ایف آئی ایم کی غلامی سے کیسے نکلنا ہے ،وزیر خارجہ کا سوال

اپنے آبی وسائل کو بہتر اندا زمیں استعمال کر کے اقتصادی ضروریات کو بآسانی پورا کر سکتے ہیں سرکاری محکموں کی صلاحیت بتدریج کم ہوئی ،نجی شعبہ آگے بڑھ رہا ہے تو ہمیں سرکاری و نجی شعبے کے اشتراک کی ضرورت ہے،فصلوں سے منسلک بیماریوں کی معلومات اور ادویات کی معلومات اسے بروقت مل جائیں تو کسان اس کا تدارک کر سکتا ہے،انشاء اللہ افغانستان میں قیام امن کے بعد ہمارے علاقائی روابط میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا، شاہ محمود قریشی کا خطاب

منگل 30 نومبر 2021 23:28

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 نومبر2021ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ایف آئی ایم کی غلامی سے کیسے نکلنا ہے ، اپنے آبی وسائل کو بہتر اندا زمیں استعمال کر کے اقتصادی ضروریات کو بآسانی پورا کر سکتے ہیں ،سرکاری محکموں کی صلاحیت بتدریج کم ہوئی ،نجی شعبہ آگے بڑھ رہا ہے تو ہمیں سرکاری و نجی شعبے کے اشتراک کی ضرورت ہے،فصلوں سے منسلک بیماریوں کی معلومات اور ادویات کی معلومات اسے بروقت مل جائیں تو کسان اس کا تدارک کر سکتا ہے،انشاء اللہ افغانستان میں قیام امن کے بعد ہمارے علاقائی روابط میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔

منگل کو وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ’’ایگری ایپ،خوشحال پاکستان نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اگر آپ معاشرتی و اقتصادی تبدیلی کے خواہاں ہیں تو آپ کو زراعت کے شعبے پر توجہ دینا ہو گی،اسی مقصد کیلئے ہم نے بہت پہلے، فارمرز ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی تھی،اس کا مقصد زراعت میں پیداوار بڑھانے کیلئے انوویشنز کو بروئے کار لانا تھا۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ آج ہمارے پاس زرخیز زمینیں موجود ہیں ہمیں اپنی پیداوار کو بڑھانے کے لیے نئے زرائع بروئے کار لانا ہوں گے یہی وجہ ہے کہ آج اس ایگری ایپ خوشحال پاکستان، کی افتتاحی تقریب میں، میں آپ کے درمیان موجود ہوں ،ہماری زیادہ تر آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت سے منسلک ہے،چیلنج یہ ہے کہ ایک مقروض پاکستان کو خوشحال کیسے بنایا جا سکتا ہے،آئی ایم ایف کی غلامی سے کیسے نکلنا ہی ،غلامی کا لفظ میں اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ جب ہم کسی سے ادھار مانگتے ہیں وہ کڑی شرائط رکھتا ہے،میری نظر میں ہمارے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ ہم اپنی اقتصادی ضروریات کو بآسانی پورا کر سکتے ہیں اگر ہم اپنے آبی وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کریں۔

وزیر خارجہ نے کہاکہ ٹیکنالوجی کے ذریعے یہ سب ممکن ہے،زراعت سے متعلق اس وقت ہمیں چند چیلنجز درپیش ہیں۔ انہوںنے کہاکہ آبادی کا بہت بڑا طبقہ سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے،روزگار کی فراہمی دوسرا بڑا چیلنج ہے جبکہ تیسرا چیلنج فوڈ سیکورٹی ہے ان سب کا حل کسان کو خوشحال بنانے سے ممکن ہے،سرکاری محکموں کی صلاحیت بتدریج کم ہوئی - نجی شعبہ آگے بڑھ رہا ہے تو ہمیں سرکاری و نجی شعبے کے اشتراک کی ضرورت ہے۔

انہوںنے کہاکہ عام کسان چاہتا ہے کہ گھر بنا سکوں اور بچوں کو تعلیم دے سکوں اور بیماری کی صورت میں مال مویشی بیچے بغیر علاج کروا سکوں،یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس کی پیداوار بڑھاء جائے،نوے فیصد کسان، مال مویشی پر گزارا کرتے ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے وسائل کے درست استعمال کا ادراک ہو۔ انہوںنے کہاکہ سرکاری محکموں میں بھرتیوں کی گنجائش نہیں ہے،ہمیں ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانا ہو گا۔

انہوںنے کہاکہ آج ہر طبقے کے پاس موبائل فون موجود ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس فون کا منفعت بخش استعمال کیسے کرنا ہی ،ایسی ایپس کے استعمال سے فون کے استعمال کو منفعت بخش بنایا جا سکتا ہے زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے ہم اپنی معیشت کو بہتر بنا سکتے ہیں،آج کسان کے پاس معلومات کا فقدان ہے اگر اسے بارش کا بروقت اندازہ ہو جائے تو اس کا بیج ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔

انہوںنے کہاکہ فصلوں سے منسلک بیماریوں کی معلومات اور ادویات کی معلومات اسے بروقت مل جائیں تو کسان اس کا تدارک کر سکتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ آج کسان رو رہا ہے کہ اسے اس کی فصل کی پوری قیمت نہیں ملی جبکہ شہری کا شکوہ ہے کہ قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ کمائی مڈل مین اور ذخیرہ اندوز کر رہا ہے،ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے آپ کسان کو یہ سب معلومات بروقت بہم پہنچا سکتے ہیں،اس قوم میں خودداری اور ٹیلنٹ دونوں موجود ہیں ہمیں انہیں سمت فراہم کرنا ہے،ہمیں اس طرح کے سلوشنز اپنانے کی ضرورت ہے۔

انہوںنے کہاکہ ڈیجیٹل لٹریسی کیلئے میں آپ کو اپنی حمایت کا یقین دلاتا ہوں،ناروے میں پاکستان کی بہت سی آبادی مقیم ہے جو وہاں پر بہت فعال اور متحرک ہیں،۔انہوںنے کہاکہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے چھہترویں اجلاس کے موقع پر میری نارویجن وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ناروے میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کردار کو سراہا۔انہوںنے کہاکہ انشاء اللہ افغانستان میں قیام امن کے بعد ہمارے علاقائی روابط میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ انہوںنے کہاکہ آج پاکستان میں سرمایہ کاری صرف پاکستان کی 230 ملین آبادی کیلئے سرمایہ کاری نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ منفعت کا باعث ہو گی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں