Open Menu

Nazam Ba Jamat Ki Fazilat - Article No. 3329

Nazam Ba Jamat Ki Fazilat

نماز با جماعت کی فضیلت - تحریر نمبر 3329

فرض نماز کو با جماعت ادا کرنا اکیلے آدمی کی نماز سے ستائیس درجے بڑھ کر ہے ۔

منگل 3 مارچ 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔(فرض) نماز جماعت کے ساتھ اکیلے آدمی کی نماز سے ستائیس درجہ بڑھ کر ہے۔(رواہ البخاری )
سامعین محترم !اس ارشاد گرامی کو جہاں امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ،وہیں صحاح ستہ کی ہر کتاب میں الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ وارد ہوئی ہے اور اپنے معانی اور مفہوم کے اعتبار سے نہایت واضح ہے کہ فرض نماز کو با جماعت ادا کرنا اکیلے آدمی کی نماز سے ستائیس درجے بڑھ کر ہے ۔
قرآن حکیم اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ رکھنے والے مسلمانوں سے یہ بات اوجھل نہیں کہ نماز جو دین اسلام کا اہم ترین ستون ہے ،اُسے صرف پڑھنے کا حکم نہیں بلکہ جہاں بھی اس کا تذکرہ ہو الفظ اقامت کے ساتھ ہی ہوا ہے ۔

(جاری ہے)

یعنی نماز کو قائم کرنا ہے ۔حکم بھی اقامت کے ساتھ ہے اور جزا بھی اس کے ساتھ ہے ۔اقیمو ا الصلوٰة کا حکم تقریباً ہر مسلمان کو معلوم ہے ۔

اور سورة البقرہ کے آغاز ہی میں اہل تقویٰ کی صفات کے ضمن میں بھی ویقیمون الصلوة کی خبر دی گئی ہے یعنی صاحبان تقویٰ کی ایک اہم ترین صفت یہ بھی ہے کہ وہ نماز کو قائم کرتے ہیں ۔قائم کرو یا قائم کرتے ہیں ۔یہ دونوں جملے اپنے اندر بہت ہی وسیع مفہوم رکھتے ہیں جس میں نماز کے تمام تر آداب آجاتے ہیں ۔انہی آداب میں سے اہم ترین با جماعت نماز کی ادا ئیگی ہے ۔
وارکعوامع الراکعین یعنی رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔(البقرہ:43) تقریباً ہر مسجد کی کسی نہ کسی دیوار پر لکھا ہوا ملتاہے ۔
یہ بھی یاد دہانی کی ایک صورت ہے کہ اکیلے میں ،وقت بے وقت نماز پڑھ لینا اقامت صلوٰة میں نہیں آتا۔اسلامی معاشرہ میں مساجد کا وجود مسلمانوں کی اجتماعیت اور وحدت کا ایک عظیم الشان سبب ہے۔ یعنی سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو) کی ایک جھلک نماز با جماعت میں ملتی ہے ۔
گوکہ یہ حکم زندگی کے ہر شعبہ کے لئے ہے تاہم اس کا آغاز روز مرہ پنجگانہ نماز با جماعت سے ہوتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ علماء امت نے انہی آیات قرآنی اور احادیث نبوی کے تحت نماز باجماعت کو سنت موٴکدہ قرار دیا ہے جو واجب کے قریب تر ہے ۔جسے جان بوجھ کر ترک کرنا گناہ ہے کیونکہ یہ ایک طرح سے نماز کے حق کو ضائع کرنا ہے اور نماز کے حق کو ضائع کرنے کا مطلب اللہ کے حق کو تلف کرنا ہے کیونکہ نماز کی اقامت حقوق اللہ میں سے ہے ۔
گھروں میں نماز پڑھنا اور اکیلے پڑھنا خواتین کے لئے ہے۔مرد مسلمانوں کے لئے نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد میں پہنچنا نہایت ضروری ہے۔
اخوة الاسلام !اگر ہمیں معلوم ہو کہ ہم محض اپنی سستی کی وجہ سے اکیلے نماز پڑھ کر کتنے بڑے اجر اور ثواب سے محروم رہتے ہیں تو آپ یقین کیجئے کہ گھاٹے کے اس سودے کے لئے کوئی بھی مسلمان آمادہ نہ ہو۔امام بخاری رحمة اللہ علیہ ہی کی روایت کردہ ایک اور حدیث سنیئے جسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرکے ہم تک پہنچائی ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب ایک مسلمان گھر سے وضو کرکے صرف نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد کی طرف رخ کرتاہے تو اس کے ہر قدم پر ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیاجاتاہے ۔پھر نماز سے فارغ ہو کر جب تک نمازی وضو کے ساتھ اپنی جائے نماز پر موجود رہے تو فرشتے اس کے حق میں یوں دعا کرتے ہیں :اے اللہ اس پر برکت نازل فرما اور اس پر رحم فرما اور فرمایا کہ جب تک وہ نماز کی انتظار میں رہے تو سمجھا جائے گا کہ وہ نماز ہی میں ہے ۔
اس حدیث کو امام مسلم ،امام داؤد ،امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے بھی نقل کیا ہے ۔اسی اجر اورثواب کے حصول کے پیش نظر قرون اولیٰ کے مسلمان مساجد سے دور دور رہتے تھے تاکہ زیادہ قدم اٹھیں اور نامہ اعمال میں نیکیوں کا اندراج ہو اور گناہوں کے نشان مٹتے رہیں ۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو ہمیں بتا رہے ہیں کہ یہ ہماری آنکھوں دیکھی بات ہے کہ جماعت کی نماز سے صرف وہی منافق پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق ظاہر باہر ہوتا۔
ورنہ تو لوگ معذور آدمی کو بھی سہارا دے کر لاتے اور نماز کی صف میں کھڑا کر دیتے ۔اب آپ ہی انصاف سے کہیئے کہ معمولی عذر کی بنا پر نماز با جماعت سے اپنے آپ کو محروم رکھنا کہاں کی دیندار ی ہے ؟امام مسلم رحمة اللہ علیہ کی روایت کردہ وہ حدیث جسے سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کس مسلمان نے نہ سنی ہو گی جو جماعت کو ترک کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ اور وعید کی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ۔
فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ لوگوں کی غیر حاضری کو نوٹ فرمایا۔اور یوں گویا ہوئے:میرا ارادہ ہوتاہے کہ میں کسی آدمی کو کہوں کہ وہ مسجد میں موجود لوگوں کو نمازپڑھائے اور میں ان لوگوں کے ہاں پہنچوں جو نماز باجماعت میں شریک نہیں ہوتے پھر حکم دوں کہ لکڑیاں اکٹھی کرکے ان لوگوں سمیت ان کے گھروں کو جلا دیا جائے۔
مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ اگر ان گھروں میں خواتین اور چھوٹے بچے نہ ہوتے تو میں اپنے جوانوں سے کہہ دوں کہ جو کچھ گھروں کے اندر ہے ،اُسے آگ لگا دیں۔
حضرات گرامی !اس ارشاد مبارک کے انداز کو سمجھنے میں کوئی وقت اور مشکل پیش نہیں آنا چاہیے۔اس حقیقت سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو اللہ رب العزت نے عالمین کے لئے سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔
قرآن حکیم کی ایک شہادت یہ بھی ہے کہ ایمان والوں کوکوئی بھی تکلیف پہنچے وہ آپ پر شاق گزرتی ہے ۔پھر آپ اہل ایمان کے لئے روٴف ورحیم بھی ہیں ۔ان تمام حقائق کے باوجود آپ کا یہ فرمانا کہ میرا ارادہ ہوتاہے کہ میں ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگا کر جلادوں اور جو جماعت کی نماز کے لئے نہیں آتے۔یہ بات ایک بار نہیں سوبار سوچنے کی ہے اور وہ مسلمان جس کے دل میں ذرا بھی محبت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ اس پر ضرور غور کرے اور نماز کے بارے میں اپنی روش کا بھی جائزہ لے ۔
اگر کوئی کمی کوتاہی ہے اور یقینا ہوگی تو اس کی تلافی کی فکر کرے اور اس وعید کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کردے۔
نماز با جماعت کو معمول کی چیز سمجھنے والے اہل ایمان کے لئے ایک نا بینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی روئیداد اپنے اندر عبرت کا سامان اور وزن رکھتی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک نا بینا شخص ہوں ۔
میرا گھر بھی مسجد سے دور ہے اور کوئی ایسا آدمی بھی نہیں جو مجھے مسجد تک آنے میں میری مدد کرے ۔ایسی صورت میں میرے لئے کوئی گنجائش ہے کہ میں اپنے گھر میں ہی نماز پڑھ لیا کروں؟دریافت فرمایا :کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟عرض کی :جی ہاں۔فرمایا:گھر میں نماز پڑھنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔یہ گفتگو ہم تک امام احمد بن حنبل،امام ابو داؤد،ابن ماجہ،ابن خزیمہ اور امام حاکم نے پہنچائی ہے ۔
غور فر مایئے کہ صحابی نا بینا ہیں ،گھر بھی دور ہے اور کوئی آدمی بھی مسجد تک لانے کے لئے نہیں ہے لیکن دربار نبوت سے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ملی۔نماز با جماعت کی اہمیت کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے ۔لہٰذا ان ارشادات گرامی کی موجودگی میں ایک ایسے مسلمان کے لئے جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھنے کا دعویدار ہو کیسے ممکن ہے کہ وہ فرض نماز کو با جماعت مسجد میں ادا کرنے کا اہتمام نہ کرے اور اس کے لئے فکر مند نہ ہو کہ اُسے ایک نماز کا ثواب ستائیں نمازوں کے برابر ہے ۔
ایک نماز کے بدلے ستائیں نمازوں کا ثواب کیوں؟نگاہ نبوت اور لسان نبوت نے ستائیس کا تعین کہا ہے ،اس لئے چون وچرا کی کوئی گنجائش نہیں ۔مسلمان ہونے کے ناطے سے ایمان لانا ہی سعادت و فلاح کا ضامن ہے ۔اللہ رب العزت ہمیں سمجھ دے ،ہماری رہنمائی فرمائے اور توفیق دے کہ ہم اللہ کے گھروں کو پانچ وقتہ نمازوں کی باجماعت ادائیگی کے ساتھ آباد کریں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu