Episode 29 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 29 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

رابطہ
رابطہ یہ نہیں کہ پوسٹ بکس نمبر بتا دیا جائے۔ رابطہ اس خیال کا نام ہے جو کسی قاری کے دل میں مصنف کے بارے میں پیدا ہو۔ دل میں پیدا ہونے والا خیال ہی رابطہ ہے۔ اظہار میں آئے یا نہ آئے ،رابطہ ہی کہلائے گا۔
اگر ایک آدمی آپ کے پاس سے گزرا ،اس نے آپ کو دیکھا اور خاموشی سے آپ کی زندگی اور آپ کی حفاظت کے بارے میں دعا کر دی تو اس کے دل کا رابطہ قائم ہو گیا۔
ہزارہا رابطے خاموشی سے پلتے رہتے ہیں ،کوئی کوئی رابطہ ظاہر ہوتا ہے۔ ماں کا رابطہ اپنے بچے کے پیدا ہونے سے پہلے بھی ہوتا ہے۔ وہ بچے کے خیال میں سوتی ہے ،اسی کے خیال میں جاگتی ہے۔ اس کے خواب ،اس کی بیداری ،اس کے پروگرام اسی آنے والے بچے کے حوالے بنتے رہتے ہیں۔ پردیس جانے والے اپنے دیس کے رابطے میں رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

عمر پردیس میں کٹتی ہے اور رابطہ وطن میں رہتا ہے۔

ماں کی دعائیں رابطے کی شکل ہیں۔
ہم لوگ بعض اوقات یہ دریافت کرنے سے قاصر رہتے ہیں کہ کس کا کب ،کیسے اور کہاں رابطہ ہو گیا۔ استاد کی بات ،اس کا دیا ہوا علم جب تک قائم رہے ،استاد سے رابطہ ہے۔ استاد فوت ہو جائے تب بھی رابطہ ہے۔ اسی لئے معلم کی قدر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جو ذات معلم اخلاق ہے ،اس کا رابطہ کبھی ٹوٹ ہی نہیں سکتا۔
رابطے دلوں میں پلتے ہیں۔
محبت صرف رابطے کا نام ہے۔ ایک آدمی نے دوسرے انسان کو پسند کیا۔ آنکھوں نے چہرہ دیکھا ،دل نے قبول کیا۔ روح نے استقبال کیا ،رابطہ مستقل ہو گیا ہمارے غم ،ہماری خوشیاں اسی رابطے کی روشنی میں چلتے اور پلتے رہتے ہیں۔ وہ پرندے جو سرد علاقوں سے گرم علاقوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں ،وہ برفوں میں چھوڑے ہوئے اپنے انڈوں سے بھی رابطہ رکھتے ہیں اور یہاں تک بھی کہا جاتا ہے کہ اپنے دل اور اپنی نگاہ کی گرمی سے انڈوں کو گرم رکھتے ہیں ،انہیں سیتے ہیں۔
دنیا میں نظر آنے والی حرکت رابطوں کی تفسیم ہے۔ بندے کا رابطہ خدا کے ساتھ ،چاہے اس کا اظہار ہو یا نہ ہو ،قائم رہتا ہے۔ مالک ہونے کی حیثیت سے وہ زندگی دینے والا زندگی واپس لے لے ،تب بھی رابطہ قائم رہتا ہے۔ وہ ہر حال میں آپ کی سانس میں ہے۔ آپ کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ اس کے رابطے اس کی ذات کی طرح پراسرار اور پرتاثیر ہوتے ہیں۔
ایک رابطہ جو ہم خدا کے ساتھ رکھتے ہیں اور ایک رابطہ جو خدا ہمارے ساتھ رکھتا ہے۔
یہ زندگی رابطوں کی داستان ہے۔ رابطے ہی رابطے ،لطف ہی لطف ،رونق ہی رونق۔ رابطوں کو نہ ماننے والے شاید اس حقیقت کو نہ سمجھ سکیں لیکن یہ ایک امر واقعہ ہے کہ ہم ماضی میں زندہ ہیں ،ہم حال میں زندہ ہیں ،ہم مستقبل میں زندہ ہیں۔ یہ ہزار ہائبریاں ماضی کے مصنفوں کے ساتھ ہمارے رابطوں کی داستان دلنشیں ہے۔ اگر مصنف فانی تھا ،مر گیا۔ اس کا ذکر ضروری نہیں تو پھر اس کی کتاب کیا ہے؟ کتاب مصنف کے پاس لے جاتی ہے ،اس کے دل میں لے جاتی ہے ،اس کے دماغ میں لے جاتی ہے اور ہم اس رابطے سے اکتساب فیض کرتے ہیں۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں کسی مصنف کو نہیں مانتا ،کسی کی ”کیمیائے سعادت“ کو نہیں مانتا یا کسی ”نہج البلاغت“ کو نہیں مانتا یا کسی ”کشف المحجوب“ کو نہیں مانتا کہ ان کے مصنف مر گئے ،ختم ہو گئے تو ادب سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ قرآن کو زندہ کلام کیسے مانتے ہو اور حدیث کو زندہ کلام کیسے مانتے ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز ،ہر گزری ہوئی چیز ،اتنی زندہ ہے کہ اندازہ کرنا مشکل ہے۔
کسی آدمی کا باپ فوت ہو جائے ،قبر میں دفن ہو جائے۔ اگر وہ گزر گیا ،ختم ہو گیا تو قبر کیا ہے اور کیوں؟ اگر قبر صاحب مزار کے نام سے موسوم ہے تو ہر مزار اپنے صاحب مزار کے رابطے کا ذریعہ بنتا ہے۔
ہم انہی رابطوں میں پلتے ہیں ،انہی رابطوں پر چلتے ہیں ،یہی رابطے ہماری سند ہیں ،یہی رابطے ہماری گزرگاہ خیال کے راستے ہیں۔ انہی شاہراہوں پر وقت کے قافلے چلتے رہے۔
وہ قافلے کہیں غائب نہیں ہو سکتے ،کہیں عنقا نہیں ہو گئے ،کہیں معدوم نہیں ہو گئے۔ وہ سارے زمانے کے چہرے پر اپنے نقش مرتسم کر گئے۔
تاریخ ماضی سے رابطہ ہے اور مذہب ،مذہب تو ہے ہی رابطے کا نام۔ ہم کلمہ پڑھتے ہیں اور شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں کلمہ پڑھنے والابنایا ،ہم کو ایمان عطا فرمایا اور ہمیں ایک ایسے نبی معظمﷺ پر ایمان لانے کی سعادت بخشی کہ جو آج سے بہت عرصہ پہلے تشریف لائے۔
اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ اپنے زمانے تک موجود تھے اور اس کے بعد نعوذ باللہ موجود نہیں ہے تو سوچنا پڑے گا کہ صحابہ کرام نے جو کلمہ پڑھا اور جو کلمہ ہم پڑھ رہے ہیں ،اس میں بنیادی فرق ہے۔ حضور اکرمﷺ کی زندگی اور موجودگی میں حضورﷺ پر ایمان لانا ایک دیکھی ہوئی بات تھی۔ آج جب وہ ذات ہمارے درمیان اس حالت میں موجود نہیں ہے تو ہم اس کا کلمہ اس یقین سے کیسے پڑھیں ،اس کی شہادت اتنے وثوق سے کیسے دیں ،جو ان لوگوں کے پاس تھی ،جو آپﷺ کے زمانے میں تھے۔
حقیقت تو یہی ہے کہ ہم بھی جو کلمہ پڑھتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو حضورﷺ کے اتنا ہی قریب مانتے ہیں ،جتنا وہ لوگ مانتے ہیں۔ کیونکہ رابطہ جغرافیائی نہیں ،تاریخی نہیں ،وجودی نہیں بلکہ یہ ایک روحانی رابطہ ہے۔ وہ رابطہ آج بھی اتنا ہی قوی ہے ،اتنا ہی لافانی ہے جتنا پہلے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کلمہ پڑھنے والے کل کے کلمہ پڑھنے والے کے برابر ہے۔
جن لوگوں کے زمانے میں نزول قرآن ہوا ،انہوں نے دیکھا کہ کس طرح نزول کی کیفیات پیدا ہوئیں۔ ہمارے سامنے یہ واقعہ نہیں ہوا لیکن ہمارا ایمان اتنا ہی قوی ہے کہ یہ کلام اللہ کا کلام ہے ،جبرئیل امین کا لایا ہوا ہمیشہ رہنے والا حضور اکرمﷺ کی زبان سے نکلا ہوا اور یہ کلام ہمیشہ ہی اپنی تمام تقدیس کے ساتھ محفوظ اور قائم رہے گا۔ لوگوں نے اس رابطے کے بارے میں بہت سے شبہات پھیلائے ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ حضور پاکﷺ اللہ کے رسولﷺ ہیں ،ہمیشہ کیلئے ہیں اور ہمیشہ کیلئے ہیں اور جو ہیں انہیں تھے نہیں کہہ سکتے۔ سچ تو یہ ہے کہ جس ذات پر نزول کلام مجید ہو ،وہ ذات کم نہیں ہے ،مقدس کتاب ہے۔ حضورﷺ کے رابطے کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ کلمہ ہی رابطہ ہے اور رابطہ ہی کلمہ ہے۔
ہر اسم اپنے مسمی کے ساتھ رابطہ رکھتا ہے اور یہ رابطہ کبھی ضائع نہیں ہوتا۔
ہم جس اسم کو پکارتے ہیں ،اس کے مسمی تک ہماری پکار پہنچتی ہے اور ہمیں جواب ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ انسان کی اصلاح بھی اور اس کا عرفان بھی ان رابطوں کا مرہون منت ہے۔ روح ،روح کو گائیڈ کر سکتی ہے۔ اب تو مغرب اور سائنس زدہ مغرب نے بھی روحانی رابطوں کو تسلیم کر لیا ہے۔ انسان ایک ماحول میں رہتا ہے اور ممکن ہے اس کے رابطے کسی اور حاصل سے ہوں۔
دل کی باتیں دل والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ روح کی دنیا روح والے ہی پہچانتے ہیں۔ راز کا عالم راز جاننے والوں پر آشکار ہوتا ہے۔ اگر ماضی کے رابطے ختم کر دیئے گئے تو کسی مستقبل پر ایمان لانا ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ قوم بزرگوں کے دن مناتی ہے۔ اس دن بزرگ لوگ اپنی عارضی رخصت کے باوجود اپنے دنوں کے منائے جانے کا لطف حاصل کرتے ہیں۔
قائداعظم کے مزار پر حاضری دینا قائد کی روح کو سلام ہے اور اس کیلئے آسودگی کا پیغام۔ اسی طرح باقی لوگوں کے آستانوں پر ہماری حاضریوں کا عالم ہے۔ انسان سوچ سمجھ کر غور کے ساتھ اپنے رابطوں کو دریافت کرے ،اپنے رابطوں کی حفاظت کرے اور اپنے رابطوں سے ہو سکے تو قوم کو آگاہ کرے۔ اقبال نے پیر رومی سے رابطہ کیا ،حالانکہ پیر رومی کوئی زندہ انسان نہیں تھے اور پیر رومی کا فیض اقبال کے اندر بولا ،قوم نے دیکھا، قوم نے سوچا ،قوم نے فیصلے کئے ،فیصلے کامیابیوں سے سرفراز ہوئے اور آج ہی فیصلے ہمارے ہم ہونے کا جواز ہیں۔
غور سے دیکھنے والی بات ہے کہ اگر آپ کو اچھی بات کہیں ،اچھا کلام تحریر کریں تو آپ کیلئے ہزار ہا اٹھے ہوئے ہاتھ آپ کی صحت اور زندگی کی دعا کیلئے تیار ہوں گے۔ کسی کا نام نہیں معلوم ،کسی کا چہرہ نہیں دیکھا لیکن ان سے رابطہ ہے ،ان کا آپ سے رابطہ ہے۔ رابطے آپ کو تقویت دے رہے ہیں اور آپ اسی تقویت سے اپنے اپنے سفر پر گامزن ہیں۔
خدا ہمارے روحانی رابطوں کی حظاظت فرمائے۔ انہیں ہمارے لئے دعا دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں ان کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے استادوں کی خیر ،ہمارے بزرگوں کی خیر ،ہماری تاریخ کی خیر اور ہمیں ایمان کی دولت عطا فرمانے والوں کی خدمت میں سجدہٴ نیاز۔

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif