Open Menu

Mojza Shaq Ul Qamar - Article No. 3455

Mojza Shaq Ul Qamar

معجزہ شق القمر - تحریر نمبر 3455

جس معجزہ کا ذکرآج ہم کرنے جا رہے ہیں،وہ ایسا معجزہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کسی نبی کو عطا نہ ہوا اور وہ معجزہ شق القمر کا ہے یعنی چاند کو دو ٹکڑے کر دینا۔۔چاند کو دو ٹکڑے کر دینے والا معجزہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے پورے عالم عرب کو ششدر اور حیران کر کے رکھ دیا تھا

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ جمعہ 5 جون 2020

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،اللہ تعالی کے آخری نبی بن کر اس دنیا میں تشریف لائے۔اللہ کریم نے جس طرح دیگر انبیائے کرام کو مختلف معجزات عطا فرمائے اسی طرح سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو سراپا معجزہ بنا کر دنیا میں بھیجا۔آپ سے پہلے تشریف لانے والے تمام انبیائے کرام کسی ایک خاص معجزہ کے ساتھ مخصوص شہرت رکھتے تھے۔
مثلا حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا معجزہ،حضرت موسی علیہ السلام کے عصا کا سانپ بن جانا،حضرت عیسی علیہ الصلاة والسلام کا مردوں کو زندہ کر دینا یا مادرزاد کوڑھیوں کو تندرست دینا،لیکن سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سراپا معجزہ بن کر تشریف لائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات و اطوار، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام کرنا، آپ پر قرآن کریم کا نازل ہونا،اس سمیت کئی معجزات ہیں جو سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ خاص ہیں۔

(جاری ہے)

اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ تمام انبیاء کے معجزات کو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں جمع کردیا گیا۔ لیکن جس معجزہ کا ذکرآج ہم کرنے جا رہے ہیں،وہ ایسا معجزہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کسی نبی کو عطا نہ ہوا اور وہ معجزہ شق القمر کا ہے یعنی چاند کو دو ٹکڑے کر دینا۔۔چاند کو دو ٹکڑے کر دینے والا معجزہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے پورے عالم عرب کو ششدر اور حیران کر کے رکھ دیا تھا۔
اور اس کی اہمیت اس لحاظ سے مسلم ہوگی کہ اس معجزہ کی تصدیق کے لیے خصوصی طور پر اللہ کریم نے سورت قمر کی آیات طیبات نمبر ایک سے لیکر تین نازل فرمائیں۔جس میں اللہ کریم نے ارشاد فرمایا۔ (ترجمہ) قیامت قریب آگئی ہے ہے اور چاند شق ہوگیا.اور اگر وہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں یہ بڑا زبردست جادو ہے۔(ضیاء القرآن۔
پارہ نمبر 27.)اس سورت کا پس منظر تحریر کرتے ہوئے صاحب ضیاء القرآن جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری تحریر کرتے ہیں۔”کفارآئے روز ایسے معجزات کا مشاہدہ کرتے رہتے تھے جن کو دیکھنے کے بعد کوئی سلیم الطبع انسان حضور کی رسالت کا انکار نہیں کرسکتا تھا لیکن عقل کے اندھے ان کو جادو کہہ کر ٹال دیا کرتے تھے۔ آخرکار ایک رات ان کی فرمائش پر شق القمر کا معجزہ دکھایا گیا۔
مکہ کے سارے باشندے منی کے کھلے میدان میں حاضر تھے۔آسمان پر چاند چمک رہا تھا سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی کا اشارہ کیا۔ اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چاند کا کرہ دو ٹکڑے ہوگیا۔دیکھنے والوں کو یوں محسوس ہوا کہ اس کا ایک حصہ پہاڑ کے اس طرف اور دوسرا دوسری طرف چلا گیا ہے۔پھر وہ انا فانا جڑ گیا۔ کفار یہ دیکھ کر تصویر حیرت بن گیے۔
ان کے پاس حضور کی رسالت کے انکار کا کوئی عذر باقی نہ رہا۔ابو جھل بولا کہ بڑا زبردست جادوگر ہے۔ اس کا جادو آسمان پر بھی اثر کرتا ہے“۔(ضیاء القرآن۔جلد پنجم۔)
بعض لوگوں نے شق قمر کی ان آیات طیبات کو قیامت کے وقوع ساتھ جوڑنے کی کوشش کی اور انہوں نے اس کی تشریح و تفسیر میں یہ بیان کیا کہ در اصل یہ قیامت میں پیش آنے والا واقعہ ہے جس کی طرف قرآن کریم کی آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔
لیکن کثیر احادیث ثابت کرتی ہیں یہ شق القمر کا واقعہ حضور اکرم کی حیات طیبہ میں ہوا تھا۔تفسیر ضیاء القرآن میں تفسیر قرطبی اور روح المعانی کے حوالے سے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے پانچ سال پہلے وقوع پزیر ہوا۔اور پھر اپنی اس بات کی تصدیق میں کثیر احادیثِ طیبہ بھی ذکر فرمائیں۔شق قمرکے واقعے کی تصدیق کرنے والی احادیث کو جلیل القدر صحابہ کرام نے روایت کیا ہے جن میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ، انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ قابل ذکر ہیں۔
بخاری و مسلم میں ایک حدیث مذکور ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چاند درمیان میں سے شق ہوکر اس طرح دو ٹکڑے ہو گیا تھا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر کی جانب تھا اور دوسرا نیچے کی جانب تھا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کو بلا کر کہا کہ میرے اس معجزہ کی گواہی دو۔(بخاری و مسلم) جبکہ یہ حدیث مشکوة شریف کی جلد پنجم میں بھی موجود ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک سے چاند کے دو ٹکڑے ہو جانا ایک ایسا حقیقی واقعہ ہے جس کی صداقت میں کسی کو شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس واقعہ سے متعلق روایات کو راویوں ایک بڑی جماعت نے بیان کیا ہے۔اور ان کے واسطہ سے بے شمار محدثین نے ان روایات کو نقل کیا ہے۔ علماء کرام کے نزدیک یہ صحیح روایت ہے اور تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے۔
اس کو بخاری و مسلم سمیت کئی جید محدثین نے اتنے زیادہ طرق سے نقل کیا ہے اس میں کہیں سے بھی شک کا گزر نہیں۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خود قرآن کریم نے اپنی آیات طیبات سے اس واقعہ کی صداقت کی گواہی دے دی۔کیونکہ اگر اس واقعہ کو محض قیامت کی نشانیوں کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو پھر وہ آیت زکر کرنے کی ضرورت نہ رہتی جس میں کفار کی طرف سے کہا گیا تو یہ کھلا جادو ہے۔
۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں اس واقعہ کا ذکر کچھ اس طرح ملتا ہے۔کے شعب ابی طالب میں محصوری کے دن گزر رہے تھے،اور محصورین صرف حج کے دنوں میں ہی غار سے باہر نکل سکتے تھے،مقاطعہ کا دوسرا ساتھ چل رہا تھا، اور حج کے ایام تھے۔سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ منی میں تشریف فرما تھے۔آسمان پر چاند بھی پورے جوبن پر تھا۔
ابوجہل، ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل وغیرہ نے اپنے دیگر ساتھیوں کو جمع کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ سوال اٹھایا کہ اگر آپ سچے ہیں تو چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھائیں۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں ایسا کر دوں تو کیا تم ایمان لاؤ گے؟سب نے کہا کہ ہم ایمان لائیں گے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالی سے دعا فرمائی اور چاند کی طرف انگلی کر کے اشارہ کیا تو چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے۔
چاند کا ایک ٹکڑا کوہ حرا کے اوپر تھا اور دوسرا اس کے دامن میں تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کافر کو نام لے کر پکارا اور کہا اے فلاں بن فلاں گواہ رہنا، اے فلاں بن فلاں گواہ رہنا۔سب لوگوں نے چاند کے ٹکڑے اچھی طرح دیکھ لیے ۔دو ٹکڑے ایک دوسرے سے اتنی دوری پر ہوگئے تھے کہ بیچ میں حرا پہاڑ نظر آ رہا تھا۔لیکن کفار نے اس پر کہا کہ یہ جادو ہے۔
ابوجھل نے کہا کہ اس معاملہ کی مزید تحقیق کریں گے۔اگر یہ جادو ہوا تو صرف ہم لوگوں پر ہی ہوسکتا ہے جو لوگ یہاں پر موجود نہیں ہیں یا دوسرے شہروں اور ملکوں میں ان پر تو جادو نہیں ہو سکتا۔چناچہ دوردراز کے لوگ جب آئے اور ان سے چاند کے ٹکڑے ہونے کے حوالے سے پوچھا جاتا تو سب اقرار کرتے کہ ہم نے بھی چاند کے دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت حذیفہ، اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنھم اس کے عینی گواہ تھے جو موقع پر موجود تشریف فرما تھے۔
۔یہ روایت مسند احمد،بخاری و مسلم،ترمزی،اور تفسیر ابن کثیر میں الفاظ کے معمولی ردوبدل کے ساتھ موجود ہے۔
کثیر صحیح احادیث کے باوجود بعض لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ واقعہ کو قیامت کے وقت ظہور پذیر ہوگا۔ضیاء القرآن میں اس آیت کی تشریح کے ذیل میں موجود ہے کہ ”انشق“ ماضی کا صیغہ ہے لیکن یہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے۔
اور عرب میں اس کی بکثرت مثالیں موجود ہیں۔اس واقعہ کا انکار کرنے والے کہتے ہیں کہ اگر ایسا واقعہ پیش آیا ہوتا تو ساری دنیا میں اس کی دھوم مچی ہوتی اس زمانہ کے مؤرخ اپنی کتابوں میں اس کا ذکر کرتے۔علم نجوم کے ماہرین اپنی تصنیفات میں یہ واقعہ نقل کرتے۔ان اعتراضات کے جواب میں حضور ضیائالامت تحریر کرتے ہیں کہ” چونکہ یہ واقعہ سر شام ہوا تھا اس لئے جزیرہ عرب کے مغرب میں جو ممالک تھے وہاں اس وقت دن تھا لہذا وہاں تو دیکھے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
نیز یہ واقعہ رات کو اچانک پیش آیا تھا اور لوگوں کو کیا خبر تھی کہ ایسا واقعہ وقوع پذیر ہونے والا ہے کہ وہ بے تابی سے اس کا انتظار کرتے۔ رات کو کیا خبر کہ آن کی آن میں کیا وقوع پذیر ہو گیا۔اگر کوئی اس وقت جاگ بھی رہا ہو تو ممکن ہے کہ وہ کسی اور کام میں مشغول ہو اور اس نے اس طرف توجہ نہ کی ہو یا توجہ کی ہو اس نے دیکھا بھی ہو لیکن وہ ان پڑھ ہو لکھ نہ سکا ہو۔
یا لکھا ہو تو پھر ضائع ہوگیا الغرض بیسیوں احتمالات ہو سکتے ہیں اتنے احتمالات کی موجودگی میں ہم صحیح روایات سے ثابت شدہ واقعہ کو کس طرح غلط کہہ سکتے ہیں“۔(ضیاء القرآن)
شق قمر کا واقعہ دراصل حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی شان نبوت کا خوبصورت اظہار تھا۔اس میں ایک تو حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان واضح ہوئی تو دوسری طرف سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کا بھی تذکرہ ہوا۔
آپ کا اختیار محض زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر موجود چیزوں پر بھی چلتا ہے۔تمام مخلوق آپ کے اشارے کی تابع ہے۔آپ چاہیں چاند کو دو ٹکڑے کر دیں۔پسند فرمائیں تو غروب ہوتا ہوا سورج واپس لے آئیں۔آپ پسند فرمائیں تو اللہ آسمان سے بارش نازل کردے۔اور خواہش کریں تو اللہ تعالی بارش واپس لے لے۔حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو عطا کر دہ معجزات کا تذکرہ اتنا طویل ہے کہ یہ مختصر مضمون اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
صرف یہی کہنا چاہتا ہوں کہ چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا واقعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی صداقت کی دلیل اور آپ کے اختیارات کا اظہار ہے۔اور آپ کے بے شمار معجزات میں سے ایک معجزہ ہے۔ہر دور میں علمائے کرام نے سرکار کے موجودات کا شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔اور بندہ مومن کے ایمان کو تازہ کیا ہے۔اللہ کریم ہمیں آقاے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت عطا فرمائے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu