عدلیہ ہمارے تابع نہیں ، ضمانت مسترد ہونے کو سیاسی رنگ دینا اور بیانات عدلیہ پر حملہ اور توہین عدالت ہے، وزراء

گرفتاری سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، عدالت کا فیصلہ جس طرح بھی آتا ہم اس کی تائید اور احترام کرتے، وزیر اطلات شبلی فراز میں نے شہباز شریف کی گرفتاری کا نہیں کہا تھا،کیس میں شہباز شریف کے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے شواہد ہیں، شہزاد اکبر

پیر 28 ستمبر 2020 18:40

عدلیہ ہمارے تابع نہیں ، ضمانت مسترد ہونے کو سیاسی رنگ دینا اور بیانات عدلیہ پر حملہ اور توہین عدالت ہے، وزراء
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 ستمبر2020ء) وفاقی وزراء نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی گرفتاری پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ ہمارے تابع نہیں ہے، ضمانت مسترد ہونے کو سیاسی رنگ دینا اور اس طرح کے بیانات عدلیہ پر حملہ اور توہین عدالت ہے۔پیر کو لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی جس کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے انہیں احاطہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا ۔

ایک انٹرویو میں وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے شبہاز شریف کی ضمانت مسترد ہونے سے متعلق فیصلے پر کہا کہ اس ملک میں اشرافیہ نے ایک قانون بنایا ہوا تھا کہ وہ قانون سے بالاتر تھے اور جو عام پاکستانی ہے جس کی کوئی پہنچ نہیں اس پر قانون کا اطلاق ہوتا تھا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی سیاست کا بنیادی سلوگن تھا کہ قانون سب کیلئے ایک ہونا چاہیے اور ان لوگوں کو کٹہرے میں لانا چاہیے جنہوں نے اس ملک کو نقصان پہنچایا ہے اور ملک کے اداروں کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا۔

انہوںنے کہاکہ اس سے یہ ہوا کہ قومی مفاد قربان ہوئے اور ہم ایف اے ٹی ایف کی گرے اور بلیک لسٹ کی بحث میں پڑ گئے۔شبلی فراز نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت نے کیا ہے، ہم اس کا احترام کرتے ہیں عدالت انہیں بری بھی کرسکتی تھی تاہم اس میں ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، عدالت کا فیصلہ جس طرح بھی آتا ہم اس کی تائید اور احترام کرتے۔انہوں نے کہا کہ میں اپوزیشن سے یہی توقع رکھوں گا کہ وہ اپنی سیاست کے لیے انصاف فراہم کرنے والے اداروں کو متنازع نہ بنائیں اور قانون کا احترام کریں۔

مریم اورنگزیب کی جانب سے لگائے گئے الزام پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ الزام اعلیٰ عدلیہ پر لگایا ہے کیونکہ عدلیہ ہمارے تابع نہیں ہے، کئی فیصلے ایسے ہیں جو ان کے حق میں آئے ہے۔انہوںنے کہاکہ اگر فیصلہ ان کے خلاف آئے تو عمران خان نے کرایا ہے جبکہ اگر حق میں آجائے تو یہ کسی اور نے کرایا ہے، اس طرح کی دوہری پالیسی نہیں ہونی چاہیے۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت سنبھالنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ان کی وہی قیادت کامیاب ہوگی جو بالکل شفاف ہو اور عوام میں قابل قبول ہو۔دوسری جانب مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے شہباز شریف کی گرفتاری کا نہیں کہا تھا۔انہوں نے کہا کہ جب کسی عدالت سے ریلیف ملتا ہے تو عدلیہ بہت اچھی ہے اور انہیں انصاف مل گیا تاہم جب اسی عدالت کی جانب سے ایک ضمانت مسترد ہوتی ہے تو ان کی پارٹی کی ترجمان اسے نیب نیازی گٹھ جوڑ کہتی ہیں، میرا سوال ہے کہ کیا یہ توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا، کیا یہ عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کر رہی انہوں نے کہا کہ عدالت نے ایک عبوری ضمانت دی تھی، عبوری ضمانت کے بعد دیکھا جاتا ہے کہ جو تحقیقاتی ادارہ آپ کو گرفتار کرنا چاہ رہا ہے اس کے وارنٹ قابل عمل ہیں یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک ڈویژن بینچ نے کیس سننے کے بعد ضمانت مسترد کی لیکن اس کو سیاسی رنگ دینا اور اس طرح کے بیانات عدلیہ پر حملہ اور توہین عدالت بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ کیس گزشتہ 4 ماہ سے چل رہا ہے، ان کے وکلا نے عدالتی نظیریں بھی پیش کیں، جس کے بعد عدالت نے فیصلہ دیا کہ اس کیس کے میرٹ کو دیکھتے ہوئے ان کی ضمانت قبل از گرفتاری مسترد کردی جائے۔

مشیر داخلہ نے کہا کہ ہر کیس اس کے میرٹس اور ملوث ملزمان کو دیکھ کر ہوتا ہے، کوئی ملزم اگر تفتیش پر اثر انداز ہو تو اسے بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کیس میں شہباز شریف کے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے شواہد ہیں، ان اکاؤنٹس کو استعمال کرکے براہ براست فائدہ اٹھانے کا، گاڑیوں کی کسٹم ڈیوٹیز اور دیگر اخراجات ادا کرنے کا جبکہ اس کے علاوہ آمدن سے زائد اثاثوں کا معاملہ ہے۔انہوںنے کہاکہ اس کیس میں ٹھوس شواہد ہونے کی وجہ سے لاہور ہائیکورٹ نے آج ان کی ضمانت مسترد کی ہے، یہ صرف بیان بازی کی حد تک یہ ہے کہ میرے بچوں کے معاملات کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں