Episode 23 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 23 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

منزل
زندگی جہاں چاہے جب چاہے ،شروع ہو سکتی ہے اور جہاں چاہے جب چاہے ختم ہو سکتی ہے۔ عجب بات تو یہ ہے کہ زندگی سے پہلے بھی زندگی تھی اور زندگی کے بعد بھی زندگی رہے گی۔ ہم اپنی پیدائش سے اپنی موت تک تقریباً ساٹھ سال کے عرصے میں منزلوں کا ذکر کرتے ہیں ،منزلوں کا تعین کرتے ہیں اور منزلوں کی تلاش کرتے ہیں ،یہ سمجھتے ہوئے کہ یہی تلاش اور یہی حاصل ہی کل کائنات ہے۔
حالانکہ ہمارے دنیا میں آنے سے پہلے بے شمار لوگ اپنی منزلوں کو پا بھی چکے۔ ان لوگوں نے اپنی اپنی محنتوں ،کاوشوں اور تلاش کے جھنڈے گاڑ دیئے اور جو مقامات وہ لوگ حاصل کر گئے ،اب کسی قیمت پر بھی وہ مقامات ہم حاصل نہیں کر پاتے۔ پھر بھی ہم منزلوں کی تلاش میں رہتے ہیں جبکہ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ ہمارے بعد بھی یہی مقصد ہوگا اور یہی کارواں ہوں گے اور یہی منزلیں ہوں گی۔

(جاری ہے)

پھر بھی ہم اسی خیال میں گم ماضی اور مستقبل سے بے نیاز بلکہ حال سے بھی بے خبر، اپنے مقصد کو اپنی منزل کہتے ہوئے مسلسل بڑھتے رہتے ہیں اور کبھی مقصد پا لیا تو صاحب منزل کہلائے اور اگر مقصد نہ پا سکے تو بھی صاحب نصیب ہی کہلائے۔
منزلوں کے راستوں میں دم توڑ جانے والے بھی صاحبان منزل ہی ہوتے ہیں۔ مقصد سے حاصل تک سارا سفر تمام کیفیات ،تمام آسائشوں اور تکلیفوں سمیت منزل ہی کہلاتا ہے یعنی نیت بھی منزل ،عزم سفر بھی منزل ،سفر بھی منزل اور اگر کوئی ہم سفر مل جائے تو وہ بھی منزل اور اگر کوئی رہنمائے سفر مل جائے تو وہ بھی منزل اور اگر مقصد کا قرب مل جائے تو وہ بھی منزل اور اگر مقصد حاصل ہو جائے تو وہ بھی منزل اور کبھی کبھی انسان مقاصد سے آگے نکل جائے تو بھی منزل یعنی ورائے منزل بھی منزل ہی ہے۔
جیسے مشرق سے پرے بھی مشرق ،مغرب کے پار بھی مغرب ہی ہے۔ منزلوں کے راستوں پر ایک ایک نقش قدم نشان منزل ہے اور نشان منزل بھی منزل ہے۔
منزل حاصل کرنے کا کوئی خاص فارمولا نہیں ہے۔ یہ منزل کا اپنا کمال ہے کہ وہ اپنے مسافروں کو اپنے حضور طلب کرتی رہتی ہے۔ خود ہی ان میں ذوق پیدا کرتی ہے ،خود ہی سفر کا انتظام کرتی ہے اور خود ہی ہم سفری کے فرائض ادا کرتی ہے اور کسی وقت کسی نکتے پر خود ہی اپنے مسافروں کو خوش آمدید کہتی ہے ،مسکراتی ہے اور نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔
منزل کا تصور بہت بڑا کرشمہ ہے۔ انسان زمین پر رہتے ہوئے محسوس کرتا ہے کہ آسمانوں پر رہ رہا ہے۔ وہ آبادیوں سے مختلف ہو جاتا ہے۔ لوگ سو رہے ہوتے ہیں ،وہ جاگ رہا ہوتا ہے۔ لوگ جشن مناتے ہیں ،وہ زندگی کی اداس حقیقتوں پر عارفانہ نگاہ رکھتا ہے۔ لوگ آغاز کے نشہ آور لمحات میں مست ہوتے ہیں اور وہ اداس انجام کی تلخیوں کے نتائج سے نبردآزما ہوتا ہے۔
صاحب منزل کسی خاص نقطے پر نہیں پہنچتا بلکہ وہ حقائق کا نکتہ دان ہوتا ہے۔ یہ سب دینے والے کا احسان ہے کہ وہ کسی انسان کو کیا عطا کر دے۔ بے خبر زندگی میں باخبر ہو جانا منزل کا احسان اولیں ہے۔
منزل دینے والے کا احسان ہے۔ اس کا کوئی فارمولا نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی نے دار پر چڑھ کر منزلوں سے وصال کیا۔ منزلوں کا جلوہ دیکھا۔ وصال کی لذت سے آشنا ہوئے۔
منزل آئی اور زندگی گئی۔ کیا عجب مقام ہے۔ شاید منزل کا حصول جان کے جانے سے مشروط ہے۔ کہیں راہ فراق واصل منزل ہو رہا ہے۔ جدائی کے زمانے محبت کے پروان کے زمانے ہیں۔ یہ بڑے غور کا مقام ہے کہ کسی کو محبوب نہ ملا اور منزل مل گئی ،جبکہ اس کے خیال میں محبوب ہی منزل تھا۔
یہ بات انسانی سمجھ سے بالا ہے کہ انسان جان ہار جائے اور مقصد جیت لے۔
اکثر ہارنے والوں نے منزلوں کو جیتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ میدان کربلا میں جنگ ہار گئی اور مقصد جیت لیا گیا۔ امام قربان ہوئے اور اسلام زندہ ہوا۔ جان دینا بڑے راز کی بات ہے لیکن اس میں بہت غور اور فکر کی ضرورت ہے۔ قربانی اور خود کشی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ خود کشی کرنے والے برباد ہو جاتے ہیں اور قربانی دینے والے شادابیٴ منزل میں پہنچا دیئے جاتے ہیں۔
قربانی سے حاصل ہونے والی منزلیں ایک عجب لطف رکھتی ہیں۔ منزلوں پر پہنچنے والے بہت بڑے انتظامات کے قائل نہیں ہوتے۔ وہ ایک جذبے کے ماتحت سفر کرتے ہیں۔ وہ جذبہ بھی بے پناہ جذبہ۔صاحبان منزل کے پاس جذبوں کی فراوانی ہوتی ہے۔ وہ صاحبان یقین ہوتے ہیں۔ راستے میں دم توڑ جائیں ،تو بھی دامن محبوب نہیں چھوڑتے۔
ایک صاحب منزل نے کچے گھڑے پر تیر کر منزل محبوب کی طرف سفر کیا۔
کچا گھڑا تھا ،ڈوب گیا لیکن اس ڈوبنے والے گھڑے نے وہ رنگ دکھایا کہ آج تک چناب کی لہریں اس منظر کو یاد کرتی ہیں اور دل والے ان لوگوں کو اپنا پیشرو کہتے ہیں۔ منزل کا سفر شاید قدم کا ہی نام ہے۔ یقین کے ساتھ اٹھایا ہوا پہلا قدم جو جانب منزل ہو ،وہی منزل ہے۔
منزل کسی جغرافیائی مقام کا نام نہیں ہے۔ کسی فاصلے کی لمبائی کا نام نہیں ہے۔
کسی قابل دید منظر کا نام نہیں ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے روشن نکتہ بھی کہا جاتا رہا ہے ،جو انسان کے اپنے اندر موجود ہوتا ہے اور اس کا حصول ،اس کا قرب ،اس کا عرفان ہی حصول منزل کہلاتا ہے۔ کسی دور کے نظارے کو حاصل نہیں کرنا بلکہ اپنا انداز نظر ہی حاصل کرنا ہے اور اگر قسمت ساتھ دے اور وہ انداز نظر مل جائے تو پھر ہر ذرے میں کئی آفتاب موجود نظر آئیں گے۔
ہر قطرہ قلزموں کو جنم دینے والا ہوگا اور انسان خود کو اپنی نگاہ میں کسی عظیم ماضی کا حرف آخر سمجھے گا اور اپنے آپ ہی کو آنے والے زمانوں کا آدم گردانے گا۔
فرد ،فرد ہی ہے لیکن فرد ہی سے ملتوں کا ظہور ہے۔ دیکھنے کا انداز ہے۔ میں بہت سی وجوہ کا نتیجہ ہوں اور میں ہی بہت سے نتائج کی وجہ ہوں۔ میرا ہونا بہت کچھ ہونے کے برابر ہے اور میرا ہونا بھی کیا ہونا۔
میں نہ ہوتا تو شاید یہ کچھ بھی نہ ہوتا اور اب میں ہوں تو بھی کچھ نہیں ہوں۔ یہی شعور منزلوں کی طرف گامزن کرتا ہے۔ میں ایک عظیم فنکار کا شاہکار ہوں اور میں اپنے فنکار کی تلاش میں سرگرداں ہوں۔ وہی میرا مقصد ہے۔ وہی میری منزل اور اس کی پہچان کا صرف ایک راستہ بنایا گیا کہ خود کو پہچانو۔ اپنی ذات کی منزل طے کرو۔ اس کی ذات کی رسائی ہو جائے گی اور وہ ذات لامحدود اور لافانی۔
ہر جگہ موجود ،ہر مقام پر حاضر ،ہر شے پر وارد ہر ہونے کا باعث ،ہر نہ ہونے کی وجہ ،بنانے والی ذات ،زندہ کرنے والی ذات ،مارنے والی ذات ،ذات مطلق کو تلاش کرنے کا اور کیا طریقہ ہو سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کسی نے اسے آنکھ کے پردے کے اندر دیکھا ،کسی نے اسے پردے سے باہر دیکھا ،کسی نے صحراؤں کے اندر اپنی منزل پائی ،کسی نے گلی کوچوں میں رسوائیاں حاصل کرکے اسے تلاش کیا۔
کوئی اس کی تلاش میں مارا گیا۔ کچھ لوگوں کو اس نے خود مار دیا۔ وہ ذات اپنے چاہنے والوں کو الگ الگ مقامات پر نوازتی رہی۔ وہ دار پر بھی ملا اور سنگ دریار پر بھی۔ ہر ایک نے اپنے آپ کو صاحب منزل ہی سمجھا۔ کچھ لوگ خاموش رہ کر مقامات پا گئے، کچھ لوگ گویائی کے چراغ جلا کر روشن چراغ ہو گئے۔ کچھ محبوب بنا دیئے گئے ،کچھ محب بنا دیئے گئے اور دونوں ہی صاحبان منزل ہوئے۔
یہی تو کمال ہے عطا فرمانے والے کا کہ دل بھی اس نے بنایا ،دلبر بھی اس نے بنایا ،دلبری بھی اس نے پیدا فرمائی۔ جلوے بھی اس نے عطا فرمائے۔ سوز دل پروانہ بھی اس نے عطا کیا۔ درد کے نغمات اس نے عطا فرمائے اور پھر اس نے خود ہی نغمات سنے اور ان لوگوں کو منزلوں کے تحفے تقسیم کئے۔ اس ذات کی طرف سے ملنے والی ہر شے اعجاز منزل ہے۔
کبھی کبھی وہ اپنے مسافروں کو صاحب اسرار بناتا ہے اور کبھی کبھی ان کے ساتھ رہتے ہوئے بھی انہیں اپنی خبر تک نہیں ہونے دیتا۔
وہ لوگ منزل پر ہوتے ہیں اور منزلوں کی تلاش میں ہوتے ہیں ،جس طرح سمندر میں رہنے والی مچھلی پانی کی تلاش میں ہو۔ وہ پانی کو دیکھنا چاہتی ہے ،دور سے۔ اب پریشانی تو یہ ہے کہ جب تک وہ پانی میں ہے ،پانی کو دیکھ نہیں سکتی اور جب پانی کو دیکھنے کیلئے پانی سے جدا کر دی جائے تو وہ زندہ نہیں رہتی۔ یہی عالم ان متلاشیوں کا ہے جو منزلوں پر ہیں اور منزلوں کی تلاش میں ہیں۔
منزلیں ان کی ہم سفر ہیں اور وہ پھر بھی سفر میں ہیں۔ دراصل سفرالی اللہ ہی سفر مع اللہ ہے۔ منزل کسی خاص نقطے یا مقام کا نام نہیں ہے۔ یہ تو ایک نکتہ ہے جو وا ہو جائے تو بات بن جاتی ہے۔
وہ لوگ جنہیں ہم محروم منزل سمجھتے ہیں ،دراصل وہ بھی محروم نہیں ہیں۔ یہ ہمارا اپنا ادراک ہے۔ کبھی ہم سمجھ سکتے ہیں ،کبھی ہم نہیں سمجھ سکتے۔ بنانے والے نے یہ کھیل بنایا ہے کہ سب کچھ موجود ہے ،موجود رہے گا اور موجود کی گواہی دینے والا ہی غیر موجود ہو جائے گا۔
کیا تلاش ،کیا سفر اور کیا منزل۔
ہماری منزل دینے والے کی منشا کا نام ہے۔ وہ جتنا کچھ دکھائے گا ،وہی ہمارا حاصل ہے۔ اس کے علاوہ تو شاید ہمیں معلوم ہی نہیں کہ یہاں کیا کچھ رکھا ہے۔ کتنی منزلیں ،کتنے انعامات ،کتنی سرفرازیاں انسان کیلئے موجود ہیں لیکن مجبوری ہے کہ انسان کے پاس لامحدود وقت نہیں ہے۔ خزانے لامحدود ہیں۔ منزلیں لامحدود ہیں۔
محدود زندگی میں ایک فانی انسان کیا منزل تعین کرے؟ کس سفر پر گامزن ہو؟ کہاں سے چلے اور کہاں پہنچے؟
بس یہ دن ہیں جو ہمارا سرمایہ ہے۔ یہی زندگی ہے جو ہم پر اس کا احسان ہے۔ اس احسان کو محسن کے نام پر ہی گزار دیا جائے تو منزل حاصل ہو گئی۔ ورنہ وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کا فضل شامل حال ہو تو سونے والوں کو سرفراز کر دے۔ انہیں سب کچھ عطا کر دے اور اگر چاہے تو جاگنے والوں کو محروم دو عالم کر دے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں نے منزلیں پالیں۔ نہیں۔ یہ سارا کام کرنے والے کا اپنا ہی کام ہے۔ مسافر اس کے ،مقصد اس کے ،مسافرت اس کی ،منزلیں اس کی ،سرفرازیاں اس کی اور سب احسان اسی کے۔ ہمارے ذمہ ایک ہی کام ہے کہ دینے والے کا شکر ادا کرتے جاؤ ،کیا منزل اور کیا نہ منزل۔ اس کا شکر اس کے آگے سرنگوں رہنا۔ وہ عطا فرما دے ،اس کا شکر۔ وہ زندگی واپس طلب فرما دے تو کیا انکار۔
یہی منزل ہے کہ منزل تسلیم منزل رضا ،منزل تشکر۔ جو ملا اس کا شکریہ ،جو نہ ملا وہ ہمارا تھا ہی نہیں۔
ویسے بھی اپنے مقاصد بنانا ،اپنے منصوبے بنانا ،اپنی منزل کا تعین کرنا ،اس کی تلاش کرنا اپنی جگہ پر درست ہو گا لیکن پہلے یہ تو سوچ لینا چاہئے کہ ہم خود کسی اور کا پروگرام ہیں۔ کسی اور کا مقصد ہیں۔ کیوں نہ اسے دریافت کیا جائے یعنی مقصد کی تلاش کا مقصد ہی ہماری تلاش ہے۔
ہم وہی جاننا چاہتے ہیں جو وہ چاہے۔ وہ ہے اور ضرور ہے۔ بس کہاں ہے؟ جس نے یہ راز دریافت کر لیا اس نے یہی کہا کہ اس کی معرفت یہی ہے کہ اس کی معرفت نہیں ہو سکتی۔ اس کا حاصل یہی ہے کہ اس کو حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اس کو دیکھنا ناممکن ہے ،سوائے اس کے کہ اس کو دیکھنے والے کو دیکھا جائے۔ یہی پہچان ہے ،یہی منزل ہے اور اسی جانب سفر ہی ہمارا مقصود اور ہماری مراد ہے۔ توفیق وہ عطا فرمائے۔ عازم سفر ہم ہیں۔ اگر یہ منزل نہ ملے تو ہر سفر باطل ،ہر منزل بولہبی ہے۔ یہی وہ منزل ہے جو ہم سے پہلے بھی موجود تھی اور ہمارے بعد بھی موجود رہے گی۔

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif