Open Menu

Waqiya Meeraj Or 5 Namazain - Article No. 3326

Waqiya Meeraj Or 5 Namazain

واقعہ معراج اور پانچ نمازیں - تحریر نمبر 3326

وہ فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس واپس جائیے،اس لئے کہ آپ کی امت اتنی نمازوں کی ادائیگی نہیں کر سکے گی ۔

جمعہ 28 فروری 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لئے پچاس نمازیں یومیہ فرض کیں ۔جب میں ان فرائض کے ساتھ واپس ہونے لگا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزر ہوا۔تو آپ علیہ السلام نے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت پر کیا کیا فرض کیا ہے ؟میں نے جواب دیا:پچاس نمازیں فرض کی ہیں ۔
وہ فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس واپس جائیے،اس لئے کہ آپ کی امت اتنی نمازوں کی ادائیگی نہیں کر سکے گی ۔میں واپس ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں سے ایک حصہ معاف فرما دیا۔میں پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آیا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے نمازوں میں سے ایک حصہ معاف فرما دیا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے پھر یہی فرمایا کہ آپ واپس جائیں کہ آپ کی امت ان کو سر انجام نہیں دے سکے گی ۔

چنانچہ میں پھر بارگاہ ایز دی میں حاضر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایک اور حصہ معاف فرما دیا۔
میں پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا اور انہیں بتایا کہ مزید رعایت مل گئی ہے ۔انہوں نے فرمایا:پھر واپس جایئے کہ آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھے گی ۔میں واپس حاضر ہوا تو اللہ رب العزت نے ایک اور حصہ معاف فرما دیا۔ واپسی پر پھر میرا گزر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے ہوتو آپ علیہ السلام نے پھر یہی فرمایا کہ واپس جایئے کہ آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھے گی ۔
میں پھر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:نمازیں پانچ فرض کی جاتی ہیں مگر ان کا ثواب پچاس ہی کا ہوگا کیونکہ میری کہی ہوئی بات میں تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔جب میں واپس ہوا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر بھی واپس جانے کا مشورہ دیا مگر میں نے جواب میں کہا کہ اب مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے۔(رواہ البخاری)
قابل صد احترام سامعین!امام المحد ثین فی الحدیث محمد بن اسماعیل البخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں جلیل القدر صحابی رسول حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اس حدیث کو نقل فرمایا۔
حدیث مبارک کے بیانیہ سے یہ بات عیاں ہے کہ مسئلہ نماز کا ہے اور موقع معراج کا ہے ۔امام بخاری رحمة اللہ علیہ کے ساتھ ساتھ تقریباً تمام محدثین کرام نے مختلف اور متعدد اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مضمون پر مشتمل حدیث کو نقل کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ۔اس اعتبار سے حدیث معراج حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہے ۔سفر معراج بھی بے مثال ہے اور نماز بھی تمام عبادات میں باکمال ہے ۔
سفر معراج رسول الثقلین امام الانبیاء ،خاتم الرسل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت اور ربانی اعزاز ہے جبکہ نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور ایمان والوں کے لئے معراج ہے ۔الصلوٰة معراج المومنین کا جملہ ہم اکثر وبیشتر سنتے ہیں ۔یہ تحفہ معراج اور سر گزشت معجزہ اسراء ہے ۔کلمات تشھدیا دوسرے الفاظ میں نماز کا التحیات اُن نیاز مندیوں پر مشتمل ہے جو صاحب معراج صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ رب العلمین میں پیش کرنے کے بہرہ مند ہوئے۔

اور اُس سلام پر مشتمل ہے جو جناب احد وصمد جل مجدہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اعزاز و اکرام کے طور پر عطا ہوئے ۔فیالہ‘من کرام،سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔اپنے اللہ کے حضور ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے والے یا دوزانو ہو کر بیٹھنے والے صاحب ایمان کے لئے یہ تصور ہی اتنا خوش کن اور مبارک ہے کہ حدبیان سے باہر ہے ۔یہ وہی محسوس کر سکتاہے جسے خالق کائنات جل مجدہ‘ نے اپنی بارگاہ میں پانچ وقتہ حاضری کی توفیق بخش رکھی ہے ۔
یہ تو فیق بھی ہے اور تو قیر بھی ۔یہ عمل بھی ہے اور ذائقہ بھی ۔یہ حاضری بھی اور حضوری بھی۔مسلمان ہونے کے باوجود جو اس اعزاز سے محروم ہے، سو وہ حقیقی محروم ہے اور بہت دور ہے ۔اور جو کبھی کبھار پڑھتاہے ،وہ کیونکر محسوس کر سکتاہے کہ معراج المومنین کس کو کہتے ہیں ۔نماز، دراصل اللہ رب العزت کے قرب کا وہ زینہ ہے کہ سجدہ میں گئے بغیر اس کی افادیت کا علم ہو ہی نہیں سکتا۔
سجدہ ریز ہونے والے ہی قربتوں کا مقام حاصل کرتے ہیں ۔سجدوں سے گریزاں کے لئے سر گردانی کے سوا کچھ نہیں ۔بلندیاں ملیں گی مگر اسی وقت جب اللہ کے حضور جھک جانے کا گُر آئے گا۔
ہم خدا خواہی وہم دنیائے دوں
ایں خیال است ومحال است وجنوں
بذریعہ معراج جو رفعتیں اور بلندیاں رسول دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئیں تو پس منظر میں وہ تواضع وہ عبادت اور وہ عاجزی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کا تعارف اور پہچان تھی ۔
سچ ہے کہ خالق کائنات جل جلالہ کے حضور جو جتنا جھکے گا اسے اتنی ہی سر بلندی اور سر فرازی ملے گی ۔مزید براں اس حدیث مبارک میں یومیہ پچاس نمازوں سے پانچ تک کا سفر بھی اتنا دلنشیں ہے کہ افلاک ہی میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔روئے زمین پر پہنچنے کی نوبت ہی نہیں آئی ۔45نمازیں عمل میں آنے سے پہلے ہی منسوخ ہو گئیں ۔اس میں کیا راز سر بستہ ہے کوئی بھی جاننے کی سکت نہیں رکھتا۔
سدرة المنتہی سے بھی پرے عرش عظیم کی بلندیوں پر پنجگانہ نمازوں ،سورة البقرہ کی آخری آیات اور شرک نہ کرنے والے کی مغفرت کے تحائف عطا ہورہے ہیں۔ زمین کی طرف واپسی کا سفر بھی شروع ہو چکا ہے ۔یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ آغاز ہی میں یومیہ پانچ نمازیں فرض فرمائی جاتیں۔مگر چھٹے آسمان پر حضرت کلیم اللہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات اور گفتگو کا مرحلہ اسی طرح طے ہوا کہ صریح احادیث کے مطابق صاحب معراج صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے رب اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مابین نو مرتبہ آمد ورفت کا سلسلہ چلا۔

سچی بات یہ ہے کہ یہ سب محب اور محبوب کی باہم ملاقات کے انداز ہیں ،نہ زبان بول سکتی ہے اور نہ قلم لکھ سکتاہے ۔ورنہ مسئلہ تو بڑا مختصر تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ اپنی امت بنی اسرائیل کا تجربہ فرما چکے تھے کہ ان پر محض دو نمازیں فرض تھیں اور وہ اُن سے بھی قاصر تھے ۔وہ ہر دفعہ رحمة اللعلمین صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہتے رہے کہ نمازیں زیادہ ہیں ،آپ کی امت ان کی بجا آوری کی استطاعت نہیں پائے گی ۔
تخفیف کر الائیے۔تقدیر الٰہی میں یہی طے تھا کہ امت محمد یہ کے لئے یومیہ پانچ نمازیں فرض ہوں گی مگر طریقہ کار یہی ہو گا کہ چھٹے آسمان میں موجود حضرت موسیٰ علیہ السلام کاس کا سبب ہوں گے ۔سو آپ علیہ السلام نے اپنا فریضہ خوب نبھایا۔وہ تو پانچ نمازوں کو بھی زیادہ تصور فرما رہے تھے اور دسویں مرتبہ بھی واپس ہونے کا مشورہ دے دیا تھا۔مگر محبوب رب العلمین نے فرمایا کہ اب واپس جانے میں شرم مانع ہے ۔
اور اللہ پاک کا بھی فیصلہ آچکا ہے کہ نمازیں پانچ ہی فرض ہوں گی مگر ثواب پچاس نمازوں کا ہوگا کہ سو،اس میں بڑی بشارت ہے امت محمدیہ علی صاحبہ التحیات والتسلیمات کے لئے کہ دن میں پانچ نمازیں پڑھے اور ثواب پچاس نمازوں کا لے ۔
سچی بات یہ ہے کہ پانچ نمازوں کا عظیم تحفہ امت مرحومہ کی اکثریت پر بھاری ہے ۔آسمانی تحفہ اور اتنی قدر ناشناسی ،ایک بڑا سوال ہے۔
علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ نے اپنی تفسیر الدار لمنثور میں معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تحائف میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ خالق کائنات کا ارشاد ہوا کہ اگر کوئی صاحب ایمان نیکی کا ارادہ کرے گا تو صرف ارادے پر ایک نیکی عطا کروں گا اور اگر کرلے گا تو ایک کے بدلے دس دوں گا۔اگر برائی کا ارادہ کرے گا تو جب تک برائی کا ارتکاب نہیں کرے گا تو کچھ بھی نہیں لکھوں گا ۔
اور اگر ارتکاب کرلے گا تو ایک ہی لکھوں گا۔سبحان اللہ ۔اس معجزاتی اور بے مثال سفر اور حد بیان سے ماوراء ملاقات میں مزید کیا ہوا،سچی بات یہ ہے کہ کسی دماغ کی وہاں تک رسائی ہے اور نہ ہی کسی قلم میں کوئی سکت۔
بس یہی کہ خالق کائنات جل مجدہ‘ نے اپنے عبد مقرب کو اپنی جس وحی سے نوازنا تھا ،نوازدیا۔
اکنوں کرا دماغ کہ پرسد زباغباں
بلبل چہ گفت وگل چہ شنید وصباچہ کرد
یعنی کسی کو یار انہیں کہ باغبان سے دریافت کرے کہ بلبل نے کیا کہا،پھول نے کیا سنا اور باد صبا نے کیا کیا۔

آئیے اب آخر میں مخلصانہ التجاء کریں اللہ رب العزت کے حضور کہ وہ ان گنت صلوٰة وسلام بھیجیں تاجدار ختم نبوت اور رحمت تمام صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ آسمانوں سے نماز ایسی خوبصورت عبادت ہمارے لئے تحفہ لائے ۔اللہ پاک اس گرانقدر تحفے کی قدر دانی نصیب فرمائے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu