Episode 8 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 8 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

وضاحت
پچھلا مضمون ”انسان اور انسان“جب اخبار میں چھپا تو کافی دوستوں کو خوشی بھی ہوئی اور پریشانی بھی اور شدت کے ساتھ ایک قاری نے تحریر کیا کہ ”آپ کا مضمون پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ بھی ہماری طرح انسان دوست محسوس ہوتے ہیں۔ اس زندگی کا مقصد اخلاقیات اور انسان دوستی ہی تو ہے ،انسان ،انسان کے کام آئے تو انسان ہے ،ورنہ وہ کیا انسان! دنیا کے مذاہب میں صرف انسانوں کی خدمت اور اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہے اور یہ کہ نظام عبادات انسان کو خدمت انسان پر مائل کرنے کیلئے ٹریننگ کا ایک نظام ہے اور بس۔
وہ آگے چل کر فرمانے لگے کہ ”ہم سب لوگ مل کر ”ہیومنزم“کی تحریک چلائیں اور قوم کو ملا کے دین کی اذیت سے بچائیں اور اس کام کیلئے آپ ہی موزوں شخص نظر آتے ہیں مثلاً آپ کے مضمون کا یہ فقرہ کہ ”جو انسان رب اللعالمینﷺ ہے ،وہی انسان رحمتہ اللعالمینﷺ ہے“ان صاحب کے خیال میں یہی تھا کہ انسان کا رب تو انسان ہی ہے اور وہ اس بات کو بھی مانتے تھے کہ انسان میں اشرف انسان رحمت اللعالمینﷺ ہیں۔

(جاری ہے)

اپنے عزیز کی یہ تحریر پڑھ کر مجھے تعجب بھی ہوا اور افسوس بھی۔ تعجب اس بات کا کہ یہ بات تو میں نے لکھی ہی نہیں ،انہوں نے کہاں سے پڑھ لی اور افسوس اس بات کا کہ میرے عقیدے کے بارے میں میرے عقیدے کے باوجود لوگوں کو کیا بد عقیدتی ہے۔ میں نے اخبار دوبارہ پڑھا کر یہ کیسے ہو گیا۔ وہاں اتفاق سے کمپیوٹر کی تیز رفتاری کے باعث ایک لفظ رہ گیا اور اس سے یہ سارا ابہام پیدا ہوا۔
وہ فقرہ دراصل یوں تھا۔
”جو انسان محبوب رب اللعالمینﷺ ہے ،وہی انسان رحمت اللعالمینﷺ ہے۔“
یعنی جو انسان سب کائنات کیلئے مجسم رحمت ہے ،وہی انسان تو محبوب رب اللعالمینﷺ ہے یعنی رب اللعالمین کو محبوب ہی وہی ذات ہے جو انسانوں کیلئے باعث رحمت ہے۔ انسان کو چھوڑ کر خالی رب کی عبادت کرنے والے عام طور پر کہیں نہ کہیں کھو جاتے ہیں۔
اس میں ایک وضاحت ضرور درکار ہے کہ انسان کی خدمت اور خالی انسان کی خدمت کا تعلق اخلاقیات سے ہے۔
اخلاقیات کی تعریف کرنا آسان نہیں۔ کسی ایک دور کا قانون اخلاقیات کسی دوسرے دور میں بد اخلاقی ہو سکتا ہے۔ کسی خاص جغرافیائی حالات کا ضابطہٴ اخلاق کسی مختلف جغرافیائی حالات کے ممالک میں کچھ اور صورت اختیار کر جاتا ہے۔ بہرحال اخلاقیات کے بالعموم قواعد کچھ یوں سے ہیں کہ لوگوں کی خدمت کرنا… بھوکے کو کھانا کھلانا… کئے ہوئے وعدے کو پورا کرنا… کسی انسان کو دکھ یا نقصان نہ پہنچانا… دنیا میں فتنہ و فساد نہ پھیلانا… ماں باپ کی فرمانبرداری کرنا… زمین پر اکڑ اکڑ کر نہ چلنا… علم کی قدر کرنا… ہوس پرستی اور زر پرستی سے اجتناب کرنا گفتگو میں نرمی اختیار کرنا… کسی انسان سے ایسا سلوک نہ کرنا ،جو ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ساتھ ہو… اخلاق کا سارا سفر مختصر طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ بے ضرر ہونے سے شروع ہوتا ہے اور منفعت بخش ہونے پر ختم ہوتا ہے۔
وہ جذبات اور وہ کوششیں جو انسان کے مجموعی ارتقاء کیلئے کی جائیں ،اخلاقیات کا حصہ ہیں۔
مہذب قومیں بااخلاق ہوتی ہیں۔ مہذب قومیں محنتی ہوتی ہیں۔ اپنے حق کے مطابق اپنا معاوضہ حاصل کرتی ہیں اور دوسرے کے حق کے مطابق ان کی خدمت کرتی ہیں۔ ہر مذہب نے اس مضمون پر وضاحتیں کی ہیں۔دنیا میں آنے والے مصلحین نے انسان کی خدمت کے مضمون کو واضح کیا ہے۔
اس حقیقت کو آشکار کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ آج رنگ و نسل ،فرقہ و قبیلہ ،عقیدتوں اور عقیدوں میں بٹے ہوئے انسانوں کو سکھایا جائے کہ وہ ایک نفس سے پیدا ہوئے ہیں۔ کثرت انسان وحدت آدم پر منتج ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو معلم اور مصلح کہا جاتا رہا ہے۔
ضابطہٴ اخلاق انسانوں کی بہتر سوچ کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ یہ سب ضابطہ بجا اور درست مانا جا سکتا ہے ،اگر انسانی زندگی دنیاوی سفر تک ہی محدود ہو۔
زندگی صرف ظاہری اخلاقی عمل تک ہی محدود نہیں۔ اس میں بے شمار عنوانات پائے جاتے ہیں اور یہیں سے ایک مفکر اور پیغمبر کا فرق شروع ہوتا ہے۔ پیغمبروں نے دنیا کو یہ بتایا ہے کہ زندگی ظاہری موت تک ہی نہیں ،اس میں ایک مابعد بھی شامل ہے۔ جب انسان سے اس کے اعمال کی باز پرس ہو گی اور اس کو اس کے اعمال کے بدلے جزا و سزا نصیب ہو گی۔ مذہب نے یہ بھی بتایا کہ یہ زندگی اور اس زندگی کیلئے بہتر نتائج کو سمجھنے کیلئے یہ بے حد ضروری ہے کہ انسان یہ سمجھ لے کر وہ یہاں کیسے آیا۔
کیا وہ اپنی مرضی اور اختیار سے آیا؟ اگر اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے آیا ہوتا تو وہ اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے یہاں سلامت رہتا۔ چونکہ وہ یہاں ہمیشہ ٹھہر نہیں سکتا اس لئے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس کو لانے اور واپس لے جانے میں کسی اور طاقت کا دخل ہے۔ اگر انسان صرف اپنے ماں باپ کے عمل سے پیدا ہوتا تو ماں باپ کو یہ حق ہونا چاہئے کہ وہ چاہیں تو بیٹے پیدا ہوں اور چاہیں تو بیٹیاں پیدا ہوں ،لیکن ایسا نہیں ہے۔
وہ کمزور ہیں ،بے اختیار ہیں ،مجبور ہیں اور اسی طرح انسان#
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
پیغمبروں نے یہ بتایا کہ اس کائنات کو پیدا کرنے والے نے ہی انسان کو پیدا فرمایا۔ جس نے چاند ستاروں کو تخلیق فرمایا ،انہیں روشن کیا ،اسی ہستی نے انسان کو صورت عطا کی۔ اسے ایک خاص مقصد اور مدت کیلئے اس جہان اجنبی میں بھیجا۔ اس طاقت کو بالعموم فطرت کہا جاتا ہے۔
پیغمبروں نے یہ بتایا کہ فطرت کو صنعت گری عطا کرنے والی ذات صانع عظیم ہے۔ وہ فاطر ہے ،زمین و آسمان اور ان میں ہونے والی تبدیلیوں کا… اور یہ کہ اس ذات بزرگ کا نام اللہ ہے اور پیغمبروں نے یہ بھی بتایا کہ اللہ کریم وہ ذات ہے جس کا نہ کوئی ماں باپ ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے وہ حی و قیوم ہے ،جو وقت کی پیدائش سے پہلے بھی موجود تھا اور وقت کے اختتام کے بعد بھی موجود رہے گا۔
یعنی وہ ہر مخلوق اور ہر آغاز سے قبل موجد تھا اور ہر انجام کے بعد بھی اپنی ذات میں قائم و دائم رہے گا۔ پیغمبروں نے یہ بھی بتایا کہ وہ اللہ نے جس زندگی کو تخلیق فرمایا ،جس نے انسان کو پیدا فرمایا ،اسی نے انسان کو اس سفر پر بھیجا اور اسی نے ایک مقصد حیات اور عرصہٴ حیات کا حکم دے رکھا ہے۔
پیغمبروں کی بات کو بالعموم باتوں کا پیغمبر مانا گیا۔
وہ منتخب لوگ اخلاقیات میں اس حد تک ارفع و اعلیٰ تھے کہ انہیں لوگوں نے سند مانا اور پیغمبروں نے یہ بات بڑی وضاحت سے بیان کی کہ اس زندگی کو ضابطہٴ اخلاق دینا انسان کے بس میں نہیں کیونکہ انسان ایک محدود سوچ رکھتا ہے ،ایک بڑے محدود عرصے کو دیکھ سکتا ہے۔ یہ تو صرف اسی ذات کا حق ہے جو زندگی اور موت دینے کی قدرت رکھتا ہے۔
نظام عبادات اسی ذات کے قرب کا ذریعہ ہے اور اسی طرح اخلاقیات بھی قرب حق ہے ،ایک ذریعہ ہے۔
اس بات کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ جب ہم نیکی ،بدی ،اچھائی ،برائی کے تصور کے مطابق عمل کرتے ہیں تو ہم کسی نہ کسی ذات کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ اگر وہ ذات کسی ملک کا بادشاہ ہو تو بادشاہ کی خوشنودی اخلاق کے نام پر ظلم پیدا کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیک بادشاہوں کے دربار میں بھی بد درباری رہے۔ بادشاہ رحم دل تھا لیکن اس کے مصاحب رعایا پر ظلم ڈھاتے رہے۔
اگر وہ ذات اپنی ذات ہے تو تجربہ بتاتا ہے کہ انسان ایک فاقے کو ٹالنے کیلئے اپنی عزت تک کا سودا کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔ اپنی خوشنودی نفس کی خوشنودی ہو جاتی ہے اور نفس کی خوشنودی اخلاقیات کو چھوڑ دیتی ہے۔ وہ ذات اگر اللہ کی ذات ہو تو اس میں حکومت ،مصلحت اور نفس پرستی شامل نہیں ہو سکتی۔ ایک سجدہ ہزار سجدوں سے نجات دلاتا ہے۔
یہاں پر مذہب کی اخلاقیات اور اخلاقیات کے مذہب میں فرق آتا ہے۔
اخلاقیات کا سفر صرف محدود ترین سفر ہے۔ اخلاقیات کا مذہب ،مذہب ہی نہیں ،یہ ہر آدمی اور ہر انسان کا اپنا اپنا مذہب ہو جاتا ہے۔ مذہب کی اخلاقیات ہر دور کیلئے ،ہر زمانے کیلئے ایک خوبصورت نتیجہ حاصل کرتی ہے۔ اس بات کی وضاحت یہ ہے کہ مذہب دراصل اخلاقیات میں الٰہیات کا شامل ہونا ہے۔ ہم جواب دہی کے تصور کے مطابق اللہ کے حکم کے مطابق ،نظام اخلاقیات پر کاربند رہیں تو انسان ،انسان کے قریب آ سکتا ہے اور انسان اللہ کی خوشنودی حاصل کر لیتا ہے۔
دنیا میں جتنے بھی مصلحین آئے ہیں ان میں سب سے بڑا ،معترب اور معزز نام حضور اکرمﷺ کا ہے۔ آپﷺ پوری کائنات کے انسانوں کیلئے معلم اخلاق ہیں۔ ایک طرف تو آپﷺ خدا کے انتہائی قریب ہیں اور ایک طرف آپﷺ انسانوں کے بہت نزدیک۔ بھوکے کو کھانا کھلایا جاتا ہے اس بات سے قطع نظر کہ وہ یہودی ہے یا کون ہے۔ آپﷺ کی رحم دلی کا کیا عالم بیان کیا جا سکتا ہے۔
آپﷺ نے کسی کو زندگی بھر اذیت نہیں دی ،کسی انسان سے بدلا نہیں لیا۔ فتح مکہ کے وقت آپﷺ نے پوچھا ”لوگو! آپ کو معلوم ہے کہ میں آج آپ کے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں۔ آپ سے کیا بدلہ لینے والا ہوں؟“لوگوں نے عرض کیا کہ ”آپ ہی بہتر جانتے ہیں۔“آپﷺ نے فرمایا کہ ”آج میں آپ سے وہ بات کہنے والا ہوں ،جو مجھ سے پہلے میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی کہ آج کے دن تمہارے لئے کوئی سزا نہیں۔
“آپﷺ کے مثالی اخلاق کی اور رحم دلی کی کیا بات کی جا سکتی ہے۔
آپﷺ ایک بار کسی غزوہ سے اپنے رفقاء کے ساتھ واپس تشریف لا رہے تھے کہ آپﷺ نے اپنے راستے پر دور سے دیکھا کہ ایک کتیا اپنے بچوں کو دودھ پلا رہی ہے۔ آپﷺ نے اپنے ساتھیوں کو حکم فرمایا کہ سفر روک دیا جائے اور راستہ بدل دیا جائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کتیا کے عمل میں رکاوٹ آئے اور ڈر کے مارے وہ اپنے بچوں کو دودھ پلانا چھوڑ دے۔
کتیا کے بچوں کے ساتھ یہ سلوک عام تو کیا ،خاص انسانوں کے بس کی بات نہیں ،بلکہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ آپﷺ ایسی ذات ہیں ،اس شان کی رسالت رکھتے ہیں کہ آپﷺ ہی کا حق ہے کہ آپﷺ حکم فرمائیں اور دنیا کے اخلاقیات کے ماہروں کا حق ہے کہ وہ آپﷺ کی اطاعت کریں۔
مزید وضاحت یہ ہے کہ انسان کو پتا ہی نہیں چل سکتا کہ اس کیلئے کیا اچھائی ہے اور کیا برائی ہے۔
بے شمار لوگوں نے دنیا میں اچھائی سمجھ کر برائی کی ہے۔ یعنی ایک ایسا کام جو بظاہر اچھا ہو اور جس کا نتیجہ برا ہو ،سرزد ہوتا رہا ہے۔ جس کی مثال جابر حکمرانوں کے دور سے دی جا سکتی ہے۔ فرعون کا یہ حکم کہ ”لوگو! تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ تم میرے سامنے جھکو اور میرے لئے یہی بہتر ہے کہ میں تم پر حکومت کروں۔“کچھ لوگ تو کہتے رہے ہیں کہ سب انسان برابر ہیں اور جب انہوں نے اپنی ذات میں اس کا ثبوت نہیں دیا تو پھر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ سب برابر تو ہیں ،لیکن کچھ لوگ زیادہ برابر یعنی حکومت کرنے والے کا حق اور ہے اور محکوم ہونے والے کا حق اور… اور اسی طرح اخلاقیات کے نام پر مصیبتیں نازل ہوتی رہی ہیں۔
یہ ممکن ہے کہ انسان اپنے لئے پسند کرے وہ چیز ،جو اس کیلئے نقصان دہ ہو اور ناپسند کرے وہ چیز ،جو اس کیلئے فائدہ مند ہو۔ اس کی عام مثال ان بچوں کی زندگی سے ملتی ہے جو وقت ضائع کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ حالانکہ اس کا نتیجہ ان کیلئے مصیبت ہے۔ انسان اپنے لئے آرام پسند کرتا ہے اور آرام طلبی کے ذریعے وہ مصیبتوں میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ اپنی مرضی کو تابع فرمان الٰہی کر دیا جائے۔
اگر الٰہیات کو اخلاقیات سے نکال دیا جائے تو تنہائی کے جرائم ،جرائم ہی نہیں رہیں گے۔ مجرم وہ ہوگا جو قانون کی زد میں آئے اور جو قانون کی نظر سے بچ جائے ،وہ مجرم ہی نہیں کہلائے گا ،لیکن الٰہیات کی شمویت کے بعد گنہگار ،گنہگار ہے ،چاہے لوگوں میں نیکو کار ہی کیوں نہ مشہور ہو۔ ایسا انسان بد ہے ،چاہے وہ ظاہر داری میں ایک بہت درویش صورت بن کر بیٹھ جائے۔
مزید وضاحت یہ ہے کہ اخلاقیات کا نظام جوابدہ ہے صرف زمانے کو اور دین میں اخلاقیات اور الٰہیات کا مجموعہ انسان کو جوابدہ کرتا ہے اس ذات کے آگے ،جس نے زندگی پیدا کی اور زندگی کو مدعا دیا کہ ”اے انسانوں اور جنات کے گروہ ،میں نے تمہیں عبادت کیلئے پیدا کیا۔“اب عبادت کی تعریف یہ کی جا سکتی ہے کہ وہ نظام عمل جس سے انسان ،انسانوں کی فلاح بھی کر سکے اور تقربِ الٰہی بھی حاصل کر سکے۔
اس کی اعلیٰ ترین شکل اور مکمل ترین صورت حضور اکرمﷺ کی ذات گرامی ہے۔ پس اخلاقی محمدیﷺ ہی اخلاق ہے اور شریعت محمدیﷺ ہی ذریعہ ہے ،قرب حق کا۔
اسلام میں رہبانیت منع ہے۔ خدا کوچھوڑ کر بندوں میں مصروف رہنا بھی رہبانیت کی ایک شکل ہے اور انسانوں کو چھوڑ کر عبادت میں مصروف رہنا بھی ایک طرح کی رہبانیت ہے۔ برائی اچھائی کے تصور کے ساتھ اخلاقیات میں الٰہیات کی شمولیت سے جرم اور گناہ کا فرق معلوم ہو سکتا ہے۔
جرم حکومت کے حکم کی خلاف ورزی ہے اور گناہ الٰہیات کے حکم کے خلاف عمل کا نام ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایک چیز گناہ ہو اور وہ جرم نہ کہلائی جائے۔ یہیں سے اس دھوکے کا امکان ہے جو ”ہیومنزم“کے نام پر کھایا جاتا رہا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ انسان دوستی اور انسان نوازی تو کی جائے لیکن انسان پرستی نہ کی جائے ،پرستش اللہ کی اور خدمت انسان کی… یہی ہمارا ”ہیومنزم“ہے۔
بس اپنے محترم قاری سے وضاحت کے ساتھ گزارش ہے کہ ہم کسی ”ہیومنزم“کے نام پر کوئی تحریک نہیں چلا سکتے۔ ہم صرف ایک ہی تحریک مانتے ہیں ،وہ تحریک ہے ،محسن انسانیتﷺ کی عطا کی ہوئی کہ انسانوں کو انسان کی خدمت کے ساتھ ساتھ خدا کی طرف مائل کرو اور اللہ کو اس کی رحمت کے ساتھ انسانوں پر مہربان ہونے کی گزارش کرتے رہیں۔ ہمارے لئے اتنا عمل اور اتنا علم اور اتنا ہی اخلاق کافی ہے۔

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif