Open Menu

Hazrat Saad Bin Rabi RA - Article No. 3459

Hazrat Saad Bin Rabi RA

حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ - تحریر نمبر 3459

انصاری صحابہ کرام میں سے ایک ممتاز نام حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔جنہوں نے اپنی جانثاری اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری کی وہ مثال قائم کی جس کا تذکرہ ہمیشہ تاریخ کی کتابوں میں ملتا رہے گا۔

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ جمعہ 12 جون 2020

حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے تمام صحابہ اپنے مقام و مرتبہ ورع و تقوی اور جانثاری کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں۔کسی ایک صحابی کا کسی دوسرے صحابی کی خدمات کے ساتھ موازنہ اور مقابلہ ناممکن ہے اور نہ ہی مناسب۔حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ان کی شان بیان کرنے کے لیے کافی ہے کہ میرے تمام صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے تم جس کی بھی اطاعت کرو گے فلاح پاؤ گے۔
سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انصاری صحابہ آقاے دوعالم کے ساتھ محبت اور وفاداری میں ایک الگ پہچان رکھتے تھے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو تمام صحابہ کرام نے دیدہ و دل فرش راہ کئے۔انصاری صحابہ کرام میں سے ایک ممتاز نام حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔

(جاری ہے)

جنہوں نے اپنی جانثاری اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری کی وہ مثال قائم کی جس کا تذکرہ ہمیشہ تاریخ کی کتابوں میں ملتا رہے گا۔

۔حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالی عنہا کا تعلق ق کمیلہ فرج سے تھا۔مدینہ منورہ کے اکابرین میں شمار ہوتے تھے۔بیعت عقبہ اول کے موقع پر پر پر آپ مشرف بہ اسلام ہوئے۔اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اپنے قبیلے کا نقیب مقرر فرمایا۔آپ بیتی عقبہ ثانیہ میں شریک ہوئے۔اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ باہر اپنی وفاداری کا اظہار کیا۔
آپ ان معدودے چند صحابہ کرام میں شامل تھے جن کو کو بیعت عقبہ اولیٰ اور بیت عقبہ ثانیہ دونوں میں حضور کی میت اور بیعت کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت سعد بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے مدینہ منورہ کے مالدار یار اور صاحب ثروت لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔انصاری صحابہ کرام کی طرح طرح آپ کا پیشہ بھی تجارت تھا۔اپنی جودوسخا کی وجہ سے سے مدینہ منورہ اور گردونواح کے علاقوں میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے تھے تھے۔
غرباء و مساکین کی مدد اور غلاموں کو آزاد کرانا نا آپ کا معمول تھا۔آپ اس نے سورة اور اس نے سیرت کا کا ایک مرکب ہے۔آپ نے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے آئے تو حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔۔مواخات مدینہ کا حصہ بنے۔سرکارِ دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کو اپکا بھائی بنایا۔
اور آپ نے بھائی چارے کی وہ مثال قائم کی کی جس کی کوئی اور مثال ملنا مشکل ہے۔حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دینی بھائی عبدالرحمن بن عوف سے کہا ہکہ میں اپنا مال دو حصوں میں بانٹ دیتا ہوں۔ایک حصہ آپ رکھ لیں دوسرا حصہ میں رکھ لیتا ہوں۔یہاں تک کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میری دو بیویاں ہیں۔ میں اپنی ایک بیوی کو طلاق دے دیتا ہوں اسے تم نکاح کر لو۔
۔حضرت عبدالرحمن بن عوف نے احساس تشکر سے ان کا احسان لینے کے بجائے ارشاد فرمایا کہ تم مجھے بازار کا راستہ دکھاؤ۔میں تجارت کروں گا۔مجھے آپ کے اہل و عیال میں کچھ نہیں چاہئے۔ اللہ تعالی آپ کے مال اور عیال میں برکت عطا فرمائے۔مواخات مدینہ کا یہ فیض قیامت تک آنے والی امت مسلمہ اور انسانیت کے لیے لیے ایک ایسی نظیر بن گیا جس کی مثال رہتی دنیا تک مثال دی جاتی رہے گی۔

حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ کو مدینہ منورہ کے ان چند لوگوں میں شامل تھے جن کو لکھنا پڑھنا آتا تھا۔اس صلاحیت کی بنا پر وہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب تھے۔آپ کو کاتب رسول ہونے کا شرف بھی حاصل رہا۔کء مہاجر صحابہ کرام کو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلّم کے حکم پر لکھنے پڑھنے کی تعلیم دی۔شہادت کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے پہلے بارگاہ نبوت میں تحریر کے اکثر امور حضرت سعد کی زیر نگرانی سرانجام پاتے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات آپ تحریر فرماتے۔ اور ان کو محفوظ کرکے لوگوں تک پہنچاتے۔پورے عرب میں میں اس وقت پڑھے لکھے افراد کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں اور کفار کے تمام قبائل میں آپ کا یکساں احترام کیا جاتا تھا۔
حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ ایک جانباز سپاہی تھے۔ بہادری اور شاہسواری میں اپنی مثال آپ تھے۔
غزوہ احد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر میں شامل تھے۔مسلمانوں کے لشکر میں جب افراتفری مچی تو حضرت سعد ان لوگوں میں شامل تھے جو اپنے پاؤں پر جمے رہے اور دلیری سے کفار سے جنگ کی۔شدید جنگ کے عالم میں آپ تلوار بازی کے جوہر دکھاتے رہے اور کفار کے سر قلم کرتے رہے۔حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ رجز پڑھتے اور بھاگتے ہوئے لوگوں کو کہتے کہ اے لوگو۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں۔دشمن پر ٹوٹ پڑو۔اور ان کو واصل جھنم کرو۔غزوہ احد میں حضرت سعد بن ربیع نے شاہ سواری اور نیزہ زنی کے وہ مناظر دکھائے کہ کفار ششدر رہ گئے۔ جس وقت آپ شہید ہوئے، اس وقت آپ کے جسد اقدس پر نیزے کے بارہ زخم تھے۔موطا امام مالک میں ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے اختتام پر فرمایا کوئی سعد بن ربیع کی خبر لاتا۔
ایک شخص نے کہا میں جاتا ہوں۔انہوں نے جا کر کر سنا ٹے میں آواز دی۔ سعد بن ربیع کا نام پکارا۔لیکن جواب نہ ملا۔قاصد نے کہا کہ مجھے محمد رسول اللہ نے بھیجا ہے۔تو ایک آواز آپ کے کان میں پڑی کہ میں ادھر مردوں میں پڑا ہوں۔آپ پر نزع کا عالم طاری تھا۔زبان قابو میں نہ تھی۔تاہم اپنے آخری وقت پر انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا کر میرا سلام کہنا اور انصار سے کہنا کہ اگر خدانخواستہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتل ہوگئے اور تمہاری غفلت کی وجہ سے اس دنیا میں نہ رہے اور تم میں سے ایک بھی زندہ بچ گیا تو روز قیامت خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے۔
۔بعض روایات میں ہے کہ اس قاصد کا نام حضرت ابی بن کعب تھا۔آپ نے ان کی وصیت سنی اور انکی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔وصیت کی یہ کلمات انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیے۔حضور نے ارشاد فرمایا۔خدا سعد بن ربیع پر رحم فرمائے۔زندگی اور موت دونوں میں خدا اور رسول کی خیرخواہی مدنظر رہی۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ربیع کے لئے خصوصی دعا فرمائی۔۔غزوہ احد کے موقع پر ایک قبر میں دو دو اشخاص کو دفن کیا گیا تھا۔حضرت سعد کو حضرت خارجہ بن زید بن ابی زبیر جو آپ کے چچا تھے ان کے ساتھ دفن کیا گیا
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

Browse More Islamic Articles In Urdu