Episode 32 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 32 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

ضمیر کی آواز
ضمیر کی آواز نہ تو ظاہری زبان سے دی جاتی ہے اور نہ ہی ان کانوں سے سنائی دے سکتی ہے۔ یہ آواز بہت دور سے آتی ہے اور بہت قریب سے سنائی دیتی ہے۔ ایسے جیسے ہمارے اندر سے کوئی بولتا ہے۔ کسی نے ضمیر کی صورت نہیں دیکھی۔ اس کی آواز ہی سنی گئی ہے۔ شاید یہ آسمانوں سے آنے والی ہاتف کی صدا ہے ،جو ہمیں الائشوں اور غفلتوں سے نجات دینے کیلئے آتی ہے۔
ہمیں اخلاقی آلودگی سے بچانے کیلئے یہ آواز پراسرار راستوں سے ہوتی ہوئی دل کے کانوں میں گونجتی ہے۔ کبھی کبھی ہمدرد اور شفیق دوست کی طرح اور کبھی کبھی ایک جرنیل کے حکم کی طرح یہ آواز اپنا کام کرتی ہے۔ یہ آواز ہمارے لئے ان راستوں کو روشن کرتی ہے ،جو نفس کی اندھیر نگری میں گم ہو جاتے ہیں۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارا قیام عارضی ہے۔

(جاری ہے)

ہمارا وجود ہمیشہ موجود نہیں رہ سکتا۔ یہ آواز بلکہ صرف یہی آواز صدائے جرس ہے ،ناقوسِ وقت ہے ،بانگ درا ہے۔ ایک وارننگ ہے کہ اگر منزل پر نگاہ نہ رکھی گئی تو گرد راہ میں کھو جانے کا خطرہ موجود رہے گا۔ ہم خوش فہمیوں اور خوش گپیوں میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ انجام نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ ضمیر کی آواز اس خواب گراں سے بیدار کرتی ہے۔ ہمیں نشان منزل سے تعارف کراتی ہے۔
یہ آواز ہمارے لئے ہدایت کا چراغ ہے۔ ایک مخلص دوست ،ایک نڈر ساتھی… جو ہمیں ہمارے مرتبوں ،ہمارے خوشامدیوں اور خوشہ چینوں کی اصل حقیقت سے آگاہ کرتا ہے۔ ضمیر کی آواز ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے مرتبے اور دبدبے سب عارضی ہیں۔ ہم فرعون وقت بننا چاہتے ہیں۔ ضمیر کی آواز فرعون کی عاقبت سے تعارف کراتی ہے۔
ضمیر کی آواز پر کان نہ دھرنے والے بڑے بڑے محلات میں رہنے کے باوجود اپنے پیچھے ویرانیاں چھوڑ گئے… بڑے بڑے ظل سبحانی رخصت ہو گئے۔
فانی ہو گئے۔ آنجہانی ہو گئے… جو لوگ زندگی میں انسان کو انسان نہ سمجھتے تھے ،انسان کے بچوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے تھے ،آخری وقت میں پکار اٹھتے ہیں کہ کاش ہم مٹی ہوتے… کاش ہم اپنے سے مختلف ہوتے… کاش ہم مرتبوں پر مغرور نہ ہوتے… لیکن کاش تو بس کاش ہی رہتا ہے… کاش کہنے سے علاج تو نہیں ہوتا۔ زندگی دوبارہ تو نہیں ملتی…
زندگی کے مختلف ادوار میں ضمیر کی آواز مختلف ذرائع سے ہم تک پہنچتی ہے۔
لیکن ہم ہیں کہ ”زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد…“ ہم پر اثر ہی نہیں ہوتا۔
ایک بچے کیلئے ضمیر کی آواز بس ماں باپ کی آواز کہی جا سکتی ہے۔ وہ شفیق آواز جو محبت کی حلاوت لئے ہوئے بچے کو آمادہ سفر کرتی ہے۔ اسے راہ کی دشواریوں سے آگاہ کرتی ہے… علم کی منزل ،کردار و اخلاق کی منزل کی طرف گامزن کرتی ہے۔ والدین اولاد کو نیک اور کامیاب راستوں کا مسافر بنانا چاہتے ہیں۔
وہ وقتاً فوقتاً اولاد کو جھنجھوڑ کر جگاتے ہیں کہ وقت ،بلکہ زندگی ،کیونکہ وقت ہی زندگی ہے ،رائیگاں نہ گزر جائے۔
رفتہ رفتہ ماں باپ کی آواز میں اساتذہ کی آواز شامل ہو کر ایک نیا رنگ پیدا ہو جاتا ہے۔ ضمیر کی آواز میں نکھار آ جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی کے تپتے ہوئے صحرا میں سر پر ایک ابر سایہ دار و گہربار ہو… یہ آواز بڑی غمگسار ہوتی ہے… خدا کی آواز انسانوں ہی کے ذریعے سے تو آتی ہے۔
پیغمبروں کے بعد سب سے بڑا رتبہ ماں باپ اور اساتذہ کا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت اویس قرنی نے حضورﷺ کی زیارت کا قصد کیا۔ ماں سے نیک سفر پر جانے کی اجازت چاہی۔ ماں نے کہا ”بیٹا! اگر حضورﷺ مسجد میں تشریف فرما ہوں تو زیارت سے فیض یاب ہونا…“
اویس قرنی نے ایک طویل سفر کیا… پیدل… حضورﷺ مسجد میں نہ تھے اویس قرنی ماں کے حکم کے مطابق واپس چلے گئے… کچھ عرصہ بعد پھر قصد زیارت نبیﷺ کیا۔
ماں نے کہا ”بیٹا! حضورﷺ گھر پر تشریف رکھتے ہوں تو زیارت سے نصیب کو سرفراز کر لینا…“ اتفاق یوں ہوا کہ حضورﷺ مسجد میں جلوہ افروز تھے۔ اویس قرنی واپس آ گئے اور یوں زندگی میں ظاہری ملاقات نہ ہو سکی۔ لیکن ماں کے حکم کی بجا آوری کا انعام یہ ملا کہ آپ کو باطنی زیارت ،بلکہ ہمہ حال زیارت سے فیض یاب کیا گیا اور حضور اکرمﷺ کا خرقہ مبارک اویس قرنی ہی کو عطا ہوا… ماں باپ کے حکم کی اطاعت حضورﷺ کے فرمان اور اللہ کے فرمان کے عین مطابق ہے۔
والدین کی آواز میں ضمیر کی آواز کا ہونا لازمی ہے۔ ماں باپ کی آواز کے بعد ہمیں ضمیر کی آواز کسی مخلص دوست کی گفتگو میں سنائی دیتی ہے۔ مخلص دوست ہمیں ہماری خامیوں سے آشنا کراتا ہے۔ ہمیں ہماری غلط روی سے روکتا ہے… ہمیں غرور کے گھوڑے پر سوار ہونے سے باز رکھتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ آسمانوں پر نگاہ کرتے وقت یہ نہ بھولنا چاہئے کہ پاؤں زمین پر ہیں… خوشی نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں مخلص دوست کا ساتھ میسر ہو… خوشامدیوں کے سنہرے جال سے بچانے والا ،نخوت و نفرت کی بدبختیوں سے دور رکھنے والا… اللہ کی رحمت کا سفیر… مخلص دوست… ضمیر کی آواز کا مظہر۔
اگر شومئی قسمت ،مخلص دوست بھی میسر نہ ہو تو ضمیر کی آواز حاصل کرنے کا ذریعہ آئینہ ہے… آئینے کے روبرو ہو ہم اپنے ہی تو روبرو ہوتے ہیں… آئینہ جھوٹ نہیں بولتا… یہ ہمیں ہمارا ہی چہرہ دکھاتا ہے… اصل چہرہ… لبادے اور نصاب سے آزاد… کبھی کبھی تو یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان جب آئینہ دیکھنے میں محو ہو… عکس آئینہ بولتا ہے۔ ہمکلام ہوتا ہے۔
خطاب کرتا ہے۔ نصیحت کرتا ہے کہ آج تیرے سر کو غرورِ تاجوری ہے ،کل تیرے سر پر شور نوحہ گری ہوگا… زمین پر اترا کر نہ چل… تیرا اصل ٹھکانہ تیرے پاؤں کے نیچے دو گز زمین کے اندر ہے… کیا تیرا فخر اور کیا تیرا افتخار… عکس آئینہ بڑے راز اور بڑے کام کی چیز ہے… یہ ضمیر کی آواز کا پیکر ہے…
ضمیر کی آواز کو سننا ،اسے پہچاننا ،اس پر عمل کرنا بڑے نصیب کی بات ہے… ضمیر کی آواز سے آشنا لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ ضمیر ہی ہمارے اعمال کی اصلاح کرتا ہے۔
ہمیں حق سچ کا راستہ بتاتا ہے۔ ضمیر کی آواز زندگی کے کامیاب راستوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ یہی وہ آواز ہے جو تاریکیوں میں ہدایت اور نور کے چراغ روشن کرتی ہے۔ انسان کو نفس امارہ کے شکنجے سے آزاد کرانے والی آواز ضمیر ہی کی آواز ہے۔ یہی آواز حلال و حرام میں تمیز سکھاتی ہے۔ ہم مجبوری کا بہانہ بنا کر جرم و گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ضمیر کی آواز ہمیں تاریک راہوں سے نکالتی ہے۔
ہمارے دل میں خوف خدا ڈالتی ہے۔ یہ آواز ایک صحیفے کی طرح نازل ہوتی ہے… ہمیں بے راہ اور گمراہ ہونے سے بچاتی ہے۔ یہ آواز ہنگام آلام اور ہنگامے ہائے سود و زیاں میں مایوس نہ ہونے کا پیغام دینے والی آواز ،رحمت حق کی نوید ہے… خبردار میری رحمت سے مایوس نہ ہونا… یعنی اپنے مستقبل سے مایوس نہ ہونا…
ضمیر کی آواز ہمارے ہی باطن کی جلوہ گری ہے… ہمارے نصیب کی محافظ آواز۔
ضمیر کی بھی کئی قسمیں ہیں… انفرادی ضمیر ،گروہی ضمیر ،قومی ضمیر ،ضمیر ملت ،ضمیر امت بلکہ ”ضمیر امتاں۔“
مثنوی مولانا روم انفرادی ضمیر کو زندہ رکھنے کیلئے اکسیر ہے۔ کیمیا ہے… عشق کو زندگی دینے والی کتاب ،مثنوی… اور اگر عشق زندہ ہو تو نفس کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔ یہی ضمیر کی آواز کا کرشمہ ہے۔ اقبال نے ضمیر قوم کو بیدار کیا۔
قوم میں وحدت افکار اور وحدت کردار پیدا کرکے ایک نئی منزل کا شعور اور حصول بخشا… ایسے انسان خود ہی قوم کا ضمیر ہوتے ہیں۔ ان کی آواز پر چل کر نئی منزلوں سے ہمکنار ہونا ممکن ہوتا ہے۔ اقبال نے دعا کی ہے کہ ”یا الٰہی… میرے بعد کوئی دانائے راز اگر آئے تو اسے نسیم حجاز سے سرفراز کرنا… اسے نوائے دلگداز عطا فرمانا ،اسے ”ضمیر امتاں“ کو پاک کرنے کی توفیق عطا فرمانا… اسے کلیمی عطا کرنا ،اسے حکمت سے بہرہ ور کرنا… یا الٰہی آنے والے کو نے نواز دوراں بنانا…“
ایسے انسان قوموں کیلئے خوش نصیبی کا پیغام لاتے ہیں۔
وہ ضمیر کو زندہ کرتے ہیں… عارضی منفعت سے نظر ہٹا کر ایک دیر پا باقی رہنے والی حیات کی طرف توجہ دلاتے ہیں…
آج کا انسان مصروف ہے۔ کسی پر کان نہیں دھرتا۔ وہ مال گننے اور جمع کرنے کے شغل میں مبتلا ہو گیا ہے۔ اگر اس سے خدا پوچھے کہ تمہیں دوزخ میں بھیجوں یا جنت میں… تو اس کا جواب ہوگا ”جہاں دو پیسے کا فائدہ ہو وہاں بھیج دو…“ ایسے آدمی کیلئے ضمیر کی آواز کیا کرے…؟
ضمیر کی آواز پھر بھی بدستور پکار پکار کر کہہ رہی ہے… لوگو! حق سے زیادہ نہ لو تاکہ محروم کو بھی اس کا حق مل سکے… تم بچوں کو مال حرام کھلاتے ہو یا انہیں آگ کا لقمہ دیتے ہو… معصوموں کے ساتھ ظلم نہ کرو… اپنے بچوں کو رشوت کا مال کھلا کر ہلاک نہ کرو… تم جس کام کیلئے ملازم رکھے گئے ہو اسے ایمانداری سے کرو… استحقاق کی بات کرتے ہو ،فرائض کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟
وہ ملک لاکھوں جانوں کی قربانی سے بنا ہے۔
قوم کو ایک اعلیٰ زندگی عطا کرنے کیلئے یہ ملک حاصل کیا گیا… لیکن افسوس چند ہوس پرست جونکوں کی طرح اس کا خون چوس رہے ہیں… کسی غریب کو کیا فرق پڑتا ہے اگر اس پر ہندو ظلم کرے یا اس پر مسلمان ظلم کرے۔ غور کرنے کا وقت ہے… سنجیدگی اختیار کرنے کا لمحہ ہے…
اگر ضمیر کی آواز پر کان نہ دھڑا تو خاکم بدہن… مسجد قرطبہ… خدا نہ کرے۔ ضمیر زندہ رہا تو فرد زندہ رہا۔
فرد زندہ ہے تو قوم زندہ ہے اور قوم زندہ ہے تو ملک سلامت ہے…
خدا ہمیں بیدار بخت اور بیدار ضمیر بنائے… مردہ ضمیر نے ہمیں پہلے ہی بہت نقصان پہنچایا ہے۔ مردہ ضمیر وہ ہے جو ملک و قوم کے نقصان کی پرواہ کئے بغیر اپنی منفعت کی فکر کرے۔ اگر معاشرے میں باضمیر پیدا ہو گئے تو مردہ ضمیر ویسے ہی روپوش ہو جائیں گے۔ حق آئے گا تو باطل جائے گا… ضمیر کی آواز خلاؤں میں موجود رہتی ہے۔
ہم کثیر المقصدیت کا شکار ہیں۔ ہم ایک سے زیادہ زندگیاں رکھتے ہیں۔ ہم ایک سے زیادہ اموات کا ذائقہ چکھیں گے… ہمیں غور کرنا چاہئے۔ ضمیر کو زندہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے… ہمیں کم از کم محسنوں کے ساتھ وفا کرنا چاہئے… ضمیر کی آواز کا یہی پیغام ہے کہ یہ ظاہری شان و شوکت واہمہ ہے… لباس کے اندر ہر آدمی ایک ہی آدمی ہے…
اور وہ وقت دور نہیں ہے جب یہ وقت ختم ہو جائے گا… ضمیر کے باغی خاک ہو جائیں گے اور ضمیر کی آواز پر چلنے والے کامران و سرفراز رہیں گے۔

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif