Episode 4 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 4 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

خلق عظیم
حکمائے عالم نے سب سے بڑے اخلاق کے بارے میں دنیا کو جو معیار اخلاقیات دیا ،وہ سب انسانوں کا تصور ہے اور انسانی تصور میں نفس کا ہونا بعید از قیاس نہیں ہو سکتا۔ اس کے برعکس جو معیار اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ،وہ ہر خامی سے آزاد ہے۔ خالق ہی بہتر جانتا ہے کہ مخلوق کیلئے کون سا معیار اخلاق بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کی ذات میں یہ فیصلہ فرما دیا کہ لقد کان لکم فی رسول الل اسوة حسنة۔
اس کے بعد اخلاق کا بہترین نمونہ حضورﷺ کی ذات گرامی ہے۔ تکمیل انسانیت کا نقطہٴ عروج حضورﷺ کی ذات اقدس ہے۔ تکمیل ذات میں تکمیل اخلاق کا دعویٰ اپنی تکمیل کے ساتھ موجود ہے۔ ذات کامل ہو تو صفت مکمل ہو جاتی ہے۔ ذات اور صفات کا رشتہ عجب ہے۔ کبھی صفت ذات کی پہچان ہے اور کبھی ذات صفت کی۔

(جاری ہے)

مثلاً اگر صفت صداقت ہے تو ذات صادق ہی کہلائے گی۔

لیکن اگر ذات حضور اکرمﷺ کی ہو تو آپ ایسے صادق ہیں کہ آپ جو بھی فرمائیں ،وہی صداقت ہے۔
آپﷺ کی ذات گرامی اتنی مکمل ہے کہ آپﷺ کے دم سے ہی صفات کی تکمیل ہوئی ،صفات کو مرتبہ ملا ،صفات کو تقدس ملا ،پہچان ملی ،عروج ملا۔ ایک عام آدمی سچ بولے تو ہم اس سچ کی تحقیق کر سکتے ہیں عقل کے ذریعے سے ،مشاہدے کے ذریعے سے۔ لیکن ایک پیغمبر اور خاص طور پر حضور اکرمﷺ کی صداقت ہماری تحقیق سے بلند و ماورا ہے۔
حضور اکرمﷺ نے زندگی کے معاملات میں جو بھی ارشاد فرمایا ،وہ صداقت ہے کہ ان کا مشاہدہ موجود تھا۔ لیکن کمال صفت تو یہ ہے کہ آپﷺ نے اللہ کریم کے بارے میں اور مابعد کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا ،وہ ہماری تحقیق میں نہ آ سکنے کے باوجود صداقت ہے ،بلکہ صداقت مطلق ہے اور کمال صفت کا یہ اعجاز ہے کہ ہم آپﷺ کی ہر بات کو تحقیق کے بغیر تسلیم کرنے کو اپنا ایمان بلکہ سرمایہٴ ایمان سمجھتے ہیں۔
آپﷺ سے پہلے پیغمبروں میں رسالت کا رنگ مخصوص اور جزوی تھا۔ آپﷺ کی شخصیت میں رسالت اپنے انتہائی رنگ سے ایسی مکمل ہوئی کہ اس کے بعد کسی رسول کی ضرورت ہی نہیں۔ یعنی آپﷺ نے اخلاق کو اس درجہ مکمل فرمایا کہ اس کے بعد کسی اور تفصیل کی ضرورت ہی نہیں۔ آپﷺ نے انفرادی اور اجتماعی اخلاق میں وہ انقلاب پیدا فرمایا کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے۔
حضور اکرمﷺ کی تعلیم کا نتیجہ تاریخ نے دیکھا کہ آقا پیدل چل رہا ہے اور غلام سوار ہے۔ آپﷺ کے دم سے گویا اخلاق اور صفات کو سند عطا ہوئی۔ آپﷺ کے اخلاق کی یہ تاثیر ہے کہ آپﷺ جب ارشاد فرماتے تو سامعین سرجھکا کر اور خاموش ہو کر یوں سنتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپﷺ کا حسن اخلاق یہ ہے کہ آپﷺ نے جس کو دفعتاً دیکھا ،وہ مرعوب ہو گیا۔
جو آپﷺ سے آشنا ہوا ،وہ محبت اور ادب کرنے لگ گیا۔ آپﷺ نے اخلاق کو تکمیل کا وہ درجہ عطا فرمایا کہ ایک طرف تو اللہ اور اللہ کے فرشتے آپﷺ پر درود بھیجتے ہیں اور دوسری طرف آپﷺ کے جانثار آپﷺ کی خدمت میں آج تک درود و سلام اور نعت کا ہدیہ پیش کرتے آ رہے ہیں۔ اپنے تو اپنے ،بیگانے بھی آپﷺ کو عقیدت کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ آج بھی چودہ سو سال کی دوری کے باوجود آپﷺ دلوں کے قریب ہیں۔
آپﷺ کی ذات اقدس میں جہاں اللہ کریم نے انسانیت کی تکمیل فرمائی ،نبوت کی تکمیل فرمائی ،وہاں اخلاق جلیلہ کی تکمیل بھی فرما دی۔ آپﷺ کا کردار ،کردار کی انتہا ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ،ارشاد کی انتہا ہے اور آپﷺ پر نازل ہونے والی کتاب آسمانی کتب کا حرف آخر۔ آپﷺ کے اخلاق عالم کا یہ مقام ہے کہ اسے صداقت نبوت کیلئے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا۔
سورہٴ یونس میں ارشاد ہے کہ ”میں نبوت سے پہلے تم لوگوں میں ایک عمر بسر کر چکا ہوں ،کیا تم سمجھتے نہیں۔“گویا اعلان نبوت سے پہلے آپﷺ کی چالیس برس کی تمام عمر بھی مرقعٴ اخلاق ہے۔
نبوت اخلاق کا نتیجہ نہیں ،اخلاق نبوت کی عطا ہے اور نبوت اور پھر آپﷺ کی نبوت ،کمال عطائے الٰہی ہے۔ جب اللہ کریم اپنے حبیبﷺ کو اخلاق کا معیار بنا کر پیش کرے تو وہ اخلاق کتنا مکمل ہو گا ،اس کا اندازہ مشکل نہیں۔
دراصل اخلاق ایک ایسی راہ عمل ہے ،جس پر چلنے والے انسان کا کردار مخلوق خدا کیلئے بے ضرر اور منفعت بخش ہوتا ہے۔ انسانی سوچ اخلاق کا جو معیار دیتی ہے ،وہ قابل تاثیر ہو سکتا ہے لیکن جب پیغمبر اخلاق کا معیار دے تو وہ معیار خدا کی طرف سے ہوتا ہے اور خالق بہتر جانتا ہے کہ مخلوق کیلئے کون سا کردار بہتر ہے۔
حضور اکرمﷺ نے اخلاق کے بیان کے بارے میں جہاں تاریخ گواہ ہے ،وہاں قرآن بھی شاہد ہے کہ ”اے پیغمبرﷺ! تم اعلیٰ اخلاق پیدا ہوئے۔
“حضورﷺ کا اپنا ارشاد تکمیل اخلاق کے ضمن میں ایک مینارہٴ نور کی طرح درخشاں ہے۔ ارشاد ہے ”میں حسن اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہوں۔“اور یہ کہ ”میں تو اسی لئے بھیجا گیا ہوں کہ مکارم اخلاق کا معاملہ تکمیل تک پہنچاؤں۔“شاید ہی کوئی ایسی اخلاقی صفت ہے جس کے اپنانے کی آپﷺ نے تلقین فرمائی ہو ،جس پر آپﷺ نے خود عمل کرکے نہ دکھایا ہو۔
آپ نے زندگی کو اخلاق کی تفصیل اور تکمیل بنا دیا۔
آپﷺ محافظ اخلاق ہیں ،مفسر اخلاق ہیں ،مظہر اخلاق ہیں ،منبع اخلاق ہیں ،مجسم اخلاق ہیں ،بلکہ مکمل اخلاق ہیں۔ آپﷺ کی اخلاقی رفعتوں کا بیان دراصل آپﷺ کی پوری سیرت کا بیان ہے۔ اخلاق کی جزئیات میں آپﷺ کے ہاں استقامت عمل ہے ،حسن سلوک ہے ،حسن معاملہ ہے ،عدل و انصاف ہے ،جو دوسخا ہے ،ایثار ہے ،مہمان نوازی ہے ،سادگی اور بے تکلفی ہے ،شرم و حیا ہے ،عزم و استقلال ہے ،شجاعت ہے ،صداقت ،امانت ہے ،ایفائے عہد ہے ،زہد و تقویٰ اور قناعت ہے ،عفو و رحم ہے ،کفار اور مشرکین سے حسن سلوک ہے ،غریبوں کے ساتھ محبت ہے ،حیوانات اور پرندوں پر رحم ہے ،رحمت و محبت عام ہے ،رقیق القلبی ہے ،عبادت و تعزیت ہے ،اولاد سے محبت ہے ،غرضیکہ حسنت جمیع خصالہ۔
آپﷺ کے بارے میں کیا لب کشائی کی جا سکتی ہے۔ آپﷺ کے اخلاق اور اوصاف کا ذکر احادیث اور سیرت کی کتابوں میں بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے۔ آپﷺ کی زندگی کا ایک ایک وقعہ اخلاق و اوصاف کی تفسیر نظر آتا ہے۔ آپﷺ کے اخلاق میں سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ آپﷺ نے جس اخلاق کا پرچار کیا ،اس پر مکمل طور پر عمل کرکے بھی دکھایا۔ آپﷺ کی ذات اقدس تمام انبیائے کرام اور مصلحین عالم میں واضح طور پر اس لئے ممتاز ہے کہ آپﷺ کا عمل آپﷺ کے علم کا شاہد ہے۔
حدیث نبوی اور سنت نبوی میں تطابق ہے۔
آپﷺ کا کمال اخلاق یہ ہے کہ وہ دور جس میں صداقت ،دیانت اور امانت کے چراغ گل ہو چکے تھے ،آپﷺ نے اپنے پاکیزہ کردار سے اس دور میں ”الصادق“اور ”الامین“کے القاب حاصل کئے اور وہ بھی مخالفین سے۔ آپﷺ کے قریب رہنے والے سبھی لوگ یک زبان یہ کہتے ہیں کہ آپﷺ نہایت نرم مزاج ،خوش اخلاق اور نیک سیرت تھے۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپﷺ نے کبھی برائی کے بدلے میں برائی سے کام نہیں لیا۔ آپﷺ ہمیشہ در گزر فرماتے ،معاف فرما دیتے۔ آپﷺ نے کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا۔ آپﷺ نے کبھی کسی کو بات کرنے کے دوران ٹوکا نہیں۔ آپﷺ خندہ جبیں ،نرم گفتار اور مہربان تھے۔
آپﷺ پر جب پہلی بار وحی نازل ہوئی تو آپﷺ نزول وحی کی شدت سے گھبرائے اور آپﷺ پر لرزہ طاری ہو گیا۔
آپﷺ نے گھبرا کر رفیقہٴ حیات سے اپنی کیفیت کا ذکر فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ حضرت خدیجہ نے آپﷺ کو تسلی دی اور آپﷺ کے اخلاق کے بارے میں یہ کہا ”ہرگز نہیں خدا کی قسم! خدا آپ کو کبھی اندوہ گیں نہ کرے گا۔ آپ عزیزوں اور رشتے داروں سے حسن سلوک کرتے ہیں۔ ناتواں ،بے کسوں اور غریبوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا ،اسے دیتے ہیں۔
مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں ،مصائب میں حق کے معاون اور مددگار ہیں اور آپﷺ میں وہ تمام صفات ہیں کہ آپﷺ صادق القول ہیں۔“
آپﷺ کے قبل نبوت کے اخلاق کا گواہ حضرت خدیجہ سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے۔ آپﷺ داعی حق ہونے کی حیثیت سے اپنی تعلیم کا افضل و اعلیٰ نمونہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انسانی زندگی کیلئے جس انسانی اخلاق کی تعلیم فرمائی ،اس کا عملی مظہر سرکارﷺ کی ذات گرامی ہے۔
حضور اکرمﷺ کو اس بات کی پوری آگہی تھی کہ آپﷺ کو دنیا کیلئے معلم اخلاق بنا کر بھیجا گیا ہے۔ آپﷺ کے اعمال اور آپ کے اقوال اس بات کا مکمل ثبوت یں۔ اخلاق کی تکمیل آپﷺ کے دم سے ہوئی۔
آپﷺ کے چند ارشادات ملاحظہ ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کامل انسان اور کامل ایمان اس مومن کا ہے ،جس کا اخلاق اچھا ہے۔ اعمال کے ترازو میں حسن خلق سے بھاری کوئی نیکی نہیں۔
انسان حسن اخلاق سے عبادت کا درجہ حاصل کر سکتا ہے۔ تم میں سب سے اچھا وہ ہے ،جس کے اخلاق اچھے ہیں۔ حضور اقدس سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا کہ ”کون سی نیکی بہتر ہے؟“آپﷺ نے فرمایا کہ ”کھانا کھلانا اور سب کو سلام کہنا یعنی سب کو سلامتی کی دعا کا پیغام پہنچانا۔“
حضرت ابوذر غفاری نے ایک مرتبہ اپنے کسی غلام کو برا بھلا کہا۔ حضور اکرمﷺ نے سن لیا۔
فرمایا ”ابو ذر ابھی تم میں جہالت باقی ہے ،غلام تمہارے بھائی ہیں ،اللہ نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے ،جس کا بھائی ماتحت ہو ،اسے چاہئے کہ بھائی کو ویسا ہی کھانا کھلائے جیسا آپ کھائے ،ویسا ہی پہنائے جیسا آپ پہنے ،بھائی سے ایسا کام نہ لے جو اس سے نہ ہو سکے ،کوئی سخت کام ہو تو اس کی مدد کرے۔“
حضورﷺ کے اخلاق عالی میں حسن سلوک کو بڑی اہمیت ہے۔
آپﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا ”قسم ہے وہ ایمان نہیں لایا ،خدا کی قسم وہ ایمان نہیں لایا ،خدا کی قسم وہ ایمان نہیں لایا۔“صحابہ نے عرض کیا ”یا رسول اللہ! کون؟“آپﷺ نے فرمایا ”جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہیں۔“
آپﷺ کی زندگی کے واقعات اور آپﷺ کے ارشادات میں ایسے ہزار ہا پہلو سامنے آتے ہیں ،جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ حسن اخلاق کی تکمیل کیلئے تشریف لائے۔
کون سی ایسی خوبی ہے جو آپﷺ کی ذات میں موجود نہ ہو۔ آپﷺ نرم مزاج تھے ،خوش گفتار تھے ،متین تھے ،حلیم الطبع تھے۔ کسی کی دل آزاری نہ فرماتے۔ آپﷺ کی مجلس میں نئے آنے والوں کو جگہ نہ ملتی تو آپﷺ اپنی ردائے مبارک بچھا دیتے۔ بچوں پر تو آپﷺ اس حد تک شفیق تھے کہ مشرکوں کے بچوں پر بھی رحم کرنے کا آپﷺ نے حکم فرمایا۔ غلاموں پر آپﷺ کی شفقت کا یہ عالم تو اس بات سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ آج بھی آپﷺ کی غلامی ہی سرفرازی کا ذریعہ ہے۔
آپﷺ نے ہمیشہ غریبوں اور بے کسوں سے عملی ہمدردی کا اظہار فرمایا۔ آپﷺ نے دنیا میں مساوات کا اعلیٰ ترین نمونہ قائم کیا۔ فتح مکہ کے بعد آپﷺ کا ارشاد ہے ”اے گروہ قریش! اللہ نے جہالت کا غرور اور نسب کا افتخار مٹا دیا۔ تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے۔“اور خلق کا یہ عالم ہے کہ آپﷺ کے پاس خلق عظیم ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ ”ہر دین کا خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔
آپﷺ کے پاس جو صفت بھی موجود ہے ،دائم ہے۔ آپﷺ دائم الرضا ہیں ،دائم الزہد ہیں ،دائم الشوق ہیں ،دائم الصبر ہیں ،دائم الصدق ہیں اور دائم الامر ہیں ،دائم الفکر ہیں۔ غرضیکہ آپﷺ ہمہ وصفت موصوف ہیں۔ حسن آپﷺ کی صفت ہے اور صفت آپ کا حسن۔ آپﷺ ہمیشہ ہشاش بشاش رہے اور اللہ تعالیٰ کے خوف اور اللہ کی محبت نے آپﷺ کو دنیا کے خوف اور محبت سے آزاد کر دیا۔
حضرت سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ سے پوچھا کہ ”اے ایمان والوں کی ماں! حضور اکرمﷺ کے اخلاق کے بارے میں کچھ بتائیں“تو آپ نے فرمایا کہ ”تم نے قرآن نہیں پڑھا۔“انہوں نے کہا ”قرآن تو پڑھا ہے“حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ”حضور اکرمﷺ کا خلق قرآن تھا۔“یعنی آپﷺ قرآن مجسم تھے۔ آپﷺ کا اخلاق ہی منشائے قرآن کے عین مطابق ہے۔
قرآن کو پڑھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قرآن جس اخلاق کی تعلیم دے رہا ہے ،وہ حضورﷺ ہی کا اخلاق ہے اور حضورﷺ کی زندگی اور آپﷺ کے اخلاق کو دیکھیں تو یوں نظر آتا ہے کہ آپﷺ کا اخلاق قرآن ہی کا اخلاق ہے۔ اللہ کا پسندیدہ اخلاق آپﷺ کی ذات میں اور آپﷺ کا اخلاق اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں موجود ہے۔ اسی لئے آپﷺ کے اخلاق کی پیروی ہی رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے۔
اخلاقیات کے تمام مکاتیب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ رحم اخلاق کی اعلیٰ صفت اور حضورﷺ کی ذات مبارکہ میں رحم اور رحمت کا یہ عالم ہے کہ آپﷺ کے بارے میں ارشاد ہے وما ارسلنک الا رحمتہ اللعالمین۔ کہ آپﷺ تمام مخلوق کیلئے رحمت مجسم بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اپنا ،بیگانہ ،مومن ،کافر ،چرند پرند ،ذی جان ،بے جان ،مرئی یا غیر مرئی ،کوئی مخلوق ہو آپﷺ کی رحمت کا سایہ سب کیلئے ہے اور ہمیشہ کیلئے ہے۔
آپﷺ کو جب بھی کسی نے کفار پر لعنت بھیجنے کیلئے کہا ،آپﷺ نے ہمیشہ یہی فرمایا کہ ”میں لعنت کیلئے نہیں ،رحمت کیلئے بھیجا گیا ہوں۔“روایت ہے کہ حضور اقدس کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا ،آپﷺ کے رعب و جمال سے کانپنے لگا ،آپﷺ نے فرمایا ”اپنے آپ کو سنبھال ،میں کوئی بادشاہ نہیں ،میں تو قریشی ماں کا بیٹا ہوں ،جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی۔
آپﷺ لغزشوں کو معاف فرمانے والے تھے۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ ”میں نے حضور اقدس کی خدمت کی ہے۔ میں نے کبھی آپﷺ کو یہ کہتے نہیں سنا کہ تم نے ایسا کیوں کیا اور ایسا کیوں نہ کیا۔ غلاموں کے ساتھ شفقت کا یہ عالم ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا ” یا رسول اللہ! غلاموں کا قصور کتنی دفعہ معاف کریں۔“آپﷺ خاموش رہے۔ اس نے جب تیسری مرتبہ یہی گزارش کی تو آپﷺ نے فرمایا ”ہر روز ستر مرتبہ۔
“حضور اقدس اکثر دعا فرمایا کرتے تھے کہ ”اے اللہ! مجھے مسکین زندہ رکھ ،مسکین اٹھا ،مسکینوں ہی کے ساتھ میرا حشر ہو۔“حضرت عائشہ نے دریافت کیا ”یہ کیوں؟“آپﷺ نے فرمایا ”اس لئے کہ مسکین دولت مندوں سے پہلے جنت میں جائیں گے۔“
آپﷺ کی روزمرہ کی زندگی انتہائی سادہ تھی۔ آپﷺ میں تکلف اور تصنع کا سایہ تک نہیں تھا۔ نماز ،خوراک ،رہائش میں ہمیشہ سادگی سے کام لیتے۔
امارت اور فضولیات آپﷺ کو ناپسند تھیں۔ واقعہ ہے کہ ایک صحابی نے نیا مکان بنوایا ،جس کا گنبد بلند تھا۔ آپﷺ نے دیکھا تو پوچھا ”یہ مکان کس کا ہے؟“لوگوں نے نام بتایا۔ آپﷺ چپ رہے اور وہ شخص جب حسب معمول آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا تو آپﷺ نے منہ پھیر لیا۔ اس نے پھر سلام کیا ،آپﷺ نے پھر منہ پھیر لیا۔ وہ سمجھ گیا کہ ناراضگی کی کیا وجہ ہے۔
جاکر گنبد کو زمین کے برابر کر دیا۔ آپﷺ نے جب دوبارہ مکان دیکھا تو ارشاد فرمایا ”ضروری عمارت کے سوا ہر عمارت انسان کیلئے وبال ہے۔“
ایک دفعہ آپﷺ ایک چٹائی پر آرام فرما رہے تھے۔ اٹھے تو لوگوں نے دیکھا کہ پہلوئے مبارک پر نشان پڑ گئے ہیں۔ عرض کیا ”یا رسول اللہ! ہم لوگ کوئی گدا منگوا کر حاضر کریں۔“آپﷺ نے فرمایا ”مجھ کو دنیا سے کیا غرض ،مجھے دنیا سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا اس سوار کو جو تھوڑی دیر کیلئے کسی درخت کے سائے میں بیٹھ جاتا ہے اور پھر اس کو چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔
“آپﷺ نے سادہ زندگی کو ہی بلند خیالی کیلئے لازمی قرار دیا۔
دنیا کے تمام مفکرین اخلاق نے آج تک جتنے بھی اخلاق کے اصول بنائے ہیں ،آپﷺ کی زندگی ان اصولوں کی مظہر ہے۔ آج کے زرپرست اور ہوس پرست معاشرے میں شاید یہ بات سمجھنا مشکل ہو کہ وہ انسان جو پیغمبروں کا امام ہو ،اللہ کا محبوب ہو ،قبیلے کا سردار ہو جس کا نام لوگوں کے ایمان کا حصہ ہو ،جس کا علم دلوں پر جاری ہو ،جس کے اشاروں پر لوگ اپنی جان نثار کرنے کو سعادت سمجھتے ہوں ،اس انسان کے جسم مقدس پر کوئی پیوند دار لباس ہو اور پیوند بھی اپنے دست مبارک سے لگائے ہوں۔
جس کو دولت معراج عطا ہو رہی ہے ،عروج کی انتہا ہو رہی ہے ،اس کی زندگی اتنی سادہ ہو کہ اگر حضرت عمر دیکھیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں کہ قیصر و کسریٰ تو باغ و بہار کے مزے لوٹیں اور آپﷺ اللہ کے پیغمبر ہوتے ہوئے اس حال میں زندگی بسر کریں اور پھر حضورﷺ سادگی اور یقین سے یہ ارشاد فرمائیں کہ ”اے عمر! تم کو یہ پسند نہیں کہ ان کیلئے دنیا ہو اور ہمارے لئے آخرت۔
حضور اقدس نے اخلاق انسانی کو تکمیل کے اس درجے تک پہنچا دیا کہ یہ اخلاق آسمان ہو کر رہ گیا۔ اللہ نے انسانوں کیلئے جو بھی اخلاق پسند فرمایا ،وہ دراصل اخلاق محمدیﷺ ہے۔ حضورﷺ نے جس اخلاق کو پیش کیا وہ دراصل اللہ کا پسندیدہ اخلاق ہے۔ کوئی خوبی ایسی نہیں جو حضورﷺ پر نور میں نہ ہو۔ آپﷺ ایفائے عہد میں اتنے بلند تھے کہ آپﷺ تین دن تک ایک جگہ کھڑے رہے ،ایک انصاری نے آپﷺ سے ٹھہرنے کا وعدہ لیا اور وہ خود بھول گیا۔
تین دن کے بعد جب وہ وہاں سے گزرا ،آپﷺ کو دیکھا تو اسے یاد آیا لیکن آپﷺ نے اس سے صرف اتنا کہا کہ تو نے مجھے بہت تکلیف دی۔
حضورﷺ کے اخلاق کے بارے میں کیا کیا کہا جائے۔ آپﷺ نے اللہ سے اسوہٴ حسنہ کی سند لی ،دنیا نے آپﷺ کو معلم اخلاق مانا ،آپﷺ پر نبوت کی تکمیل ہوئی ،انسانیت کی تکمیل ہوئی اور اخلاق کی تکمیل ہوئی۔ آپﷺ کی ذات کے بارے میں بس یہی کچھ کہا جا سکتا ہے کہ#
سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں
جس شان توں شاناں سب بنیاں

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif