Episode 34 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 34 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

فطرت
اگر کوئی کہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا تو اسے مانا جا سکتا ہے لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ کسی انسان نے اپنی فطرت بدل لی ہے تو اسے نہیں مانا جا سکتا۔ انسان اپنا بہت کچھ بدل سکتا ہے حتیٰ کہ شکل بھی تبدیل کر سکتا ہے لیکن وہ فطرت نہیں بدل سکتا۔ انسان کی فطرت اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی تشکیل پا چکی ہوتی ہے اور پھر وہ اپنی اس تشکیل کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
ایسے جیسے وہ اس فطرت میں ہی رہن رکھ دیا گیا ہو۔
انسان تبدیلی پسند ہے۔ وہ بدلتا رہتا ہے۔ لباس بدلتا ہے۔ اپنے سماجی ،اخلاقی اور سیاسی کردار بدلتا ہے ،مکان اور شہر بدلتا ہے ،دوست اور دشمن بدلتا ہے لیکن وہ جو کچھ بھی کرے ،اپنی فطرت نہیں بدل سکتا۔ کہتے ہیں کہ اگر ہزاروں من چینی بھی ڈال دی جائے تو کڑوا کنواں میٹھا نہیں ہو سکتا۔

(جاری ہے)

پانی کا اصل ذائقہ اس کی فطرت ہے۔

ہم اسے ہزار رنگ دیں ،یہ اپنی فطرت پر رہتا ہے۔
ایک دفعہ ایک گدھ اور ایک شاہین بلند پرواز ہو گئے۔ بلندی پر ہوا میں تیرنے لگے۔ وہ دونوں ایک جیسے ہی نظر آ رہے تھے۔ اپنی بلندیوں پر مست ،زمین سے بے نیاز، آسمان سے بے خبر ،بس مصروف پرواز۔ دیکھنے والے بڑے حیران ہوئے کہ یہ دونوں ہم فطرت نہیں ،ہم پرواز کیسے ہو گئے؟ شاہین نے گدھ سے کہا ”دیکھو اس دنیا میں ذوق پرواز کے علاوہ اور کوئی بات قابل غور نہیں۔
“ گدھ نے بھی تکلفاً کہہ دیا ”ہاں مجھے بھی پرواز عزیز ہے۔ میرے پر بھی بلند پروازی کیلئے مجھے ملے“ لیکن کچھ ہی لمحوں بعد گدھ نے نیچے دیکھا۔ اسے دور ایک مرا ہوا گھوڑا نظر آیا۔ اس نے شاہین سے کہا ”جہنم میں گئی تمہاری بلند پروازی اور بلند نگاہی۔ مجھے میری منزل پکار رہی ہے۔“ اتنا کہہ کہ گدھ نے ایک لمبا غوطہ لگایا اور اپنی منزل مراد پر آگرا۔
فطرت الگ الگ تھی ،منزل الگ الگ رہی۔ ہم سفر آدمی اگر ہم فطرت نہ ہو تو ساتھ کبھی منزل تک نہیں پہنچتا۔
انسان کو اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ معلوم کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ فطرت اپنا اظہار کرتی رہتی ہے۔ جو کمینہ ہے وہ کمینہ ہی ہے خواہ وہ کسی مقام پر مرتبہ میں ہو۔ میاں محمد صاحب کا ایک مشہور شعر ہے کہ
نیچاں دی اشنائی کولوں کسے نئیں پھل پایا
ککر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا
کمینے انسان کی دوستی کبھی کوئی پھل نہیں دیتی جس طرح کیکر پر انگور کی بیل چڑھانے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ ہر گچھا زخمی ہو جاتا ہے)
فطرت کا تعلق حالات اور تعلیم سے نہیں۔
اس کا تعلق انسان کے باطن سے ہے۔ اس کے باطنی انداز نظر سے ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ فطری طور پر مذہب پرست ہیں ،کچھ لوگ مذہب سے بیزار۔ مذہب پرست لوگ عبادت گاہیں بناتے ہیں۔ مثلاً مسجد ،مندر ،چرچ ،گردوارہ ،اسٹوپا وغیرہ۔ یہ لوگ اپنے اپنے انداز میں اپنے اپنے پیشواؤں کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں۔ اپنی باطنی ترقی کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ اصل ارتقا کس کے پاس ہے۔
دنیاوی سفر کو کسی آسمانی رابطے کے مطابق طے کرنے والے مذہبی لوگ کہلاتے ہیں۔ ان کی فطرت ہی ان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خود کو بلند خیالی سے آگاہ کریں۔ وہ اس کائنات کو کسی خالق کے حوالے سے دیکھنا چاہتے ہیں اور یہی بات انہیں مذہبی شعور کی طرف لاتی ہے۔ یہ ان کی فطرت ہے اور دوسرے لوگ تو ہمیشہ ہی دوسرے ہوتے ہیں۔
وہ کسی خالق کو ماننے کیلئے تیار نہیں۔ جب خالق ہی کو نہیں مانتے تو وہ کسی رسول پر کیا اعتقاد رکھیں گے۔ ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ دنیا سمیٹتے ہیں اور کچھ لوگ دنیا سے نجات چاہتے وہیں۔ یہی تو فطرت ہے۔ بنانے والے خالق اکبر کا حکم ہے کہ تم میں سے ہی لوگ ہیں جو دنیا کے طلب گار ہوں گے اور تم میں سے ہی لوگ ہیں جو آخرت کے طلب گار ہوں گے۔ یہ خالق کا حکم ہے کہ ہر شے اپنے اصل کی طرف رجوع کرتی ہے۔
یہ اصل ہی فطرت ہے۔ یہی دیکھنے والی شے ہے۔ اس کا عرفان ہی عرفان ہے۔ چیزوں کو ان کی حقیقت کے روپ میں دیکھنا۔ حضورﷺ اکثر دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے چیزوں کو ان کی اصلی فطرت میں دیکھنے کا شعور عطا فرما۔
اگر فطرت سے آشنائی ہو جائے تو دنیا میں کوئی کسی کا گلہ نہ کرے۔ آج کا انسان چہرے بدلتا رہتا ہے۔ وہ اپنے اصل جوہر کے برعکس زندگی بسر کرنے کی سعی کرتا ہے لیکن اس کی فطرت اس پر غالب آ کے رہتی ہے۔
ہمارے پیشے ،ہمارے مرتبے ،ہمارے مال ،ہمارے اثاثے ہماری فطرت نہیں بدل سکتے۔ کمینہ کمینہ ہی ہو گا۔ خواہ وہ کہیں بھی فائز ہو۔ سخی سخی ہو گا خواہ وہ غریب ہو۔
ابتدائی زمانوں میں پیشے ،مزاج کے مطابق بنائے گئے تھے۔ معلم فطرتاً معلم ہوتے تھے۔ ان کی تصانیف معلم تھیں۔ ان کی مجلس معلم تھی۔ ان کا ہر ہر انداز معلمانہ تھا۔ لوگ دور دور سے ان کے پاس آتے اور علم کی پیاس بجھاتے۔
امتحانوں اور ڈگریوں کے کاروبار نہیں تھے۔ صحیح لوگ تھے ،صحیح کام کیا کرتے تھے۔ اب لوگ پیشے کے اساتذہ ہیں ،ان کا وہ انداز ہو ہی نہیں سکتا۔ انہیں اپنے گریڈوں کی فکر ہے۔ وہ طالب علموں کو اپنے سامنے بدعادات میں غرق ہوتے دیکھ کر بے تاب نہیں ہوتے۔ جب مہینوں کے مہینے گزر جائیں اور طالب علموں کا سفر رکا رہے ،ان معلموں پر قیامت نہیں گزرتی۔
وہ تنخواہیں وصول کرتے ہیں اور چھٹیاں مناتے ہیں۔ یہ فطرت ہی کچھ اور ہے ،وہ فطرت ہی کچھ اور تھی۔
ہر شعبہ اپنی بنیاد سے ہٹ سا گیا ہے۔ سیاست کو لیں۔ ہم دیکھتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ کس قسم کے لوگ آگے آ رہے ہیں۔ ان سے کیا توقعات ہو سکتی ہیں۔ یہی جہ ہے ہم ملکی سطح پر ایک دائرے کا سفر کر رہے ہیں۔ زمانہ کہاں ترقی کر رہا ہے ،ہم صرف دوبدو ہیں ایک دوسرے کے۔
جھگڑالو فطرت والے لوگ کہیں قوم میں انتشار پیدا نہ کر دیں! سلیم فطرت لوگ سیاست سے گریز کرتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ وہ لوگ ہی زیادہ مظلوم بنا دیئے جاتے ہیں۔ سلیم اور حلیم فطرت لوگوں کو آگے آنا چاہئے کہ سفر کا رخ صحیح ہو۔
اگر انسان فطرت آشنا ہو جائے تو بہت سے جھگڑے اور بہت سے ہنگامے ختم ہو سکتے ہیں۔ ہم فطرت کو دو بنیادی حصوں میں تقسیم کریں۔
بد اور نیک ،تو ہم دیکھیں گے کہ یہی دو گروہ اپنے اپنے عمل سے دنیا کو وہ کچھ بنا رہے ہیں جو یہ بن رہی ہے۔
ایک طرف تو انسان کی تکلیف کو دور کرنے کیلئے ہسپتال بن رہے ہیں۔ نیک فطرت لوگ دن رات انسان کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔ دکھی انسان کی خدمت ہوتی ہے ،ان ہسپتالوں میں۔ انسان کا خیال تک زخمی ہو جائے تو اس کیلئے بھی خدمت کیلئے تیار ادارے موجود ہیں۔
دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے والے لوگ مصروف خدمت ہیں اور ان کے مقابلے میں بدفطرت لوگ کیا کر رہے ہیں۔ تباہی ،بربادی ،جنگ ،پریشانی اور بے چینی پھیلانے والے انسان ہی تو ہیں۔
اسی طرح حیا والے برائی دیکھنے سے بھی گریز کرتے ہیں اور بے حیا تو بس ہے ہی بے حیا… اس کا کیا۔ اخبارات بھرے پڑے ہیں۔ بداعمال لوگوں کے ظلم سے۔ لوٹنے والے ،بم پھینکنے والے ،نظام عالم درہم برہم کرنے والے ،افراتفریاں مچانے والے ،سماجی سکون برباد کرنے والے ،محفوظ کو غیر محفوظ بنانے والے ،محسن فراموش ،دوستوں سے بھی غداری کرنے والے ،میزبان کا گھر لوٹ کر لے جانے والے ،مسافروں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے ،پاکیزہ روایات کو پارہ پارہ کرنے والے اپنی فطرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
نیک فطرت لوگ سماج ساز ہوتے ہیں۔ وہ انسانوں کو پریشان نہیں کرتے۔ فرق صرف اصل کا اور فطرت کا ہے۔ بدفطرت بدی کرکے ہی دم لیتا ہے۔ کہتے ہیں کسی زمانے میں ایک بادشاہ نے کچھ ڈاکو گرفتار کئے۔ ان کو سزائے موت کا حکم دیا۔ ڈاکوؤں میں ایک چھوٹا لڑکا بھی تھا۔ بادشاہ نے سوچا کہ ابھی بچہ ہی تو ہے اسے نہ مارنا چاہئے۔ وزیر خاص نے کہا ”جہاں پناہ بچہ تو ہے لیکن میں اس کو بدفطرت دیکھ رہا ہوں۔
“ بادشاہ نے کہا ”اسے ہم اپنے پاس رکھ کر پرورش کریں گے۔“ وزیر کا کہنا نہ مانا گیا۔ دن گزرتے گئے۔ بچہ بڑا ہو گیا اور آخر ایک دن شہزادی کو لے اڑا۔ وزیر نے کہا اب رونا کس بات کا۔ بدبد ہی نکلا۔
یہ پہچان بھی خاص فطرت کی عطا ہے۔ بیج میں درخت کو دیکھنا ہر آدمی کا کام نہیں ہے۔ یہ سعادت بھی عطائے رحمانی ہے۔ حکمت ،ہر کسی کو عطا نہیں ہوتی۔
نیکی کے نام پر جماعتیں بنانے والے بد بھی ہو سکتے ہیں۔ ظاہر ضروری نہیں کہ باطن کا عکس ہو۔ اسی بات سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ آزمائش کے لمحے میں ہی اصل ظاہر ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ بلیوں نے مل کر چناؤ کے ذریعے ایک بلی کو سردار بنا دیا۔ اس کے سر پر تاج رکھ دیا۔ سردار بجلی تاج پہن کر پہلی تقریر کرنے لگی۔ وہ تقریر کی تیاری کرکے آئی تھی۔
بس اس نے تقریر کیلئے ابھی لب کھولے ہی تھے کہ اس کو ایک چوہا نظر آ گیا۔ اس نے تاج پھینک دیا اور کہا ”جہنم میں گئے تمہارے تاج اور تمہارے انتخابات ،چوہا ہی اصل بات ہے۔“ اس کی فطرت غالب آ گئی اور جلسہ منتشر ہو گیا۔
ہمیں فطرت شناس ہونا چاہئے۔ کبھی کبھی بلند فطرت ،پست حالات سے گزریں تو بھی ان کا مزاج پست نہیں ہوتا۔ عالی ظرفی یہی ہے کہ ایسے لوگوں کو عزت کی جائے۔
ایک دفعہ حضور اکرمﷺ کے روبرو غلام پیش کئے گئے۔ ان میں حاتم طائی کی بیٹی بھی تھی۔ آپﷺ نے پہچانا کہ سخی باپ کی سخی بیٹی ہے۔ آپﷺ نے اس کے بیٹھنے کیلئے اپنی چادر مبارک بچھا دی۔ سخی کی عزت کی حالانکہ وہ غلام تھی۔ پیغمبرﷺ کی بات باتوں کی پیغمبر ہوتی ہے۔ بس یہی سند ہے کہ حالات کے پیچھے اصل فطرت کو پہچاننا چاہئے۔
وہ ملک ترقی کرتے ہیں جہاں اداروں کے سربراہ نیک فطرت لوگ ہوں۔
حساس فطرت انسانوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ کہیں وہ ہمارے عمل سے آزردہ نہ ہوں۔ ایک دفعہ ایک بادشاہ نے ایک آدمی کو یوں سزائے موت دی کہ اسے پہاڑ سے گرا دیا جائے۔ وہ آدمی بچ گیا۔ بادشاہ نے کہا ”اسے دریا میں گرا دیا جائے۔“ وہ بچ گیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا ”اے انسان تو مرتا کیوں نہیں۔“ اس نے کہا ”اگر مجھے آسمان سے بھی گرا دو تو میں بچ جاؤں گا۔
میں خاص فطرت رکھتا ہوں میں کسی بلندی سے گر کر نہیں مر سکتا۔ ہاں البتہ… مجھے مارنا ہی ہے تو مجھے نظروں سے گرا دو۔ میں مر جاؤں گا۔“
کسی شخص سے اس کی فطرت کے خلاف کام لینا ظلم کہلاتا ہے۔ اس ظلم سے بچنے کیلئے اور اس سے سماج کو بچانے کیلئے فطرت آشنا ،جوہر شناس لوگوں کی ضرورت ہے۔ اداروں کے سربراہوں کی فطرت کے بارے میں غفلت نہ برتنا چاہئے۔
یہی ایک ضروری احتیاط ہے۔ تحفے وصول کرنے والے کو بااختیار نہیں بنانا چاہئے۔ نیچ نوازی بند کر دی جائے تو سفر کی سمت کا تعین آسان اور یقینی ہو جائے۔ اگر عالی ظرفوں کو عالی مرتبہ بنا دیا جائے تو منزل مل جاتی ہے۔
برسوں اکٹھا رہنے کے باوجود رشتوں کے اشتراک کا سفر ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ جب فطرت غالب آتی ہے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ#
ہم جسے ایسا سمجھتے تھے وہ ویسا نکلا
مختلف فطرتیں مشترک سفر نہیں کر سکتیں۔
اگر ایسا ہو رہا ہو تو زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ پیر رومی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ دجلہ کے کنارے پر انہوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک کوا اور ایک ہنس ساتھ ساتھ چگ رہے تھے۔ مولانا حیران ہوئے کہ یہ کیسا منظر ہے کہ دو الگ فطرتیں ایک ساتھ دانہ چگ رہی ہیں۔ مولانا ان کے قریب گئے۔ معلوم ہوا کہ دونوں ہی زخمی تھے۔ بیماری میں مختلف فطرتوں کا عارضی اشتراک ہو سکتا ہے لیکن صحت مند وجود اپنی فطرت کے علاوہ کسی اور اشتراک میں موجود نہیں رہ سکتا۔
کبھی کبھی صحبت غیر انسان کی فطرت کو عارضی طور پر روپوش کر دیتی ہے لیکن یہ وقت ہمیشہ نہیں رہتا۔ آخر روپوش رونما ہو کر رہتا ہے۔ ایک دفعہ ایک شیر نے دیکھا کہ ایک شیرزادہ ،بھیڑوں کے گلے میں نہایت شریفانہ زندگی بسر کر رہا ہے۔ وہ بہت حیران ہوا کہ یہ کیا قیامت ہے کہ شیر نے فطرت بدل لی۔ وہ اس جوان کے پاس گیا اور کہا میرے ساتھ آؤ میں آپ کو ایک نظارہ دکھاتا ہوں۔
وہ اسے تالاب پر لے گیا اور کہا غور سے دیکھو ہم دونوں کی شکلیں برابر ہیں۔ ہم ایک ہی جنس ہیں۔ ہماری ایک ہی فطرت ہے۔ اب دیکھو میرا عمل۔ اس نے ایک بھیڑ کو گردن سے پکڑا اور آناً فاناً اسے چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ بس اتنی ہی دیر درکار تھی۔ شیر زادے کا جوہر بیدار ہو گیا۔ فطرت غالب آئی۔ وہ بھی واقعی شیر بن گیا۔
اصل فطرت کو بیدار ہونے کیلئے صحبت صالح درکار ہے۔ صالح فطرت لوگوں کو اہم مقامات پر فائز کرنے سے اہم نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ یہ تقسیم فاطر حقیقی نے قائم کر رکھی ہے۔ فطرت اس لئے نہیں بدلتی کہ اسے فاطر حقیقی نے نہ بدلنے کیلئے پیدا فرمایا ہے۔ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے لیکن انسان کی فطرت نہیں بدل سکتی۔ یہ اٹل ہے۔

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif