Episode 34 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 34 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

(۴۳)
نازک کلی … … معصومیت کی تصویر …… میرا لختِ جگر …… میری بھولی بھالی بچی میری اپنی، ماما کے ساتھ میرے کمرے میں آئی۔
تتلی ایسے خوبصورت لباس میں کیسی بھلی معلوم ہو رہی ہے۔ میں نے اسے گود میں اٹھا کر اس کے بالوں کو چومنا شروع کردیا۔ کبھی اسے چھاتی سے لگاتا نازک رخساروں کا بوسہ لیتا، بھینچ لیتا۔
میری ان حرکات سے حیران اپنی ماما کی طرف دیکھ رہی ہے۔ جو کونے میں اس منظر سے متاثر کھڑی آنسو بہا رہی ہے۔
”میری! میری پیاری“ یہ کہہ کر میں نے اسے رنج والم سے پر چھاتی سے زور کے ساتھ بھینچ لیا۔
”آہ! جناب! آپ مجھے تکلیف دے رہے ہیں۔“ مَیری نے ہلکی سی چیخ مارتے ہوئے کہا۔
جناب! آہ! بلند آسمان! اسے مجھ سے جدا ہوئے قریباً ایک سال کا عرصہ ہوگیا ہے۔

(جاری ہے)

وہ مجھے بھول گئی، اس کے ذہن سے باپ کی شکل وشباہت اور آواز محو ہوگئی۔ اس کے علاوہ مجھے اس ہیبت کذائی میں پہچاننا بھی تودشوار تھا۔ لمبی سی داڑھی یہ ذلیل لباس۔ اُف!! کیا میری تصویر اس کے ذہن سے اتر گئی ہے جس میں ،میں اسے منقش کرنا چاہتا تھا۔
کیا میں اپنی بیٹی سے اسی پیار سے اور شیریں لہجہ میں باپ کہتے ہوئے نہ سنوں گااُف دماغ پھٹا جاتا ہے، دل ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔
جناب! اُف! یا میرے خدایا
آہ! میں اپنی چالیس سالہ زندگی کے بدلے صرف ایک چیز کا خواہش مند ہوں اپنی موت کے عوض ایسا لفظ چاہتا ہوں، اپنی پیاری بیٹی کے منہ سے صرف باپ کا لفظ!
”دیکھو مَیری! کیا تم مجھے جانتی ہو؟“ میں نے اس کے ننھے اور سپید ہاتھ آپس میں جوڑتے ہوئے کہا۔
میری طرف چمکتی ہوئی نگاہوں سے دیکھ کر بولی۔ ”جی نہیں۔
”مَیری غور سے دیکھو تو میں کون ہوں؟“
”شریف آدمی“ اس نے بھولے پن سے جواب دیا۔
آہ! جس ذات سے میری تمام خواہشیں اور مسرّتیں وابستہ ہیں، جو میری محبت کا مرکز ہے، میرے سامنے باتیں کر رہی ہے مگرمجھے نہیں پہچانتی۔ اپنے تیرہ بخت باپ کی صورت سے نا آشنا ہے۔
میں اس سے تسکین قلب کا خواہاں ہوں، مگر وہ اس سے بے خبر ہے، نہیں جانتی کہ اس کے والد کو جس کی موت میں صرف چند گھنٹے باقی ہیں، اس کے منہ سے صرف ایک کلمہ سننے کی خواہش ہے۔
”مَیری! کیا تمہارا باپ ہے۔“
”جی ہاں“
”تو پھر وہ کہاں ہے۔“
وہ اس کاجواب دینے سے قاصر رہی۔
”تمہیں معلوم نہیں کہ وہ مرگیا ہے“ یہ کہنا ہی تھا کہ رونے لگ پڑی۔
”مرگیا ہے؟ میری کیا تمہیں معلوم ہے کہ مرنا کسے کہتے ہیں؟“
”جی ہاں! وہ آسمان پر ہیں، میں ان کے لئے امی کے ساتھ ہر روزدعا مانگاکرتی ہوں۔
اس نے جواب دیا۔
”مَیری وہ دعا توسناؤ۔“
”نہیں جناب دعا تو رات کے وقت مانگی جاتی ہے۔ نہ کہ دوپہر کے وقت، اگر سننی ہو تو کسی دن رات کو میرے گھر آئیے۔“
بس! بس! یہ لفظ میرے مجروح دل کی نمک پاشی کے لئے کافی ہیں میں اور کچھ سننا نہیں چاہتا۔
”مَیری! میں تمہارا باپ ہوں۔“ میں نے گفتگو کا رُخ بدلتے ہوئے کہا۔
”ہیں!“ مَیری نے حیرت سے کہا۔
”کیا میں تمہیں پسند نہیں؟“
”نہیں جناب! میرا باپ تو بہت خوبصورت تھا۔“
میں نے اس کے چہرے کو اپنے آنسوؤں اورلگا تار بوسوں سے تر کردیا، وہ گھبرائی اور چیختے ہوئے کہنے لگی۔
”آپ تو میرے رخسار اپنی داڑھی سے چھیل رہے ہیں۔“
میں نے اسے اپنے گھٹنوں پر بٹھا لیا اور کہا۔ ”مَیری تم پڑھ سکتی ہو؟“
”میں پڑھ سکتی ہوں۔
امی مجھے ہر روز پڑھایا کرتی ہیں۔“
”اچھا تو یہ پڑھو“ میں نے اس کے ہاتھ سے ایک چھپا ہوا کاغذ لیتے ہوئے کہا۔ جس سے وہ غالباً کھیل رہی تھی۔ اس نے کاغذ کو کھولا، اور ننھی سی انگلی رکھتے ہوئے لفظوں کے ہجے کرنے لگی۔ ف ا ت۔ فت۔ و۔ ی، وی۔ م، و مو، ت، موت فتویٰ موت میں نے اس کے ہاتھ سے کاغذ چھین لیا۔ وہ میر ی سزائے موت کا فتویٰ پڑھ رہی تھی جو بازار میں ایک پیسہ کو بک رہا تھا۔ اس نے اسے غالباً اپنی ماما سے لیا ہوا۔
اس وقت میرے دل کی جو حالت ہوئی وہ احاطہ تحریر سے باہر ہے۔
”خدا کے لئے لے جاؤاسے“ یہ کہہ کر میں کرسی پر گر پڑا۔ اب مجھے کسی کا خوف نہیں جب کہ میرے بربط دل کا آخری تار بھی ٹوٹ گیا ہے۔ میں موت کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto