Episode 26 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 26 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

جہاں میں ہوں
میں سوچتا ہوں کہ میں کہاں ہوں۔ یوں تو میں اپنے آپ میں ،اپنے گھر میں ہوں ،اپنے حالات اور مسائل میں ہوں ،اپنے فکر و ذکر میں ہوں ،اپنے غم اور اپنی خوشیوں میں ہوں ،لیکن میں سوچتا ہوں کہ شاید میں کہیں بھی نہیں ہوں۔ میں اپنے نام کے پردے میں چھپا ہوا ایک راز ہوں۔ شاید بہت پرانا… غالباً قدیم۔ میں مالک کے ارادے میں تھا ،اس کے حکم کے تابع ہوں اور اس کے روبرو حاضر رہنے کے انتظار میں ہوں۔
میں اپنے پروگراموں میں بہت مصروف ہوں ،یہاں تک کہ میں خود بھی بھول جاتا ہوں کہ میں ایک راز ہوں ،لیکن یہ راز اتنا سربستہ بھی نہیں۔ میں اپنے اظہار میں بھی رہتا ہوں اور یہ راز کہ میں راز بھی ہوں اور اظہار میں بھی ہوں ،میری سوچ کا باعث ہے۔ راز کس نے بنایا اور اظہار میں کون آیا؟ یہاں سے سوچ کا آغاز ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

میرے تخلیق ہونے میں میرا کوئی داخل نہیں ،یہ سب اس کی منشا اور اس کے ارادے اور اس کے حکم سے ہوا۔

اس طرح میرا ہونا ،میرا ہونا نہیں یا یوں کہہ لیں کہ میرا ہونا ،میرا نہ ہونا ہے۔ میں خود کسی کا پروگرام ہوں۔ میرا اپنا کیا پروگرام ہو سکتا ہے؟ میں بس چل رہا ہوں ،جو ساتھ ہے اس کی تلاش میں ہوں اور یہ تلاش ایک لامتناہی سفر ہے۔ اگر ہم پیدا ہوتے اور پھر مر جاتے تو کوئی بات نہیں تھی۔ یہاں تو اس سفر کے بعد ایک اور سفر ،ایک اور انتظار موجود ہے۔
گویا کہ مر جانا ،مر جانا نہیں۔ اگر مر جانا ،مر جانا نہیں تو پھر جینا کیا جینا ہے؟
پھر بھی جب تک ہم ہیں ،ہم ہیں اور میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ میں ،میں سے ہم کب ہو جاتا ہوں۔ کیا میں ایک فرد ہوں یا میں ایک بے انتہا سلسلہ افراد کا مجموعہ ہوں؟ یہ سوال میرے لئے اہم ہے کہ میں یہاں ہوتا ہوں اور مجھے میرے وہاں ہونے کی بھی اطلاعات ملتی ہیں۔
میں کبھی صرف ذکر ہوں۔ ذکر کامطلب اظہار یعنی بیان اور کبھی میں ذاکر ہوں یعنی بیان کرنے والا اور کبھی میں مذکور ہوں ،میں بیان ہوتا ہوں۔ گویا کہ ذاکر ،ذاکر اور مذکور ایک ہی ذات ہے۔ میں اس ذکر کی بات کر رہا ہوں جو ذکر اکبر ہے ،میں تو ایک سوچ کی بات کر رہا ہوں کہ جہاں تک میرے تذکرے ہیں میں وہاں تک ہوں اور جہاں مجھے کوئی نہیں جانتا ،وہاں میں کیسے ہو سکتا ہوں؟ اور میں جانتا ہوں کہ میں اپنے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
میرے غم عارضی ہیں ،میری خوشیاں عارضی ہیں ،میرا گرد و پیش عارضی ہے۔ میری محبت اور نفرت عارضی ہے۔ میری صحت اور بیماری عارضی ہے اور یہ سب کچھ جاننے کے باوجود میں اپنے آپ کو عارضی نہیں مان سکتا۔
اتنی بڑی خوبصورت کائنات جس کو دیکھ دیکھ کر قادر کی قدرت کے جلوے میسر آتے ہیں ،مجھے عارضی نہیں ہونے دیتی۔ میں اپنی پسند کا منظر ہوں ،بلکہ اپنی پسند کے مناظر ہوں ،میں ان نظاروں میں رہتا ہوں اور یہ نظارے ہمیشہ سے ہمیشہ تک ہیں۔
ان نظاروں کو چاہنے والا ،عارضی کیسے ہو سکتا ہے۔ میں یوں تو ایک فرد واحد ہوں لیکن میں وہ ذرہ ہوں جو صحرا میں ہے۔ وہ قطرہ ہوں جو قلزم میں ہے۔ وہ انسان ہوں جو انسانوں میں ہے۔ بظاہر انسان مر جاتا ہے لیکن انسان کبھی نہیں مرتا۔ انسان زندہ چلا آ رہا ہے۔ یہ خالق اور مخلوق کی بات ہے۔ انسانوں میں ہونا یا فرد ہونا الگ الگ مقامات ہیں۔
میں اس راز کو حل کرنا چاہتا ہوں کہ میرے خیال کیوں میرے خیال نہیں ہیں؟ میں حال میں ہوں لیکن میرا علم ،میری دینی تعلیم ،میری محبتیں ماضی میں ہیں۔
میری عقیدت ماضی سے وابستہ ہے۔ اگر ماضی یک لخت ختم ہو جائے تو میرے پاس میرا دین بھی نہیں رہ جاتا۔ میری تاریخ ختم ہو جاتی ہے۔ میرے تمام قواء مفلوج ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ گویا ایک وسیع پس منظر کے آگے ایک دیوار سی بن جاتی ہے۔ میں ماضی میں رہتا ہوں۔ ان لوگوں کی یاد میں رہتا ہوں جن کو میں نے دیکھا نہیں۔ جو میرے ہم عصر نہیں۔ مجھے ان سے عقیدت ہے۔
میں مزار کو بھی ایک راز سمجھتا ہوں۔ ایک پردہ ہے جس کے پیچھے بہت سی تجلیات چھپی ہوئی ہیں۔ میں ان کے خیال میں رہتا ہوں ،وہ میرے خیال میں رہتے ہیں۔ گویا میں وہاں ہوتا ہوں ،جہاں میں نہیں ہوتا۔ میرے سامنے وہ نظارے ہیں جو میرے سامنے نہیں ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ کیسے ہو گیا کہ میں چلتے چلتے کہیں اور چلا گیا۔ میری رہائش کہیں ہے اور میں رہتا کہیں اور ہوں۔
میں مزارات کے بارے میں سوچتا ہوں ،خانقاہوں کے بارے میں سوچتا ہوں۔ یا اللہ یہ کون لوگ تھے کہ جن کے ہاں مر جانے کے بعد بھی میلہ لگا رہتا ہے۔ انہوں نے موت کو میلہ بنا دیا اور ہم ہیں کہ زندگی پر بھی سکوت مرگ مسلط ہے! میں سوچتا ہوں کہ میں کس حد تک اس بات کو سوچتا رہوں گا کہ یہ سب کیا ہے؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں بھی بھوک لگنے پر کھالوں اور نیند آنے پر سو جاؤں۔
اپنے آپ میں رہوں ،اپنا بھلا سوچوں اور صرف اپنے لئے زندہ رہوں اور صرف اپنے لئے مر جاؤں۔ لیکن یہ بات تو ممکن نہیں ،میں اپنے عزیزوں میں تقسیم شدہ ہوں۔ اپنی چاہتوں میں بکھرا ہوا ہوں اور اپنے خیال کی رفعتوں تک وسیع ہوں۔ میں ایک سلسلہ ہوں کہ پچھلے سلسلے کی آخری کڑی ہوں اور آنے والی نسلوں کا آغاز بھی ہوں۔ مجھ پر اختتام ہے اور مجھ سے ہی آغاز ہے۔
مجھے یاد ہے کہ میں ابھی کچھ عرصہ ہوا شے مذکور نہیں تھا اور اب میں کہیں نہ کہیں ہوں۔ یہ مختصر سی موجودگی نہایت ہی مختصر ہے۔ ایک چنگاری ہے کہ چمکتی ہے اور غائب ہو جاتی ہے۔ آج بھی بے شمار مقامات پر ہم کسی شمار میں نہیں ہیں۔ نتیجہ پھر وہی نکلتا ہے کہ میرا ہونا ،میرا نہ ہونا ہے۔ میں ایک گھونٹ چشمہ بقا سے پیتا ہوں اور دوسرا گھونٹ بحر فنا سے اور اس طرح میں مرتا جیتا رہتا ہوں۔
کبھی میں محبت بن کر کسی کے دل میں دھڑکتا ہوں اور کبھی نفرت بن کر کسی کے اندر آگ لگا دیتا ہوں۔ میں چلتے چلتے ٹھہر جاتا ہوں اور ٹھہرتے ٹھہرتے چل پڑتا ہوں۔ کبھی راہ سے بے راہ ہو جاتا ہوں اور کبھی گمراہی کی منزلوں میں راستوں کا نشان بنا دیا جاتا ہوں۔ میں کبھی نظروں میں سماتا ہوں اور ان نظروں سے گر جانے کا عمل بھی جانتا ہوں۔
میں دیکھتا ہوں ،میرے اندر کوئی رہنما جذبہ کارگر ہے ،جس کے دم سے میں چل رہا ہوں۔
میں اس کی عطا کے سامنے اپنی خطا کا ذکر نہیں کرتا۔ میں تو ہوں ہی خطا اور وہ۔ سراپا عطا۔ بہرحال میں سوچتا ہوں کہ یہ راز کیا ہے اور پھر یہ بھی سوچتا ہوں کہ یہ راز جو کھٹک رہا ہے اپنے سینے میں اور اپنے اظہار کیلئے بے تاب… یہ راز اصل میں ہے کیا؟ کیا یہ صرف انفرادی راز ہے یا یہ وہ راز ہے؟ وہ۔ جس کا اظہار ،انتظار کیا جا رہا ہے۔
یہ عجب بات ہے کہ ایک بے قرار دل غزل کہہ دے اور ہزاروں بے قرار دلوں کو قرار آ جائے۔
مصنفین اپنی کتابوں کی شکل میں اپنے مرنے کے بعد بھی اپنے چاہنے والوں کی لائبریری میں محفوظ رہتے ہیں۔ کیا انسان اپنا وجود ہے یا اپنا نام… بس اس نام کے پردے میں ایک راز ہے اور اسی راز کے بارے میں ،میں غور کر رہا ہوں۔
ہم اپنی چاہتوں میں زندہ رہتے ہیں۔ محبوب ہماری زندگی ہے۔ محبوب کے ہونے سے ہم زندہ ہیں ،محبوب کے مر جانے سے ہم مر جاتے ہیں۔
لیکن نہیں… محبوب نہیں مرتا ،کیونکہ محبوب کی ذات یاد بن جاتی ہے اور اپنے طالب کے دل میں رہتی ہے ،گویا کہ ہم محبوب کے دم سے زندہ ہیں اور محبوب ہمارے دم سے… وہ ہمارا مذکور ہے۔ وہ ہمارے احساس میں ہے۔ ہماری یاد میں ہے۔ ہمارے پاس ہی ہے۔
پھر میں سوچتا ہوں ،یہ جو سب بزرگ رخصت ہو چکے ہیں۔ یہ ہماری یاد میں ہیں ،ہمارے احساس میں ہیں۔ پھر یہ زندہ ہیں کیونکہ یہ زندگی میں رہتے ہیں۔
زندگی ہم ہیں اور یہ ہم میں ہیں۔ ہم جس کی محبت میں ہیں وہ ہم میں موجود ہے۔ یہاں میں یہ سوچتا ہوں کہ جن لوگوں میں جتنی بڑی محبت ہے ،وہ اتنے بڑے زندہ ہیں۔
سب سے بڑی محبت اللہ کے محبوبﷺ سے ہو سکتی ہے۔ یہ محبت رکھنے والا فنا ،بقا سے اگلی منزل کا مسافر ہے۔ یہ وادی تجلیات کا رہبر ہے۔
بہرحال ایک عجب راز ہے کہ یہ سب راز ہے اور میں اس راز کے پردے میں۔
اس پردے کو اٹھانا بس کی بات نہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ میری نگاہ جس چیز کو دیکھتی ہے وہ چیز میرا علم بن جاتی ہے۔ میری یاد بن جاتی ہے۔ میری نفرت اور محبت بن جاتی ہے۔ گویا کہ میں دور تک پھیلا ہوا سلسلہ ہوں۔ میں حاصل اور محرومیوں سے آزاد ہو کر سوچتا ہوں کہ اس راز کی چابی کیا ہے؟ یہ کیا وجہ ہے کہ ایک آدمی پہلی دفعہ ملتا ہے اور ہم سوچنے لگ جاتے ہیں کہ ہم اسے پہلی بار سے پہلے بھی مل چکے ہیں اور یہ بھی عجب بات ہے کہ کچھ لوگ ہمارے قریب رہتے ہیں ،ہمیں نظر آتے ہیں لیکن ہمیں محسوس نہیں ہوتے
میرے لئے بے شمار لوگوں کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔
کبھی کبھی میں اخبار کے اخبار پڑھ جاتا ہوں اور ان میں کبھی کوئی خبر نظر نہیں آتی۔ میں جس کو سننا چاہتا ہوں وہ بولتا ہی نہیں ،جسے دیکھنا چاہتا ہوں وہ نظر ہی نہیں آتا۔ جس کا ثبوت نہیں اس کو مانتا ہوں ،جس کو دیکھا ہی نہیں اس کی محبت میں سرشار ہوں۔ میں کہاں کہاں سے آیا ہوں؟ میں کن اجزاء سے مرتب ہوا ہوں؟ کسی اور کا عمل میرا علم بن جاتا ہے اور کسی اور کا علم میرا عمل بن جاتا ہے۔
کسی اور کی صورت میری محبت بن جاتی ہے اور کسی اور کا چہرے میرے لئے نفرت۔ اکثر اوقات میری کسی خطا کے بغیر میری سزا بن جاتی ہے اور اکثر و بیشتر میری خطا مجھے در عطا پر جھکا دیتی ہے۔
یہ عجب راز ہے کہ یہ راز ایسا ہے کہ اس کو جتنا بیان کرو ،اتنا ہی بیان نہیں ہوتا۔ یہ وہ راز ہے جو تلاش کرنے والوں کو حاصل نہیں ہوتا کیونکہ یہ خود ہی تلاش ہے۔
جس کو ملتا ہے اس کو بتائے بغیر ملتا ہے کہ یہ راز ہے۔ یہ راز کئی شکلیں اختیار کر سکتا ہے۔ ایک سائل آتا ہے ،دروازے پر دستک دیتا ہے ،خیرات کا سوال کرتا ہے۔ انکار پر وہ کہتا ہے ”مجھے غور سے دیکھو ،میں تمہارا راز ہوں۔ میں بخیل کو سخی بنانے والا نسخہ ہوں۔ عبادت اس منزل پر نہیں پہنچاتی جہاں میرے دل سے نکلی ہوئی دعا۔ بیٹا دعائیں لو۔ یہ نیکی ہے۔
انسان خالق کا مظہر ہے۔ اس کی قدر کرو۔ یہ تم ہی ہو۔ تمہارا بھائی ،تم ہی ہو ،جس طرح تمہارا ہاتھ تم ہی ہو ،تمہاری آنکھ تمہاری ہے لیکن نہیں… یہ جلووں کی ہے ،انہوں نے تیرے پاس آنے کا یہ راستہ بنا رکھا ہے۔ اصل میں جلووں کا آنا مقصد ہے۔ تم جلووں کیلئے ہو۔ گویا کہ تم جلووں میں ہو۔ جب تم ہی جلووں میں ہو تو پھر تم خود ایک جلوہ ہو۔ تمام نظاروں کی کنجی تیری آنکھ میں ہے۔
تیری آنکھ نظاروں کا ایک حصہ ہے۔ یہ نہ ہو تو نظاروں کا حسن ختم ہو جاتا ہے ،گویا کہ نظاروں کی جان تیری آنکھ ہے۔ کبھی اپنی آنکھ کا نظارہ دیکھنے کی کوشش کرو۔ نہیں۔ یہ راز ،راز ہی رہے گا کہ آنکھ کی نظر کیا ہوتی ہے اور منظر کی آنکھ کیا؟ یہ ساتھ رہتے ہیں اور پہچان نہیں ہوتی۔
انسان خود ہی کسی کا راز ہے۔ وہ خود کیا راز دریافت کرتا ہے؟ لیکن ابھی وہ راز ،اظہار کے انتظار میں ہے۔
اسے معلوم کرنے کی کوششیں صدیوں سے ہو رہی ہیں۔ اقبال کو قدسیوں نے بشارت دی ”وہ راز اب آشکار ہوگا!“ اس راز کا راز یہ ہے کہ جو شخص س راز کو دریافت کرنے نکلتا ہے ،وہ خود ہی راز کا حصہ بن جاتا ہے۔ نگاہ یار انسان کو آشنائے راز کرتی ہے لیکن راز آشنا ،راز بیان کرنے کی بجائے جلوہ نگاہ یاد میں کھو جاتا ہے۔ اس کے زمین و آسمان بدل جاتے ہیں۔ وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے کسی اور دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔
وہ باتیں کرتا ہے۔ سننے والے کہتے ہیں یہ سب بہکی بہکی باتیں ہیں کیونکہ وہ جانتا ہے اور سننے والے جانتے نہیں اور جاننے والے سنتے نہیں اور اس طرح یہ راز گونگے کا خواب بن کر رہ گیا ہے جس کو دیکھنے والا گونگا تھا ،سننے والے کیا سنتے؟ بہر نوع… اس راز کے اندر بہت سارے سربستہ راز ہیں۔
ہو سکتا ہے ،اس راز کے اندر وقت کے فاصلے سمیٹنے والا راز بھی ہو کہ آج کی دنیا میں رہنے والا ہو سکتا ہے ،کل کی دنیا میں بھی موجود ہو۔
کل تو گزر گیا اور کل میں موجود ہونا کیا بات ہوئی؟ جس طرح آج کا طالب بیان کرے کہ وہ کسی اور محفل میں ہے۔ وہ محفل جس کو نظر سے اوجھل ہوئے صدیاں بیت گئی ہیں۔
ہو سکتا ہے آج کا طالب کل کے محبوب کے در پر زندہ ہو۔ اس راز میں سکتا ہے کہ ہر اسم اپنے جسم کے ساتھ نظر آ سکے اور جو لوگ راز آشنا ہوں وہ روز اول اور روز ابد کو ایک لمحہ سمجھیں… ایک ہی لمحہ… جو پھیلے تو صدیوں پر محیط ہو جاتا ہے۔
اس لمحے کی دریافت ہی راز کی دریافت ہے۔ اس راز کا اظہار ابھی سربستہ راز ہے۔ یہ وہ واقعہ ہے جو ہے ،لیکن ابھی رونما نہیں ہوا۔ یہ وہ روشن سورج ہے جو طلوع ہونے والا ہے اور یہ سورج ہمیشہ طلوع ہی ہونے والا ہوتا ہے اور… کبھی طلوع نہیں ہوا۔ جن لوگوں نے راز دریافت کیا ،انہوں نے ہی راز چھپایا۔
یہ راز ایک راز قدیم ہوتے ہوئے ایک جدید اظہار سے گریزاں ہے۔
یہ ایک پراسرار گہرائی ہے ،جو اس میں اترتا ہے ،وہ اترتا ہی چلا جاتا ہے۔ جو لوگ راز دریافت کرنے گئے وہ اپنے سفر سے واپس نہیں آئے۔ لیکن یہ بھی سوچنا پڑتا ہے کہ جب اس نے انسان کو بیان کا علم دے دیا ،تو اب کسی بات کو مخفی رکھنے کا کیا جواز؟ راز کو کھول دیا جائے تو بہتر ہے ،لیکن راز کو راز ہی رہنے دیا جائے تو شاید اس کا اظہار آسان ہو جائے۔
خاموشی بہت بڑا راز ہے۔ اس راز کو سنا جا سکتا ہے۔ زبان وہ بات کہہ ہی نہیں سکتی ،جو سکوت سے بیان ہوتی ہے۔ جہاں میں ہوں ،وہاں یہی کچھ ہے۔ یہ سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں۔ جہاں ہونا ،نہ ہونا ہوتا رہتا ہے۔ جہاں منظر بدلتے رہتے ہیں۔ یہی زندگی ہے اور یہ زندگی موت سے دامن بچا کر نکل جاتی ہے۔ پھر بھی اس راز کو مخفی ہی رہنا چاہئے۔ یہ راز کھل گیا تو کوئی نیا ہی گل کھل جائے گا۔ انتظار میں زندہ رہنا زندگی ہے۔ میں زندگی میں ہوں اس لئے جہاں میں ہوں ،وہاں زندگی ہے، حیات ہے اور راز کے اظہار کا انتظار ہے۔

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif