ٴنیب لاہور کی شہباز شریف خاندان کیخلاف بذریعہ جعلی ٹی ٹی بیرون ملک سے منی لانڈرنگ کی تحقیقات

ڑ*شہباز شریف خاندان کی جائیداد میں 2008 کے بعد ہوش ربا اضافے کے انکشافات

اتوار 8 دسمبر 2019 20:35

Gلاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 08 دسمبر2019ء) سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف خاندان کی جائیداد میں 2008 کے بعد ہوش ربا اضافے کے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ذرائع کے مطابق نیب لاہور نومبر 2018 سے شہباز شریف خاندان کیخلاف بذریعہ جعلی ٹی ٹی بیرون ملک سے منی لانڈرنگ کرنے کی تحقیقات کر رہا ہے۔ ان تحقیقات کے مطابق بیرون ملک سے منی لانڈرنگ کرتے ہوئے عرصہ پانچ سال (2008-2013) کے دوران 202 جعلی ٹی ٹی کے ذریعے 1.57 ارب شہبازشریف خاندان کے افراد کے ذاتی اکائونٹس میں منتقل کئے گئے۔

جن افراد کے ذاتی اکائونٹ میں جعلی ٹی ٹی کے ذریعے لندن اور دبئی سے بھاری رقوم منتقل کی گئیں ان میں حمزہ شہباز، سلیمان شہباز، بیگم نصرت شہباز، علی عمران، بیگم راجہ عمران اور بیگم جویریہ علی شامل ہیں۔

(جاری ہے)

ذاتی اکائونٹس میں بذریعہ ٹی ٹی رقم منتقلی کے علاوہ فرنٹ مین جن میں محمد مشتاق چینی والا (360 ملین) اور ملازم کے نام پر ایک کمپنی وقار ٹریڈنگ کمپنی (140 ملین) کے اکائونٹ میں بھی بیرون ملک سے جعلی ٹی ٹی کے ذریعے رقوم منگوائی گئیں جو کہ بعدازاں شہباز شریف خاندان کے کاروبار میں منتقل کر دی گئیں۔

نیب تحقیقات سے واضح ہوا کہ جن لوگوں کے نام پر جعلی ٹی ٹی لگوائی گئیں ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو انتہائی غریب ہیں، نہ وہ کبھی بیرون ملک گئے اور نہ ہی ان کا کبھی پاسپورٹ بنا تھا، جیسے کے منظور احمد پاپڑ والا سکنہ پنڈ دادن خن جہلم، محبوب احمد پھیری والا سکنہ لاہور، قدیر احمد کڑھائی والا سکنہ لاہوروغیرہ۔ تاہم جعلی ٹی ٹی کے ذریعے بیرون ملک سے حاصل ہونے والی اس دولت کو شہباز شریف خاندان نے اپنے بینک کے کھاتوں میں یہ لکھ کر وصول کیا کہ ٹی ٹی کے ذریعے رقم بھجوانے والے ان کے قریبی رشتہ دار ہیں اور انہوں نے یہ رقم کاروبار میں سرمایہ کاری کیلئے بھجوائی ہے۔

ٹی ٹی کے ذریعے وصول ہونے والی اس دولت سے شہباز شریف خاندان نے مختلف جائیدادیں خریدیں جن میں 96-H ماڈل ٹائون لاہور میں واقع شہباز شریف کا گھر (جو کہ بیگم نصرت شہباز کے نام پر ہی) سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ اس رقم کو شہباز شریف خاندان کی طرف سے نئے کاروبار قائم کرنے کے لئے ان میں ابتدائی سرمایہ کاری کے لئے استعمال کیا گیا۔ اس کالے دھن سے جو کاروبار قائم کئے گئے اور ان میں سرمایہ کاری کی گئی ان میں چنیوٹ پاور لمیٹڈ، شریف فیڈ ملز، شریف ڈیری فارمز، شریف پولٹری فارم اور شریف ملک پراڈکٹس وغیرہ شامل ہیں۔

حالیہ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نہ صرف شہباز شریف خاندان کے کاروبار منی لانڈرنگ سے حاصل ہونے والی دولت سے قائم کئے گئے بلکہ ان کو ترقی اور ترویج دینے کے لئے اندرون ملک منی لانڈرنگ کا ایک باقاعدہ سسٹم بنایا گیا۔ نیب تحقیقات میں چھ فرنٹ کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے جو کہ شہباز شریف خاندان کے ملازمین اور فرنٹ مین کے نام پر قائم کی گئیں۔

یہ فرنٹ کمپنیاں محض کاغذی کمپنیاں تھیں جن کا حقیقت میں کوئی کاروبار نہیں تھا اور یہ جعلی کاروباری کھاتے بنا کر کک بیک اور کمیشن کی رقوم شہباز شریف خاندان کے اوپر دیئے گئے ظاہر شدہ کاروبار میں منتقل کرتی تھیں۔ ان فرنٹ کمپنیوں میں گڈ نیچر ٹریڈنگ کمپنی (جی این سی)، یونی ٹاس لمیٹڈ، نثار ٹریڈنگ کمپنی (راشد کرامت، اکائونٹنٹ کے نام پر) وقار ٹریڈنگ کمپنی (سید محمدطاہر نقوی منیجر کے نام پر) مقصود اینڈ کمپنی (ملک مقصود، چپڑاسی کے نام پر) اور مشتاق احمد کمپنی (محمد مشتاق چینی والا فرنٹ مین کے نام پر) شامل ہیں۔

گڈ نیچر ٹریڈنگ کمپنی اور یونی ٹاس لمیٹڈ کے ڈائریکٹر/مالکان نثار احمد گل سکنہ ننکانہ اور علی احمد خان سکنہ قصور ہیں۔ نثار احمد گِل ان فرنٹ کمپنیوں کا سی ای او بھی ہے جس کو نیب نے گرفتار کر لیا ہے۔ نثار احمد گِل نے ابتدائی تحقیقات میں بتایا ہے کہ وہ اور علی احمد خان سلیمان شہباز شریف کے گورنمنٹ کالج لاہور میں کلاس فیلو تھے جہاں سے ان کی دوستی سلیمان شہباز سے ہو گئی اور بعدازاں ان کی شہباز شریف خاندان سے قربت میں اضافہ ہو گیا۔

اسی تعلق کی وجہ سے 2009 میںپنجاب میںشہباز شریف کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب حکومت قائم ہونے کے بعد وزیراعلیٰ کے دفتر واقع 8 کلب روڈ لاہور میں نثار احمد گِل کو ڈائریکٹر برائے وزیراعلیٰ (پولٹیکل) اور علی احمد کو ڈائریکٹر برائے وزیراعلیٰ (پالیسی) تعینات کیا گیا۔ 2013 میں نگران حکومت قائم ہونے کے بعد دونوں کو سایسی بنیاد پر بھرتی کی وجہ سے عہدوں سے برطرف کر دیاگیا تاہم دوبارہ شہباز شریف کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد ان کو انہی عہدوںپر دوبارہ تعینات کر دیا گیا۔

نثار احمدگِل نے سلیمان شہباز کے ساتھ بیرون ملک دورے بھی کئے جن میں لندن، دبئی، قطر اور سعودی عرب کے دورے شامل ہیں۔ اکتوبر2015ء میں نثار احمد گِل اور علی احمد خان کے نام پر گڈ نیچر ٹریڈنگ کمپنی کے نام سے ایک کاغذی کمپنی قائم کی گئی۔ کاغذوں میں اس کا بگاس کا کاروبار تھا تاہم اس کا حقیقت میں کوئی کاروبار نہیں تھا۔ کمپنی قائم کرنے کے بعد اس کے تین بینک اکائونٹ بنائے گئے۔

نثار احمد گِل کے انکشاف کے مطابق اس نے کمپنی کی رجسٹریشن سے متعلقہ دستاویزات اور کمپنی کی خالی چیک بک دستخط کر کے شریف گروپ کے اکائونٹنٹ محمد عثمان کے حوالے کر دیں۔ اس کو نہیں معلوم کہ اس کے نام پر قائم کی گئی کمپنی میں کتنا سرمایہ منتقل ہوا یا نکالا گیا اور یہ اس کے لئے بھی انکشاف ہے کہ جی این سی کے اکائونٹ میںشہبازشریف خاندان کے اوپر ظاہر شدہ کاروبار سے تقریباً سات ارب روپے منتقل کیا گیا اور بعدازاں ان رقوم کو کھاتوں میں سیل و پرچیز وغیرہ ظاہر کر کے واپس انہی کاروبار میں منتقل کر دیا گیا۔

جی این سی کے کھاتوں کی تحقیقات کے دوران مزید انکشاف ہوا کہ جی این سی کے بینک اکائونٹس سے 2.1 ارب روپے کیش کی صورت میں نکلوایا گیاجس میں سے 1.2 ارب روپے جی این سی کے کسی ملازم نے نہیں بلکہ شہباز شریف خاندان کے انتہائی قابل اعتماد کیش افسران مسرور انور شعیب قمر نے نکلوایا ان دونوں کیش افسران کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے ان کیش افسران کی تحقیقات سے منی لانڈرنگ کے ایک مربوط نظام کا انکشاف ہوا ہے۔

یہ بات سامنے آئی ہے کہ کک بیک اور کمیشن کی رقوم شہباز شریف کی رہائش گاہ واقع 96ایچ ماڈل ٹائون میں سلیمان شہباز خود وصول کرتے تھے۔ وصولی کے بعد وہ یہ رقوم اپنے قابل اعتماد دوست اور فرنٹ مین سید محمد طاہر نقوی کے ذریعے شریف گروپ کے ہیڈ آفس واقع 55۔کے ماڈل ٹائو لاہرو کی کیش برانچ میں پہنچا دیتے تھے۔ ہیڈ آفس وصولی کے بعد کیش افسران رقوم کو گن کر فضل داد عباسی کے حوالے کر دیتے تھے جو ان کو لاکرز میں رکھ دیتا تھا۔

وزیراعلیٰ کے گھر سے شریف گروپ ہیڈ آفس رقوم کی منتقلی کے لئے سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی ذاتی بلٹ پروف لینڈ کروز استعمال ہوتی تھی اور ڈیوٹی پر مامور ایلیٹ پولیس پنجاب کے جوان رقوم کی حفاظت کے پش نظر ہمراہ ہوتے تھے۔ شریف گروپ ہیڈآفس میں رقوم کی وصولیش کے بعد ان رقوم کو مختلف حصوںمیں تقسیم کر کے سلیمان شہباز یا ان کے اکائونٹنٹ محمد عثمان کی ہدایات کے مطابق مختلف کمپنیوں کے بینک اکائونٹس میں منتقل کیا جاتا تھا۔

کھاتوں میں یہ ظاہر کیا جاتا تھا کہ یہ رقوم مختلف فرضی/جعلی پارٹیوں کے نام سے کاروباری لین دین مثلاً چینی، دودھ، فیڈ وغیرہ کی فروخت کی مد میں موصول ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ کیش برانچ میں وصول ہونے والی رقوم کو لاہور کے مختلف منی چینجرز کے ذریعے ہُنڈی حوالہ کے تحت بیرون ملک منتقل بھی کیا جاتا تھا۔ ان رقوم سے خاندان کے بیرون ملک کے دوروں کے اخراجات کے علاوہ پائونڈ، ڈالر اور دیگر فارن کرنسی بھی خریدی جاتی تھی۔

علاوہ ازیں ان رقوم کو بیرون ملک سے ٹی ٹی کے ذریعے اپنے یا اپنے فرنٹ مین/ملازمین کے اکائونٹ میں واپس منگوایا جاتا تھا اور اس کو سفید دھن کی صورت میں خاندان کے مقامی ظاہر شدہ کاروبار میں سرمایہ کاری کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ تحقیقات سے واضح ہوا ہے کہ جی این سی کے کاغذی ڈائریکٹر نثار احمد گِل اور علی احمد خان کے ذاتی اکائونٹ میں بھی بیرون ملک سے 172 ملین روپے بذریعہ ٹی ٹی منگوائے گئے اور بعدازاں اس رقم کو جی این سی کے اکائونٹ میں منتقل کر دیا گیا۔

اس کے علاوہ جی این سی کمپنی کے کھاتوں سے 350 ملین روپے سرمایہ کاری کی غرض سے گلف شوگر مل کے اکائونٹ میں منتقل کئے گئے اور چند روز بعد ہی کیس افسران مسرور انور اورشعیب قمر نے اس رقم کو گلف شوگر ملز سے کیش کی صورت میں نکلوا کر شریف گروپ اکائونٹنٹ کے حوالے کر دیا تاہم کھاتوں میں یہ جعلی سرمایہ کاری آج بھی موجود ہے۔ علاوہ ازیں کمرشل بینک سے جی این سی کے لئے 900 ملین روپے کا قرضہ حاصل کیا گیا۔

یہ قرضہ بھی انہی کیش افسران نے کیش کی صورت میں نکلوا کر اکائونٹنٹ محمد عثمان کے حوالے کر دیا۔ کمیشن اور رشوت ستانی سے حاصل ہونے والی رقوم کو انتہائی عیاری اور ایک مربوط طریقہ کارکے ذریعے کاغذی فرنٹ کمپنیوں کو استعمال کرتے ہوئے شہباز شریف خاندان کے کاروبار میں سینکڑوں چھوٹی چھوٹی جعلی ترسیلات کے ذریعے ضم کر دیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ سلیمان شہباز کے زیرنگرانی شہباز شریف خاندان کے ذاتی کاروبار دن دگنی رات چگنی ترقی کرتے رہے۔

نیب کو حاصل ہونے والے شواہد کے مطابق میاں محمد شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف بھی منی لانڈرنگ کے ذریعے کالے دھن کو سفید کرنے کے اس نظام سے براہ راست مستفید ہو رہے تھے۔ کیش افسران مسرور انور اور شعیب قمر نہ صرف جی این سی سے رقوم نکلواتے تھے بلکہ اکثر اوقات ان رقوم کو میاںشہباز شریف اور حمزہ شہباز کے ذاتی اکائونٹس میں بھی منتقل کرتے تھے۔

اپریل 2017ء میں مسرور انورنے 16 ملین روپے شہباز شریف کے نیو مسلم ٹائون لاہور میں واقع نجی بینک اکائونٹ میں منتقل کئے۔ اس رقم کو شہباز شریف نے چاندنی چوک راولپنڈی کے ایک پراپرٹی ڈیلر امیر عظمت راجہ کے اکائونٹ میں منتقل کیا اور اس رقم کے ذریعے اپنی زوجہ تہمینہ درانی شریف کے لئے مارگلہ کی پہاڑیوں میں واقع وسپرنگ پائزن ریزارٹ میں ویلا نمبر 19 اور کاٹیج نمبر 21 خریدا۔

اسی طرح شعیب قمر نے اکتوبر 2016ء میں حمزہ شہباز کے نیو مسلم ٹائون لاہور میں واقع نجی بینک میں اکائونٹ میں پچیس ملین روپے جمع کرائے۔ اس رقم کے ذریعے حمزہ شہباز نے سابقہ ایم پی اے وسیم قادر کے نام پے آرڈر بنانے کے لئے استعمال کیا اور ان سے کے بلاک جوہر ٹائون لاہور میں پلاٹ نمبر 61-A ، 62 اور 63 اپنے نام پر خریدے۔ یہ ایسے ان مٹ اور ناقابل تردید شواہد ہیں جو ثابت کریں کہ یہ نہ صرف سلیمان شہباز منی لانڈرنگ کے اس نیٹ ورک کی براہ راست نگرانی کر رہا تھا بلکہ اسے اپنے والد شہباز شریف کی آشیرباد اور مکمل سرپرستی حاصل تھی۔

جنہوںنے نہ صرف سلیمان شہباز کے دوست/فرنٹ مینوں کو وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر میں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر تعینات کیا ہوا تھا اور اپنے کیمپ آفس میں واقع 96ایچ ماڈل ٹائون لاہور اور اپنی ذاتی لینڈ کروزر کو کمیشن کی رقوم کی وصولی اور ترسیل کے لئے فراہم کیا ہوا تھا بلکہ ان رقوم کو ٹی ٹی اور فرنٹ کمپنیوں میں ترسیلات کے بعد اپنے ذاتی استعمال میں لانے کے علاوہ اپنے بیرون ملک اخراجات اور مقامی کاروبار میں بڑھاوے کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ ان تمام حقائق کے بارے ٹ*میں نیب کو ان مٹ اور ناقابل تردید شواہد حاصل ہو چکے ہیں۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں