Episode 24 - Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 24 - حرف حرف حقیقت - واصف علی واصف

جواز ہستی
اگر انسان کی کوئی آرزو پوری نہ ہو بلکہ ہر آرزو ٹوٹ چکی ہو یہاں تک کہ آرزو پیدا کرنے والا دل بھی ٹوٹ چکا ہو تو اس آدمی کیلئے جینے کا کیا جواز ہے؟اگر انسان کی زندگی ایک ایسی تاریک رات کی طرح ہو جس میں دور دور تک کسی روشن ستارے کے دکھائی دینے کا امکان نہ ہو ،جس میں چاند نام کی کوئی شے نمودار نہ ہو حتیٰ کہ کسی جگنو کی روشنی بھی نظر نہ آئے ،ایسے آدمی کیلئے جواز ہستی کیا ہو سکتا ہے؟
جب انسان کا راستہ چلتے چلتے اچانک بدل جائے اور اسے اس وقت معلوم ہو جب وہ آدھے سے زیادہ راستہ طے کر چکا ہو اور اسے واپس لوٹنا بھی اتنا مشکل نظر آئے جتنا آگے جانا۔
اس سے نہ بھاگا جائے اور نہ ٹھہرا جائے تو ایسا آدمی زندہ رہنے کا کیا جواز حاصل کر سکتا ہے؟
جب انسان کے دوست اور اس کے دشمنوں میں فرق باقی نہ رہے تو اسے جینے اور مرنے کے درمیان کیا فرق معلوم ہوگا۔

(جاری ہے)

اپنے اور بیگانے کے درمیان کوئی امتیاز باقی نہ رہے گا بلکہ رشتے ناطے باعث مسرت ہونے کی بجائے باعث اذیت بنتے جائیں تو وہ آدمی کس طرح اپنے زندہ رہنے کا جواز تلاش کرے… جب انسان اس وسیع کائنات میں اس کی وسعتوں اور آزادیوں کے باوجود اپنے آپ کو پابند و تنگ دامن محسوس کرے ،اسے بھری کائنات میں جائے پناہ نظر نہ آئے ،اسے یوں محسوس ہو کہ آسمان سر پر گرا چاہتا ہے یا زمین پاؤں تلے سے نکلا چاہتی ہے تو وہ اپنے احساس کی کسمپرسی کے عالم میں اتنا ستم زدہ محسوس کرے گا کہ اسے نہ جینے کا جواز ملے گا نہ مرنے کا۔

آدمی جب سفر کرتے کرتے عمر گزار دے ،صدیاں گزر جائیں ،عرصے بیت جائیں اور اسے محسوس ہو کہ چلتے چلتے عمر کٹ جانے کے بعد بھی سفر نہیں کٹا۔ وقت کٹ جائے اور فاصلہ نہ کٹے تو زندہ رہنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے؟
جب انسان کو معلوم ہو جائے کہ علم حاصل کرتے کرتے وہ جہالت تک پہنچ چکا ہے تو اسے اپنی محنتوں کو عزت سے دیکھنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے اور وہ زندہ رہنے کے استحقاق کو مذاق سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
علم حاصل نہیں ہو سکتا اور زندگی سے محروم ہونا پڑتا ہے تو ایسی کوشش کا کیا انجام۔ انسان حاصل کی تمنا میں لاحاصل کے پیچھے دوڑتا ہے۔ اس بچے کی طرح جو تتلیاں پکڑنے کے مشغلے میں گھر سے بہت دور نکل جاتا ہے نہ تتلیاں ملتی ہیں نہ واپسی کا راستہ۔ ایسی آرزو کا کیا انجام اور ایسی زندگی کا کیا جواز؟
جب انسان پر ایسا وقت آ جائے کہ اسے چشمہ آب حیات نظر آئے لیکن اس کی رسائی نہ ہو ،وہ بدستور پیاس میں مبتلا رہے تو اسے سانس لینے کا کیا حق باقی رہ جاتا ہے۔
وہ جانتا کہ سب کچھ موجود ہے لیکن اس کیلئے ہر امکان کے باوجود کچھ بھی نہیں تو وہ اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی بے معنی کوشش سے کیوں تکلیف دے گا؟
جب انسان کی زندگی اس بڑھیا کی طرح ہو جائے جس نے محنتوں کے ساتھ سوت کاتا اور آخر میں اسے الجھا دیا تو وہ آدمی کیا زندہ رہے گا۔ عمر کی کمائی اس کے ہاتھ سے یوں نکل جائے جیسے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں تو وہ کیا کرے؟ کمائیاں ساتھ نہ جائیں اور ساتھ لے جانے کیلئے کمائی کوئی نہ ہو تو ایسی صورت میں زندہ رہنا بھی کیا زندہ رہنا ہے۔
جب انسان کے اعضا و جوارح اس سے باغی ہو جائیں ،اس کے اپنے ،اپنے نہ رہیں ،اس کے معاون ،اس کے اپنے معاون اس کے خلاف گواہ بن جائیں اور وہ دیکھتا رہ جائے۔ اسے محسوس ہو کہ اس کا اپنا وجود بھی اس کے اپنے کام کا نہ تھا تو وہ کیا محسوس کرے گا؟ اسے اس چیز کا احساس ہو کہ جو کرنا چاہئے تھا ،اس نے نہیں کیا اور جو کچھ نہیں کرنا چاہئے تھا ،وہ کچھ اس نے کیا تو اب وہ کس امید پر جینے کی تمنا کرے۔
جو کچھ حاصل کیا گیا ،یہی اس کے اپنے خلاف گواہی ہے۔ اب اپنے حاصل سے نجات پانا بھی ممکن نہیں، بھاگنا بھی ممکن نہیں ،ٹھہرنا بھی ممکن نہیں۔ ایک ایسے انسان کی طرح کس کے وجود کے ساتھ ایک ٹائم بم بندھا ہوا ہے اور وہ خطرے سے ڈر کر بھاگتا جا رہا ہے۔ جس خطرے سے وہ نجات چاہتا ہے ،وہ اس کے ساتھ ہی بندھا ہے۔ خطرہ اندر ہو تو باہر دوڑنا کس کام کا؟ اپنے اندر کے خطرے سے اندر کی دوڑ بچاسکتی ہے۔
اندر کی دوڑ کیا ہے؟ اس بات کی سمجھ نہ آئے ،تو جینے کا کیا جواز؟
اگر انسان کے پاس نیکی کے نام پر اکٹھا کیا ہوا بلکہ لوٹا ہوا مال موجود ہے اور اس سے نیکی سرزد نہ ہو سکے ،اس مال کو دیکھ کر اسے جینے سے وحشت پیدا ہو جائے گی۔ اس آدمی کیلئے آنے والا زمانہ گزرے ہوئے زمانے سے زیادہ خوفناک ہوگا۔ اس کی رات تاریک سے تاریک تر ہوتی جائے گی۔
وہ اپنے آپ کو زندہ رہنے کے قابل کیسے سمجھے گا۔
اگر انسان ایسی حالت میں پہنچ جائے ،اگر اسے تنگی ،حالات اور تنگی خیالات کا احساس ہو ،اگر اسے ہر طرف تاریکیاں نظر آئیں ،اگر اسے زندہ رہنے کا جواز نظر نہ آئے تو بھی اسے گھبرانا نہیں چاہئے۔ ہم زندہ رہنے کیلئے جو جواز تلاش کرتے ہیں ،اس کے علاوہ بھی زندگی کے جواز موجود ہیں۔ زندگی عطا فرمانے والے نے یہ انعام بے جواز نہیں عطا فرمایا۔
اس کا کوئی عمل بے جواز نہیں۔ اس نے کوئی تخلیق عبث نہیں فرمائی۔ اس کی کوئی بات بے معنی نہیں ہو سکتی۔ انسان کی مایوسیوں کے گھپ اندھیروں میں بھی ایک روشنی کا چراغ، جو ہمیشہ روشن رہتا ہے ،نظر آ سکتا ہے۔ یہ چراغ پیشانی کے اندر ہوتا ہے اور یہ سجدے میں نظر آتا ہے۔ بے بس انسان کا سجدہ ہی ہے بسی کا علاج ہے۔ یہی اندھیروں کا سورج ہے۔ یہی نشان منزل ہے اور یہی رفیق طریق ہے۔
ارشاد ہے۔ ”تمہارے دل سخت ہو گئے جیسے کہ وہ پتھر ہوں“ آگے ارشاد ہے ”میرے پتھروں سے بھی نہریں جاری ہیں۔“ گویا پتھر بھی پتھر نہیں رہتا۔ اگر اس میں سے نہر جاری ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر طرف پتھر دل انسان ،پتھرائی ہوئی آنکھوں والے ،پتھر کے چہروں کے ساتھ نظر آتے ہیں لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو ان پتھروں کے اندر سے نہریں جاری ہیں۔
بے فکر انسان بھی بڑے فکروں میں مبتلا ہیں۔ اپنا دل زندہ کرو،ہر طرف زندگی نظر آئے گی۔
زندگی کے جواز تلاش نہیں کئے جاتے ،صرف زندہ رہا جاتا ہے۔ زندگی گزارتے چلے جاؤ ،جواز مل جائے گا۔ اگر آپ کو کسی طرف سے کوئی محبت نہیں ملی ،تو مایوس نہ ہوں۔ آپ خود ہی کسی سے محبت کرو۔ کوئی باوفا نہ ملے ،تو کسی بے وفا سے ہی سہی۔ محبت کرنے والا زندگی کو جواز عطا فرماتا ہے۔
زندگی نے آپ کو اپنا جواز نہیں دینا بلکہ آپ نے زندگی کو زندہ رہنے کیلئے جواز دینا ہے۔ آپ کو کوئی انسان نہ نظر آئے تو کسی پودے سے پیار کرو ،اس کی پرورش کرو ،اسے آندھیوں سے بچاؤ ،طوفانوں سے بچاؤ ،وحوش و طیور سے بچاؤ ،تیز دھوپ سے بچاؤ ،زیادہ بارشوں سے بچاؤ۔ اس کو پالو ،پروان چڑھاؤ۔ پھل کھانے والے کوئی اور ہوں ،تب بھی فکر کی کوئی بات نہیں۔
کچھ بھی نہیں ہو تو یہی درخت کسی مسافر کو دو گھڑی سایہ ہی عطا کرے گا۔ کچھ نہیں تو اس کی لکڑی کسی غریب کی سردی گزارنے کے کام آئے گا۔ آپ کی محنت کبھی رائیگاں نہیں جائے گی۔ آپ کو زندہ رہنے کا جواز اور ثواب مل جائے گا۔ کچھ نہ ہو سکے تو کسی پتھر کو صیقل کرو ،پالش کرو ،اس پر محنت کرو ،پتھر کا آئینہ بن جائے گا۔ آئینے کے اندر زندگی کا جواز لکھا ہوا ہوگا۔
اگر آپ کی نگاہ بلند ہونے سے قاصر ہے ،تو اپنے پاؤں کے پاس دیکھو۔ کوئی نہ کوئی چیز آپ کی توجہ کی محتاج ہو گی۔ کچھ نہیں تو محبت کا مارا ہوا کتا ہی آپ کیلے زندہ رہنے کا جواز مہیا کرے گا۔
یہ کائنات آپ کی توجہ کی محتاج ہے۔ کائنات سے توجہ طلب کرنا اتنا اہم نہیں جتنا اس کو توجہ دینا اور یہی جینے جواز ہے۔ دنیا مایوس ہو کر زندگی کے جواز سے ،زندگی کے جواز کی رائیگاں تلاش میں ہے۔
آپ لوگوں کی اس تلاش کو اپنی توجہ سے سرفراز کرو۔ دنیا توجہ مانگ رہی ہے۔ اپنا گردو پیش آپ کی اپنی نگاہ توجہ کا طلب گار ہے۔
انسان پر کبھی راستہ بند نہیں ہوتا۔ یہ بات یاد رکھی جائے کہ ہر دیوار کے اندر دروازہ ہے جس میں سے مسافر گزرتے رہتے ہیں۔ مایوسیوں کی دیواروں میں اس کی رحمت امید کے دروازے کھولتی رہتی ہے۔ انتظار ترک نہ کیا جائے۔
رحمت ہو گی۔ امید کا چراغ جلے گا۔ وہ وقت جس کا انتظار ہے ،آئے گا بلکہ وہ وقت آ ہی گیا۔ مایوسیوں کے بادل چھٹ جائیں گے۔ چراغاں ہوگا۔ انسان ،انسان کے قریب آ جائے گا۔ پتھر موم ہو جائے گا۔ دل محبت سے معمور ہو جائیں گے۔ پیشانیاں سجدوں سے سرفراز ہو جائیں گی۔ زندگی کو زندہ رہنے کا استحقاق مل جائے گا۔ انسان مایوس نہ ہو۔ کشتیاں جلا دی جائیں تو کامیابی قریب آ جاتی ہے۔
کامیابی یہی ہے کہ زندگی کو وثوق مل جائے۔ آرزوئیں پوری نہ ہوں تو بے آرزو رہنے کی آرزو پیدا کر دی جائے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ کامیابی کسی نقطے کا نام نہیں۔ یہ مزاج کا نام ہے۔ بڑے بڑے فاتحین جنگیں ہارنے کے بعد بھی فاتحین ہی رہے۔ ہمارے پاس مثال موجود ہے جسے اللہ تعالیٰ نے فتح مبین قرار دیا۔ کربلا کی شکست فتح کی بشارت ہے۔ ہم جسے تاریکی سمجھ رہے ہیں ،یہی صبح کاذب تو صبح صادق کا آغاز ہے۔ چلتے چلیں ،منزلیں خود ہی سلام کریں گی۔ دنیا کے خلاف فریاد نہ کریں۔ کوشش کریں کہ کوئی آپ کے خلاف فریاد نہ کرے۔ دوسروں کو خوش کریں۔ خوشی خود ہی مل جائے گی اور یہی جینے کا جواز ہے۔

Chapters / Baab of Harf Harf Haqeeqat By Wasif Ali Wasif