مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے دوران روئی کا بھاؤ مستحکم رہا

صوبہ سندھ میں روئی کا بھاؤ فی من 8600 تا 9400 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 3200 تا 4300 روپے رہا

ہفتہ 28 نومبر 2020 16:45

مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے دوران روئی کا بھاؤ مستحکم رہا
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 نومبر2020ء) مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی جانب سے اچھی کوالٹی کی روئی میں خریداری جاری رہی جبکہ جنرز بھی روئی کی فروخت میں دلچسپی لے رہے ہیں کیوں کہ پھٹی کی آمد بڑھ رہی ہے اور ریٹ بھی بڑھتے جارہے ہیں حالانکہ کئی جنرز روئی کے بھاؤ میں مزید اضافہ ہونے کی توقع کرتے ہوئے روئی کا اسٹاک بھی کر رہے ہیں بہر حال مجموعی طورپر روئی کا بھاؤ مستحکم رہا۔

جبکہ کاروباری حجم بھی مناسب کہا جاسکتا ہے۔ ڈالر کے بھاؤ میں اتار چڑھا ہورہا ہے اور بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں روئی کے بھاؤ میں اضافہ کا رجحان ہے۔صوبہ سندھ میں روئی کا بھاؤ فی من 8600 تا 9400 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 3200 تا 4300 روپے جبکہ صوبہ پنجاب میں روئی کا بھاؤ فی من 8800 تا 9600 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 3300 تا 4800 روپے رہا صوبہ بلوچستان میں روئی کا بھاؤ فی من 8400 تا 9200 روپے پھٹی کا بھا ؤفی 40 کلو 3800 تا 5000 روپے رہا۔

(جاری ہے)

کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 100 روپے بڑھا کر اسپاٹ ریٹ فی من 9450 روپے کے بھاؤ پر بند کیا۔کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں روئی کے بھاؤ میں مجموعی طورپر تیزی کا عنصر رہا۔ نیویارک کاٹن کے وعدے کے بھاؤ میں اتار چڑھا رہا جو فی پانڈ 74 امریکن سینٹ کے اونچی سطح پر پہنچ کر 72 سینٹ پر آگیا۔

USDA کی ہفتہ وار برآمدی رپورٹ میں 64 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے زیر اثر آئندہ دنوں میں کاٹن کے وعدے کے بھاؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔برازیل، ارجنٹینا اور وسطی ایشیا کی ریاستوں میں روئی کا بھاؤ مجموعی طورپر مستحکم رہا جبکہ بھارت میں روئی کے بھاؤ میں معمولی اتار چڑھا دیکھا گیا۔دریں اثنا گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے ٹیکسٹائل کے سیکٹر میں پاکستان کا مانچسٹر کہلانے والے فیصل آباد کا دورہ کیا تھا انہوں نے وہاں ٹیکسٹائل سیکٹر کے نمائندوں سے ملاقات کی اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ حکومت ٹیکسٹائل سیکٹر کی ترقی میں دلچسپی لے رہی ہے انہوں نے گزشتہ دنوں انڈسٹریز خصوصی طور پر ٹیکسٹائل کی صنعت کو توانائی کی مد میں رعایت دینے کا اعلان کیا ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل سیکٹر بحال ہونے لگا ہے کہا جاتا ہے کہ کئی بند پاور لومز دوبارہ چلنے لگے ہیں خصوصی طور پر کپڑا بنانے والی پاور لومز کی صنعت زبوں حالی کا شکار اور کئی لومز لوگوں نے لوہے کے بھا فروخت کردئے تھے اس میں اب جان آگئی ہے بلکہ ایک اطلاع کے مطابق مزید 30 ہزار پاور لومز درآمد کئے جارہے ہیں جبکہ ٹیکسٹائل سیکٹر جو اب پھل پھول رہا ہے بیرون ممالک سے وافر مقدار میں برآمدی آرڈر موصول کئے ہوئے ہیں جس کے باعث ٹیکسٹائل انڈسٹریز مکمل طور پر بحال ہوچکی ہے بلکہ کاریگر کم پڑ رہے ہیں کہا جاتا ہے کہ اس وقت 2 لاکھ کاریگروں کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔

نسیم عثمان کے کہنے کے مطابق وزیراعظم ٹیکسٹائل سیکٹر کی بحالی کیلئے مثبت اقدام لے رہے ہیں لیکن ٹیکسٹائل سیکٹر کے خام مال کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لئے کوئی مثبت اقدام نہیں کیے جا رہے ہیں۔ملک میں کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے اس سال کپاس کی پیداوار گزشتہ 30 سالوں کی پیداوار سے کم ہے جو بمشکل 60 لاکھ گانٹھوں کے برابر ہوگی جب کہ ٹیکسٹائل سیکٹر بحال ہونے کی وجہ سے روئی کی وافر مقدار کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔

روئی کے درآمد کنندگان کے کہنے کے مطابق فی الحال بیرون ممالک سے روئی کی تقریبا 32 لاکھ گانٹھوں کے درآمدی معاہدے کرلئے گئے ہیں جبکہ کل 65 تا 70 لاکھ گانٹھوں کی ضرورت ہے۔ جس کی مالیت تقریبا 5 ارب ڈالر لگائی جاتی ہے۔نسیم عثمان نے بتایا کہ حکومت ٹیکسٹائل سیکٹر کی بحالی کی وجہ سے زر مبادلہ حاصل کرے گی اس میں سے خاصہ زر مبادلہ روئی کی درآمد کی مد میں ادا کیا جائے گا اس وجہ سے ملک میں کپاس کی فصل بڑھانے کی غرض سے جنگی بنیادوں پر اقدام کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ کئی سالوں سے کپاس کے کاشتکار کم فصل کی وجہ سے نقصان کررہے ہیں اگر اب بھی کپاس کی پیداوار بڑھانے کیلئے مثبت حکمت عملی تیار نہ کی گئی تو آئندہ کاشتکار کپاس کی فصل کے بجائے متبادل فصلوں کی طرف راغب ہوجائیں گے بعد ازاں انہیں کپاس کی فصل کیلئے تیار نہیں کیا جاسکے گا۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں