نماز کی حفاظت کرنے والا اللہ کی حفاظت اور اس کے ذمہ میں ہے اور جو نماز کی حفاظت نہیں کرتا اُس کے لئے اللہ کا کوئی ذمہ نہیں ۔
پنجگانہ نماز کی حفاظت سے انسان اس طرح گناہوں سے پاک ہو جاتاہے جس طرح دن میں پانچ بار غسل کرنے سے بدن پر میل کچیل ختم ہو جاتاہے۔ نماز سے انسان کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے موسم خزاں میں سوکھے درخت کے پتے ۔موٴمن اور کافر میں فرق کرنے والی چیز نماز ہے۔ جس نے جان بوجھ کر نماز کو چھوڑ دیا اُس نے کفر جیسا کام کیا ۔قرآن حکیم کی سورة الروم میں ہے کہ نماز قائم کرو اور مشر کین میں سے مت بنو۔
نماز کی اسی اہمیت کے پیش نظر دین اسلام نے اس کو ایک مکمل ادارے کی حیثیت دے دی ہے ۔
نماز کے مکمل فیوض وبرکات کے حصول کے لئے اس کو با جماعت اور حتی الوسع مسجد میں ادا کرنے پر زور دیا ہے ۔بفرض محال کہیں مسجد موجود نہ ہوتو بھی نماز کو باجماعت ادا کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے ۔اکثر علماء کرام نے نماز با جماعت ادا کرنے کو واجب قرار دیا ہے ۔
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ آج کی حدیث بھی اس کی تائید کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔ارشاد گرامی یہ ہے کہ اگر تین آدمی کسی بستی یا جنگل میں ہوں تو ان پر ضروری ہے کہ وہ انفرادی نماز کی بجائے با جماعت نماز ادا کریں ۔یہ عذر نہیں چلے گا کہ مسجد تو ہے نہیں ،لہٰذا باجماعت ادائیگی ضروری نہیں رہی ۔باجماعت نماز پڑھنے کے لئے مسجد کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔
اگر سہل پسندی اور سستی اور غفلت کی وجہ سے اپنی اپنی نماز علیحدہ علیحدہ پڑھ لی گئی تو تنبیہ یہ فرمائی گئی ہے کہ ان پر شیطان مسلط ہو جائے گا۔ نماز باجماعت سے اجتماعیت پیدا ہوتی ہے اور اجتماعیت سے طاقت اور قوت کا ظہور ہوتاہے ۔ایک ایک کے دل میں وسوسہ اندازی کرنا شیطان کے لئے آسان عمل ہو گا۔جماعت کی سستی کو زینہ بنا کر وہ سرے سے نمازوں کے وزن اور اس کی دینی حیثیت کو کم کردے گا۔

جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ نماز کی ادائیگی بوجھ بننا شروع ہو جائے گی اور ہوتے ہوتے نماز کا عمل زندگی سے خارج ہو جائے گا ۔نماز جو خشیت الٰہی کی ایک علامت ہے اگر یہی نہ رہی تو شیطان پوری قوت سے اسے دبوچ لے گا ۔اور جو کوئی رحمان کے ذکر سے رو گردانی کرتاہے ،ہم (اس کی اس بد عملی کی وجہ سے) اس پر شیطان مسلط کر دیتے ہیں جو اُس کے ساتھ چپکا رہتاہے ۔
یہی بات آج کی حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے کہ ۔لہٰذا اگر شیطانی تسلط سے بچنا ہے تو نماز باجماعت کا اہتمام ازحد ضروری ہے ۔اسی لئے اس کے متصل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ۔ یعنی جماعت کو لازم پکڑو۔طاقت یعنی روحانی طاقت سے اپنا رشتہ ناطہ مت توڑو،مسجد میں جاکر نماز با جماعت ادا کرو اور اس مرکز اجتماعیت سے جڑے رہو۔
اس طرح شیطان کے حملوں سے بچے رہو گے یہ ایک نبوی نسخہ ہے جس کی صداقت ،سچائی اور تاثیر ہر شک وشبہ سے بالاترہے ۔
نماز اور نماز باجماعت کی پابندی کی وجہ سے امت محمدیہ کا اوّلین کامیاب طبقہ اس نسخہ کی تاثیر پر شاہدعدل ہے ۔ستائیس درجہ انفرادی نماز سے بڑھ کر اجروثواب کے ساتھ ساتھ دنیوی اقتدار کی مسندوں پر بھی متمکن ہوئے اور چار دانگ عالم میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیئے۔
یہ محض خوش فہمی نہیں بلکہ ناقابل تردید تاریخی شہادت ہے ۔اب ہم حدیث مبارک کے تیسرے اور آخری جزو کی طرف بڑھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔یعنی بھیڑیا اُس بکری یا بھیڑ کو کھا جاتاہے جو ریوڑ سے الگ ہو جاتی ہے ۔جماعت یا مرکز کو چھوڑ کر الگ ہو جانے کا یہ نقصان ہے کہ انفرادیت کے نشے میں جان ہی سے ہاتھ دھونا پڑتاہے ۔
بھیڑیا اور اس قسم کا دوسرا درندہ ریوڑ کی طرف بہت کم رخ کرتاہے ۔وہ اسی انتظار میں رہتاہے کہ کوئی جانور اپنے ریوڑ کو چھوڑ کر الگ ہو جائے اور وہ اس پر اپنا پنجہ گاڈ دے ۔انسانوں کا بھیڑیا شیطان ہے جو ہر وقت اسی تاک میں رہتا ہے اور تفرقہ کرنے والے کو آسانی سے اپنا شکار بنا لیتاہے ۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہوتاہے :اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔
قاور تفرقہ مت ڈالو۔ ان لوگوں کی طرح مت بنو جنہوں نے واضح دلائل آجانے کے بعد تفرقہ ڈالا اور اختلاف میں پڑ گئے ۔جن لوگوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور خود بھی فرقوں میں بٹ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے کسی بھی چیز میں کوئی تعلق نہیں ۔تفرقہ ڈالنے والے لوگ اللہ رب العزت کی نصرت وتائید سے محروم ہو جاتے ہیں ۔بے ملاح کشتی کی طرح زندگی کے دریا میں بے سمت ہچکو لے کھاتے رہتے ہیں ۔
ساحل ان کے مقدرمیں نہیں ہوتا۔ہر دم ہواؤں کے تھپیڑوں کی زد میں رہتے ہیں ۔یعنی جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہوتاہے ،نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ۔بھلا سوچئے کہ دست قدرت کے سایہ عاطفت سے محروم ہوجانے والا کہیں جائے امن پا سکتاہے؟ جو اب نفی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتا۔بچاؤ کی صورت صرف ایک ہی ہے کہ ہم باجماعت رہ کر اجتماعیت کے مرکزی نقطہ سے اپنے آپ کو منسلک کرلیں اور تادم واپسیں اسی پر قائم رہیں۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

Browse More Islamic Articles In Urdu