Episode 3 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 3 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

الفاظ
ہر خیال اپنے مخصوص پیرہن میں آتا ہے۔ یہ پیرہن الفاظ سے بنتا ہے۔ خیال نازل فرمانے والے الفاظ نازل فرماتے ہیں۔ الفاظ ہی کے دم سے انسان کو جانوروں سے زیادہ ممتاز بنایا گیا۔ انسان اشرف ہے ،اس لئے کہ وہ ناطق ہے۔ انسان کو بیان کی دولت سے نوازا گیا اور بیان الفاظ کی ترتیب کا نام ہے۔ حسنِ ترتیب الفاظ کی اپنی صفت ہے۔ انداز بیاں بے شک انسان کا ہی ہے لیکن یہ خوبی دراصل الفاظ کی ساخت میں پنہاں ہوتی ہے۔
موزوں الفاظ کا انتخاب ہی انسان کو صاحب طرز بتاتا ہے۔ سنگ تراش کا فن یہ ہے کہ وہ پتھر میں چھپے ہوئے نقش کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ کام بڑا کام ہے۔ ہر آدمی کے بس کا نہیں… اسی طرح الفاظ سے مضمون اور مضامین سے الفاظ کے رستوں کا علم ہی انسان کو مصنف بناتا ہے۔ الفاظ کے بغیر حسن خیال بس جلوہ ہے ، صرف جلوہ… ایک گونگے کے خوبصورت خواب کی طرح… اور خیال… بغیر الفاظ صرف ایک ڈکشنری ہیں… ایک ڈھیر ہے ایسی اینٹوں کا جنہیں کوئی عمارت بننا نصیب نہیں ہوا۔

(جاری ہے)

دنیا میں اصل قوت الفاظ کی ہے۔ اس کائنات کی ابتداء ایک لفظ سے ہوئی… ایک مقدس لفظ… ایک امر،صاحب امر کا ”کن“ کے لفظ میں ایک مکمل کائنات ،ایک مکمل نظام ،ایک مکمل داستان پنہاں تھی… یہ ایک ایسا لفظ تھا کہ جس کی اطاعت میں آج تک ہر شے عمل پیرا ہے۔ یہ لفظ کا عجب کرشمہ تھا کہ نہ ہونے سے ہونا ہو گیا… عدم سے وجود کا سفر ”کن“سے شروع ہوا اور وجود سے عدم تک سفر بھی اسی لفظ کی تاثیر کا حصہ ہی ہے۔
الفاظ کی طاقت قدم قدم پر عیاں ہوتی ہے۔ قوموں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کیلئے الفاظ کا تازیانہ ہی کافی ہے۔ قوم و ملی شعراء کا کمال الفاظ کے دم سے ہے۔ الفاظ خون میں حرکت پیدا کر دیتے ہیں۔ غلامی آزادی میں بدل جاتی ہے۔ انسان کے عمل کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ کسی معاشرے میں استعمال ہونے والے الفاظ کا بغور مطالعہ کرنے سے اس معاشرے کا اخلاقی معیار واضح ہو جاتا ہے۔
ترقی کرنے والے معاشروں میں اور طرح کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
الفاظ ہی امید کے چراغ روشن کرتے ہیں اور الفاظ ہی مایوسی کی تاریکیاں پیدا کرتے ہیں۔ الفاظ کی خاص ترتیب حدی خوانی کا کام کرتی ہے۔ ہمارے ترانے ہماری کیفیات کو ایک نہج کی طرف مائل کرتے ہیں۔ دشمنوں کے خلاف صف آراء ہونے کا عمل الفاظ کی بدولت ممکن ہے۔
محبت ایک جذبہ ہے ،ایک خواہش ہے ،کسی کے قریب ہونے کی۔
محبت خاموش بھی ہو سکتی ہے لیکن الفاظ محبت کو کچھ اور ہی چاشنی اور رنگ عطا کر دیتے ہیں۔ محبت کرنا اپنی جگہ لیکن محبت کی تاثیر میں ڈوبا ہوا شعر کچھ اور ہی جلوہ ہے۔ محبت اتنی قابل محبت نہیں ہوتی جتنا اسے الفاظ بنا دیتے ہیں۔
ہمارے رشتے ،ہماری چاہتیں ،ہماری نفرتیں اس لئے دیر پا ہیں کہ ہم انہیں الفاظ میں ریکارڈ کر دیتے ہیں۔ کسی کو دوست کہہ دینے کے بعد ہم اس کی جفائے وفا نما کو برداشت کرتے ہیں۔
وہ دوستی کا جذبہ اندر سے کئی دفعہ زخمی ہوتا ہے لیکن ہم جذبوں کے سرد ہونے کے باوجود لفظ دوستی کو نبھاتے ہیں۔ الفاظ ہمارے تعلقات کو استقامت بخشتے ہیں۔ ہم رشتوں کو اس لئے بھی قائم رکھتے ہیں کہ انہیں رشتہ کہہ دیا جاچکا ہے۔ کہہ دینا ہی قیام ہے۔ کلمہ پڑھنے سے مسلمان ہونے والا زندگی بھر مسلمان رہتا ہے۔ اگر اسلام کا مفہوم سمجھ میں نہ بھی آئے تو بھی مسلمان ہی رہتا ہے۔
کلمہ پڑھ لینے سے ہی مہرثبات لگ جاتی ہے۔
الفاظ سے ہی قرآن ہے۔ خدا کے مقدس الفاظ بندوں کے نام ،روح القدس کا لایا ہوا پیغام پیغمبرﷺ کے ذریعے سے تمام بنی آدم کیلئے۔ ان الفاظ کی ترتیب اتنی مستقل کہ اس کی حفاظت اللہ نے اپنے ذمہ لگا رکھی ہے۔ زیر ،زبر ،نقطہ تک نہیں تبدیل کیا جا سکتا… قرآن کے الفاظ قرآن کے علاوہ استعمال ہوں تو قرآن نہیں… الفاظ خدا کے ہوں تو قرآن ہے۔
نبیﷺ کے الفاظ حدیث ہیں۔ بزرگان دین کے الفاظ ملفوظات ہیں۔ داناؤں کے الفاظ اقوال ہیں۔ جتنی مقدس زبان سے ادا ہوں گے اتنے ہی الفاظ مقدس ہوں گے ،اتنے ہی موٴثر ہوں گے۔
ہم الفاظ کی دنیا میں رہتے ہیں۔ الفاظ کے حصار میں رہتے ہیں۔ الفاظ ہمارا کردار ہیں۔ الفاظ ہمارا ماحول ہیں اور کبھی کبھی تو الفاظ ہماری عاقبت ہیں۔ الفاظ کانوں کے راستے دل پر اثر کرتے ہیں اور دل پر اثر کے بعد اعضا و جوارح پر عمل کا حکم نازل ہوتا ہے اور یوں انسان کا کردار بنتا رہتا ہے۔
اچھے الفاظ پر کچھ خرچ نہیں ہوتا ،لیکن اچھے الفاظ سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ الفاظ ہی انسان کو پسندیدہ یا ناپسندیدہ بناتے رہتے ہیں۔ الفاظ خوشبو کی طرح ماحول کو معطر کرتے ہیں۔
ہر سماج اور ہر گروہ کے الفاظ الگ الگ ترتیب رکھتے ہیں۔ آپ کسی کے الفاظ یا گفتگو سن کر یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کس پیشے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بازار میں بیٹھنے والے بازاری زبان استعمال کرتے ہیں۔
دارالعلوم کے لوگ اور ہی زبان استعمال کرتے ہیں۔ علماء کی زبان اور ہے۔ حکما کی زبان اور ہے۔ اسی طرح جہلا کی زبان اور ہے۔ فلمی ماحول کے الفاظ اور ہیں۔ ڈرامے کے اور ،نثر کے اور ،اور شعر کے اور… شعر کی دنیا میں الفاظ کی ایک بندش بس معنی کے پرت کھولتی چلی جاتی ہے۔ سامعین پر ایک کیفیت طاری کر دینا شعر کا اعجاز ہے۔ دل سے نکلی ہوئی بات دلوں میں ایسے داخل ہوتی ہے کہ سامع کہہ اٹھتا ہے کہ ”میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔
“بولنے والے کا سوز الفاظ میں سوز پیدا کر دیتا ہے۔ درد سے گایا ہوا کلام محفل میں عجب سماں پیدا کر دیتا ہے۔ الفاظ کے معنی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ گانے والے کا سوز قلوب کو زندہ کر دیتا ہے۔
ایک دفعہ عظیم پریم راگی نے اپنی ایک نجی محفل میں ایک واقعہ بیان کیا۔ کہنے لگے کہ ایک رات ایک محفل میں انہوں نے بہت گایا۔ دیر تک محفل بپا رہی۔ سامعین محظوظ ہوئے۔
بہت ہن برسا۔ لیکن رنگ نہ برسا۔ بس اندر ہی اندر وہ کچھ پریشان ہوئے۔ رات گہری ہو چکی تھی۔ انہوں نے اپنے گرو کو یاد کیا۔ دل کا چراغ روشن کرکے کچھ الفاظ اپنے پاس سے مرتب کرکے الاپنا شروع کیا۔ الفاظ تھے۔
سیاں سے سیاں ملا جا رہے بالم
بالم سے بالم ملا جا رے سیاں
بس کیا تھا ،دل کے چراغ نے دلوں کے چراغ روشن کر دیئے۔ محفل میں کیفیات کا عجب عالم پیدا ہو گیا۔
بے خودی ،محبت اور سرشاری کا عالم تھا۔ گانے والے کا درد بیدار ہوا کہ سب کا درد بیدار ہو گیا۔
غرضیکہ الفاظ میں جادو بھرنے والی شے ادا کرنے والے کا جذبہ ہے۔ بولنے والے کا لہجہ بھی الفاظ کے حسن کو متاثر کرتا رہتا ہے۔ میٹھے بول کو کرخت لہجہ مل جائے تو بول میٹھا نہیں رہتا۔ مولانا روم نے ایک کہانی بیان فرمائی ہے۔ ایک دفعہ صحرا میں دو قافلے قریب قریب آکر ٹھہرے۔
ایک قافلہ مسلمانوں کا تھا دوسرا یہودیوں کا۔ صبح کے وقت مسلمانوں نے فجر کی اذان کہی۔ نماز ادا کی۔ اتنے میں یہودیوں کے کیمپ کی طرف سے ایک آدمی ایک تھال میں کچھ تحفے تحائف لے کر مسلمانوں کے کیمپ میں داخل ہوا اور امیر قافلہ سے ملاقات کی تمنا کی۔ ملاقات ہوئی تو آنے والے نے کہا ”یہ حقیر سا تحفہ ہمارے سالار قافلہ نے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے“مسلمان امیر نے کہا ”آخر کس لئے۔
“آنے والا بولا ”جناب! آج ہمارے سردار کا ایک دیرینہ مسئلہ حل ہو گیا۔ آپ لوگوں کی بدولت۔ ہمارے امیر کی ایک بیٹی اسلام قبول کر چکی تھی اور وہ کسی قیمت پر اسلام کو ترک نہ کرتی تھی۔ ہمارے قافلہ سالار نے بڑی کوشش کی لیکن وہ نہ مانی۔ آخر آج صبح آپ کے موٴذن نے اذان کہی۔ وہ کچھ اتنے کرخت لہجے میں تھی کہ ہمارے سردار کی بیٹی اپنے پرانے دین پر واپس آ گئی۔
“نتیجہ یہ ہے کہ موٴذن اور مبلغ کی کو خوش الحان ہونا چاہئے۔ اچھی دعوت کو اچھے انداز سے پیش کرنا ہی اچھی بات ہے۔ رسم اذان کو روح بلالی کی کتنی ضرورت ہے ،اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
علاقائی الفاظ علاقائی تہذیب و تمدن کا آئینہ ہیں۔ کسی انسان کے ذخیرہٴ الفاظ سے یہ معلوم کرنا آسان ہے کہ وہ آدمی کونسے علاقے کا رہنے والا ہے اور کونسے پیشے سے تعلق رکھتا ہے۔
تشبیہہ اور استعارے کے الفاظ بھی علاقے اور زمانے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ صحرائی لوگوں کے الفاظ اور ہیں۔ کوہستانی لوگوں کے اور۔ میدانی لوگوں کی زبان مختلف ہوتی ہے۔
بہرحال الفاظ کی حرمت بولنے والے کے انداز اور لہجے کے دم سے ہے۔ مقدس الفاظ کو منزہ زبان میسر نہ ہو تو لفظ اپنی تاثیر کھو بیٹھتا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ اگر اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو وہ بھی خشیت اللہ سے لرزنے لگ جاتا۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ قرآن پڑھا جاتا ہے اور سننے والے ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ صادق کلام کیلئے صادق زبان چاہئے۔
ہم نے قوم ہونے کی حیثیت سے الفاظ کے استعمال پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم بے جہت و بے سمت الفاظ کے سیلاب میں ڈوبے جا رہے ہیں۔ ہر روز لاکھوں الفاظ اخباروں میں چھپ رہے ہیں۔ کالم کے کالم چھپ رہے ہیں لیکن میٹھے بول ختم ہو رہے ہیں۔
”ازدل خیزد بردل ریزد“والے الفاظ نہیں آتے۔ دلوں کو زخمی کرنے والے الفاظ عام ہیں۔ زخموں کے مرہم کہاں ہیں۔ کرامتیں بننے والے الفاظ کہاں غائب ہو گئے۔ انسان کو انسان کے قریب لانے والے الفاظ گم ہو گئے کیا؟ گنج شکر ایک میٹھی زبان کی تاثیر کو بھی کہا جا سکتا ہے۔ آج نہ جانے کیوں لوگوں کے پاس شکریہ ادا کرنے کیلئے نہ وقت ہے نہ الفاظ۔ اپنی کوتاہی پر معذرت کرنے کی نہ توفیق ہے نہ جرأت۔
آج کسی سیاسی اجتماع میں بولے جانے والے الفاظ کو غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم لوگ کہاں سے چلے تھے اور کہاں آ گئے۔
تلخ الفاظ معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں۔ میٹھا بول زندہ کرنا چاہئے۔ زندہ رہو اور زندہ رہنے دو کے اصول کو اپنایا جائے تو ہمارا انداز کلام یکسر بدل سا جائے۔ لوگ اپنی زندگی میں مطمئن ہو جائیں۔ میٹھے بول سننے سے زبان میٹھی ہو جاتی ہے اور یوں مٹھاس سے مٹھاس پیدا ہوتی رہے گی۔
جب سے انسان کا احترام کم ہوا الفاظ کا احترام بھی کم ہو گیا۔ الفاظ کے انتخاب میں ذرا بھی احتیاط سے کام نہیں لیا جاتا اور نتیجہ یہ کہ ہر دل زخمی ،ہر انسان آزردہ۔ ہماری زبان تلوار کی کاٹ سے کم نہیں۔
بعض اوقات صداقت کی زبان بھی اتنی تلخ ہوتی ہے کہ بس خدا کی پناہ۔ اگر کسی انسان کی ایک آنکھ کام نہ کرتی ہو تو یہ ضروری نہیں کہ اس کے منہ پر ہی اسے کانا کہہ دیا جائے۔
ہر چند کہ یہ صداقت ہے لیکن یہ ایک بدتمیزی کا مظاہرہ ہے۔ صداقت کا غیر محتاط اظہار بھی باعث پریشانی ہو سکتا ہے۔
ایک دفعہ ایک بادشاہ نے ایک دست شناس و ستارہ شناس انسان کو بلایا۔ اس سے اپنا احوال پوچھا۔ منجم نے حساب لگایا۔ زائچہ بنایا اور بادشاہ کو اطلاع دی ”جہاں پناہ! آپ کے سب عزیز آپ کے سامنے مر جائیں گے“… بادشاہ اتنی بری خبر پر بڑا پریشان ہوا۔
اسے غصہ آ گیا کہ منجم نے کیا خبر دی ہے۔ اس نے منجم کو گرفتار کرا دیا۔ سلطنت میں منا دی کرا دی گئی کہ کوئی اور منجم بادشاہ کیلئے حساب لگائے۔ ایک آدمی حاضر ہوا۔ اس نے زائچہ بنایا ،حساب لگایا اور کہا ”جہاں پناہ!آپ کی عمر طویل ہے۔ آپ اپنے سب عزیزوں سے زیادہ عمر پائیں گے۔“بادشاہ خوش ہو گیا۔ بولا ”مانگ کیا مانگتا ہے۔“منجم نے کہا ”جہاں پناہ! بس میرے استاد کو رہا کر دیں۔
“سلطان نے وضاحت چاہی تو منجم نے کہا ”گرفتار منجم میرا استاد ہے۔ اس نے بھی وہی کچھ بتایا جو میں نے بتایا لیکن وہ الفاظ کے انتخاب میں محتاط نہ ہو سکا۔ آپ عزیزوں سے زیادہ عمر پائیں یا آپ کے عزیز آپ سے پہلے مر جائیں ،بات ایک ہی ہے لیکن ادائیگی مختلف ہے۔“اور یہی چیز اہم ہے کہ ہم الفاظ کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔
الفاظ بھی خاندان رکھتے ہیں۔
قصیدے کے الفاظ اور ہوتے ہیں اور مرثیے کے اور… تنقید کے اور ،توصیف کے اور… رزمیہ اور ،عشقیہ اور… غزل کے الفاظ اور ہیں ،مثنوی کے اور… کیا یہ سمجھنے کی ضرورت نہیں کہ شرافت کے الفاظ کون سے ہیں… بدمزاج ہونا اتنا خطرناک نہیں جتنا بدتمیز ہو جانا کیونکہ بدتمیز آدمی الفاظ کے غلط استعمال کا مجرم بھی ہے۔
الفاظ کے صحیح استعمال کی توفیق ،نعمت ہے۔
یہ نعمت بھی کم انسانوں کو نصیب ہوتی ہے۔ الفاظ سے ماحول کو خوشگوار بنانے کا کام لیا جائے تو بڑی بات ہے۔ خالی الفاظ نگلنے اور الفاظ اگلنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ الفاظ سے ماحول روشن کیا جائے۔ الفاظ سے دلوں کو خوش کیا جائے۔ الفاظ سے تعمیر ملت کے عظیم کام میں شامل ہونے کیلئے لوگوں کو آمادہ کیا جائے۔ الفاظ حقیقت ہیں… الفاظ امانت ہیں… الفاظ دوست ہیں… الفاظ طاقت ہیں… انہیں ضائع نہ یا جائے۔ انہیں رائیگاں نہ ہونے دیا جائے۔

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif